Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Musa Raza Afandi/
  3. Dua Ki Zaroorat

Dua Ki Zaroorat

دُعا کی ضرورت

قارئین اس بات کے شاہد ہیں کہ میں سیاسی موضوعات پر طبع آزمائی کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ ہماری سیاست پستیوں کی عمیق گہرائیوں میں اِس حد تک دھنس چکی ہے کہ اُس کے حق اورخلاف بولنے والوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ لگتایوں ہے ک ہماری سیاست سے اچھائی اور برائی کا تصور ہی مٹ چکا ہے۔ جب اقدار اس حد تک گر جائیں کہ دھوکہ باز عقلمند اور ایماندار بیوقوف مانا جائے تو ایسے وقت میں آدمی چاہے بائیں کھڑا ہو یا دائیں، آگے ہویا پیچھے اس سے اُس کے مقام مرتبے اور پہچان میں کوئی فر ق نہیں پڑتا۔ اسلئے کہ شیشے کو رگڑنے سے منہ کی کالک دُھل نہیں جاتی۔

غالباً 20یا 21دسمبر 1971کے ایک مشہور برطانوی اخبار میں شائع ہونے والی ایک تصو یر جس میں کراچی کے ڈائو میڈئیکل کالج کے طلباء کی رعا یتی نمبروں کے لئے ہڑتال دکھائی گئی تھی، کا عنوان لکھا تھا "یہ اُس ملک کے طلباء ہیں جن کا ملک صرف تین دن پہلے ٹوٹاہے" ہمیں تو اُس وقت بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ اس کے بعد سوشلزم خطرے میں پڑا اور ضیا الحق کا اسلام نافذ ہو گیا۔ پھر اسکے بعد سے مسلسل اسلام خطرے میں ہے لیکن رہے نام اللہ کا اگر ہر قسم کے خطرات سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی چیز خوش قسمتی سے مکمل طورپر بچی رہی ہے تو وہ ہماری سیاست ہے۔ وہ سیاست جو اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ آج بھی طمطراق سے دنیا بھر کا اِس طرح منہ چڑارہی ہے۔ حسن کاظمی کا ایک شعر پتہ نہیں کیوں یاد آگیا ہے۔

افسوس یہ نہیں ہے کہ وہ مرا نہیں ہوا

وہ شخص ساری عمر کسی کا نہیں ہوا

ہماری سیاست پگھلے ہوئے اُس لوہے کی مانند ہے جسے کسی بھی قالب میں کوئی بھی ڈھال سکتاہے۔ شرط صرف اُسے پگھلانے کی ہے۔ لوہا اگر آگ سے پگھلتا ہے تو ہماری سیاست روپے، ڈالر اور دینار سے پگھلتی ہے اب پگھلی ہوئی سیاست کو دوستوں کے لئے استعمال کیا جائے، دشمنوں کے لئے، اپنوں کے لئے، پرائیوں کے لئے بڑی آسانی سے استعمال جاسکتاہے۔ کیوں؟ اسلئے کہ اسکی اپنی کوئی اوقات نہیں ہے بھلا پگھلے ہوئے کی کیا اوقات ہوسکتی ہے؟ ا س سے اُن کی اوقات کا بھی بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو اس پگھلی ہوئی سیاست پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جن کا جینا مرنا اِسی سیاست کا مرہون منت ہے۔

اب اس سیاست سے نجات کا کیا طریقہ ہے؟ جس کے سائے میں ہم پیدا ہوئے، پلے بڑے اور اب زندگی کے آخری حصے میں اسی پگھلی ہوئی سیاست کے سائے تلے باقی ماندہ سانسیں لے رہے ہیں۔ میں جب نیا نیا جنوبی کوریا میں تعینات ہوا تو مقامی زبان سے نا آشنا ہونے کے باعث سفارتخانے میں میری مقامی سیکرٹری کسی میٹنگ وغیرہ میں جاتے ہوئے مجھے اہم عمارتوں اور دفاتر کے متعلق بتایا کرتی تھی۔ سیئول کا دریائے ہان شہر کے بیچوبیچ بہتا ہے جس کے اوپر اُس وقت تک سترہ پل تعمیر ہوچکے تھے جو آبادی کے مسلسل بڑھنے کے باعث اب بھی کم پڑرہے تھے او رتین مزید زیر تعمیر پل اپنی تکمیل کے مراحل طے کررہے تھے ایک دن مجھے ایک پل بیچ میں سے ٹوٹا ہوا نظر آیا جو دریاکے عین وسط میں گراہوا تھا میرے پوچھنے پر سیکرٹری نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے یہ پل گرگیا تھا اور کافی لوگ ہلاک ہوگئے تھے اِس پر میں نے اُسے بتایا کہ میں نے یہ خبر پاکستان میں سنی تھی اور حادثے میں پچاس سے زائد اسکول کے بچے ہلاک ہوئے تھے۔ میری اِس بات پر اُس نے ایک لمبا سا ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا کہ کوریا کیلئے یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پل ٹوٹ گیا۔ وہ خاتون تو یہ بات کہہ کر چپ ہوگئی تھی لیکن میرادل کیا کہ کاش زمین پھٹے اور میں اس میں دھنس جائوں۔ وہ بی بی ایک پُل کے ٹوٹ جانے پر ایک کورین شہری ہونے کے ناطے شرمندگی محسوس کررہی ہے۔ ہمارا ملک ٹوٹ گیا اور ہمیں شرم نہیں آئی۔ اپنی پگھلی ہوئی سیاست سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم شرمندہ ہونا سیکھ جائیں ہمیں کسی با ت پر بھی شرم نہیں آتی۔ جن باتوں پر ہم دن رات دوسروں کو ر شرم کرنے پر شور مچاتے ہیں خود چوبیس گھنٹے اپنی باتوں کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ بلاجھجک سرعام کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔ اللہ سے التجاہے کہ وہ اسے اپنے حبیب ؐ کے صدقے میں اسے ہم پر رحم فرمائے۔ اے اللہ ہمارا ایمان ہے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔۔ ایک پتااپنی جگہ سے سرک نہیں سکتا۔ ذرے پرآفتاب کی روشنی نہیں پڑسکتی اور تیرے اذن کے بغیر کہکشائیں محو گردش نہیں رہ سکتیں۔

ہمیں شرم کیوں نہیں آتی؟ ہم کب تک بے شرم رہیں گے؟ ہماری سیاست کا واحد مقصد اکرسی کا حصول ہے۔ چودھراہٹ کی کرسی کا حصول ہے، چودھراہٹ کی کرسی کا حصول صرف ایوان اقتدار تک محدود نہیں ہوتا ظالم باپ، ہلاکواستاد، چھوٹا افسر یا بڑا افسر یا پھر بظاہر معمولی لیکن انتہائی چالاک اور نڈر کلرک، رشوت خور پٹواری، عدالتی کارندہ، قصائی ڈاکٹر اور جعلی پیر اور دوویش ہماری طرح طرح ہی کی کرسیوں کے گرد گھومنے والی بدمعاش اور بدبودار سیاست ہی کے رنگ رنگ مظاہر ہیں۔ غصہ، کمینگی، لالچ حسد کی طرح بے شرمی بھی عقل کو کھا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بے شرم کو عقل کی کوئی با ت سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم نے اوپر اٹھائے گئے تینوں سوالوں کے جواب دید ے ہیں۔ اس کا حل کیا ہے؟ جب کسی بات کا کوئی حل نہ رہے تو بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوجانا چاہے اور دعا کرنی چاہئے۔ آئیے پاکستان کے معصوم بچوں کو کہتے ہیں کہ وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھ اُٹھاکر اللہ سے دعا کریں، اے اللہ اے کن، سے کون ومکاں بنا دینے والے ہم پر رحم فرما!

Check Also

Aisa Kyun Hai?

By Azam Ali