Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. Aur Ab, 18 Wi Tarmeem (3)

Aur Ab, 18 Wi Tarmeem (3)

اور اب 18ویں ترمیم

پیپلز پارٹی اور ن لیگی قیادت نے 18ویں ترمیم کو جمہوریت کے مستقبل کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنوایا ہے۔ چلیں تسلیم کہ 1973ء کے متفقہ آئین پر دستخط کرنے کے بعد کم و بیش تین دہائی بعد پیپلز پارٹی اور ہاں، اُس کے ساتھ اُس وقت کی سب سے بڑی مخالف ن لیگ ہی نہیں۔۔۔ ولی خان کی اے این پی، مولانا فضل الرحمان کی جمعیت، بزنجو کی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور ق لیگ سمیت تمام جماعتوں کو اس بات کو کریڈٹ دینا چاہئے کہ انہوں نے ماضی میں خاص طور پر فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی جانے والی اُن ترمیم کو مکمل طور پر ختم کرنے کے ساتھ چھوٹے صوبوں کو صوبائی خود مختاری کے حوالے سے اتنا آزاد اور خودمختار کردیا کہ اب کم از کم دہائیوں سے لڑنے والے بلوچ اور پشتو ن کم از کم آئین اور اختیارات کے حوالے سے پاکستانی ریاست کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔

مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ 18ویں ترمیم کی ابتداء میں ہمارے دوست اُس وقت کے چیئر مین سینیٹ رضا ربانی اعتراف کرنے کے ساتھ اس بات پر بھی معذرت اجتماعی طور پر کرتے کہ خود اُن کے ادوار میں جو غیر آئینی، غیر جمہوری آمرانہ ترمیم کی گئیں، اُس پر وہ شرمندہ ہیں۔۔۔؟ 1973ء کے آئین کے خالق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اوپر اُن دو ترامیم کا ذکر کرچکا ہوں یعنی بنگلہ دیش کوتسلیم اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا کہ و ہ بہرحال اتفاق رائے سے منظور ہوئیں، مگر بھٹوصاحب کے دور میں تیسری اور چوتھی ترامیم تو اُن کے اقتدارکے سال، دو میں اس طرح کی گئیں کہ جب انہیں اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان، منظور کروارہے تھے تو اُس وقت کے مٹھی بھر ارکان قومی اسمبلی کو (جی ہاں یہی کوئی سترہ، اٹھارہ) کو سارجنٹ اینڈ آرمز اٹھا اٹھا کر اسمبلی فلور سے باہر پھینک رہے تھے۔

پیپلز پارٹی کے دور میں کی گئی تیسری ترمیم برا ہ راست انسانی حقوق اور آزادی ٔ اظہار پر ضرب ِ کاری تھی، ترمیم کے آرٹیکل 10کے تحت حکومت کو اس بات کا اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے کسی بھی مخالف کو جسے وہ قانونی طور پر محض ایک ماہ نظر بند رکھنے کے بعد عدالت میں پیش کرنے کی پابند تھی۔ اس ایک ماہ کی مدت کو تین ماہ تک بڑھا دیا گیا۔ اور پھر مزید ایک شق کے12ماہ کی نظر بندی کی مدت میں جو سیاسی مخالف کو کم ا ز کم چار بار عدالت میں پیش کر کے اُس کا مزید ریمانڈ لینے کی جو پابند رکھی گئی تھی، اُسے 24ماہ اور بعد میں پھر غیر معینہ مدت تک کردیا گیا۔۔ 73ء کے آئین کی تیسری ترمیم میں بھٹو صاحب کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ وہ "ایمرجنسی" یعنی ہنگامی حالت کا غیر معینہ مدت تک حکم صادر فرماسکتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں پارلیمنٹ کے دونوں مشترکہ ایوان سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ بھٹو صاحب سے73ء کے آئین کی تیسری آئینی ترمیم کے ذریعہ بنیادی جمہوری اور انسانی حق کو ہی بد قسمتی سے پامال کردیا۔ حالانکہ اس وقت بھٹو صاحب کسی بڑی اپوزیشن اور عوامی مخالفت کا سامنا نہیں تھا۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے چند صحافی الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمان شامی، اور ہاں ہمارے کامریڈ حسین نقی کے ساتھ ممتاز دانشور ایڈیٹر ڈان الطاف گوہر مستقل اُن سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے۔ مگر اس سے قطعی ایسا عوامی طوفان نہ اٹھا تھا جس کے لئے سیاسی مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے تیسری آئینی ترمیم جیسا سیاہ قانون لایا جاتا۔

چوتھی ترمیم کا تعلق جوڈیشری یعنی عدلیہ سے تھا۔ چوتھی ترمیم کے ذریعہ ہائی کورٹوں سے اس بات کا اختیار لیاگیا کہ وہ نقص ِ امن کے تحت نظر بند کو ضمانت نہ دیں۔۔۔ مگر اس ترمیم کے ذریعہ جو ہمالیہ سے بڑ ی غلطی کی گئی اُس نے "عدالتی نظام" کے تابو ت میں ہی کیل ٹھونک دی۔ یہ چوتھی ترمیم ہی تھی جس کے ذریعے ایک منتخب جمہوری حکومت اور آئین کے ہوتے ہوئے وہ مشہورِ زمانہ ٹریبونل تشکیل دیا گیا۔۔۔ جسے حیدر آباد سازش کیس سے منصوب کیا جاتا ہے۔ اس ٹریبونل کی کارروائی، حیدر آباد جیل کے چار پھاٹکوں کے اندر کی جاتی۔ نیپ کی حکومت توڑے جانے کے بعد ان کے رہنما خان عبد الولی خان، غوث بخش بزنجو سمیت 54رہنما توحیدر آباد جیل میں تھے ہی۔۔۔ مگرججز، اٹارنی جنرل، وکیل صفائی، گواہ بھی جیل کے اندر ہوتے۔ ایک طالب علم صحافی کی حیثیت سے مجھے بھی 1976ء میں اس ٹریبونل کی کارروائی دیکھنے کا موقع ملا تھا کہ شاعر ِ عوام حبیب جالبؔ سے نیاز مندی کے سبب انہیں سگریٹ، بسکٹ دینے جایاکرتا تھا۔ '73ء کے آئین میں کی جانے والی تیسری اور پھر چوتھی ترمیم کے بعد بھٹو صاحب کی حکومت نے خود اپنے پارٹی کے بانی رہنماؤں جیسے اے رحیم، معراج محمد خان، تالپور برادران، مختار رانا، غلام مصطفی کھر، حنیف رامے تک کو معاف نہیں کیا۔ اُس کے بعد جس انجام سے بعد میں گذرے۔۔۔ اُسے تاریخ کا جبر ہی قرار دیا جائے گا۔ افسوس کہ پاکستانی سیاست کا سحر انگیز سیاستداں، ایک فوجی حکمراں کے ہاتھوں انتہائی اذیت میں ہلاک ہوا۔۔۔ خود بھٹو صاحب نے کال کوٹھری سے لکھا کہ وہ تاریخ کے ہاتھوں قتل ہونے کو ترجیح دیں گے اور پھر ہوا بھی ایسا۔۔۔

جنرل ضیاء الحق کے فوجی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں تو آئین کے ساتھ انہوں نے وہی سلوک کیا جسے کہتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے تھے کہ "چند صفحات کا چیتھڑا" ہے۔۔۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چیتھڑے آئین کے تحت جو1985ء میں انہوں نے جو غیر جماعتی انتخابات کرائے اور جس میں تمام ہی سرکردہ سیاسی جماعتوں کے نمائندے تھے۔۔۔ دونوں ہاتھ کھڑے کر کے اس بات کی توثیق کی کہ آٹھویں آئینی ترمیم سمیت انہوں نے جتنے بھی غیر آئینی، غیر قانونی اقدامات کئے جس میں بھٹو صاحب کا جوڈیشل مرڈر بھی شامل تھا، عین آئین کے مطابق تھے۔

ہمارے جمہوریت کے آئینی و قانونی سرخیل 58-2B آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیشہ روہانسے ہوجایا کرتے ہیں۔ '90ء کی دہائی میں دو، دو بارایک دوسرے کی حکومتیں گرانے اور پھر بنانے والوں نے بالآخر میثاق ِ جمہوریت کے ذریعہ اپنے تئیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فوجی ڈکٹیٹر کا راستہ روک دیا تھا اور ایسا کرنے والوں کی سزا "بیچ چوک لٹکانا" ٹھہرایا گیا تھا۔ مگر پھر اکتوبر 1999ء میں کیا ہوا۔ جنرل مشرف نے جب میاں، بی بی کی حکومتوں کے دور میں کی گئی ترامیم کو بوٹوں تلے کچل کر نواز شریف کی حکومت ختم کی تو دلچسپ بات دیکھیں کہ نوابزادہ نصراللہ جیسے ڈیموکریٹ نے بھی تالیاں بجا ئی تھیں۔ بی بی بے نظیربھٹو کی پارٹی کی مجبوری تھی کہ نواز شریف کے ہاتھوں انہیں کم کچوکے نہیں لگے تھے۔

18 ویں ترمیم پر لکیر پیٹنے والے یہ نہ بھولیں کہ جب اور جس وقت جمہوری حکومتیں آپے سے باہر ہونگی، تو پنڈی میں جب بھی چاہے بوٹوں کا رخ ایوان صدر کی طرف کرسکتا ہے۔ (ختم شد)

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Brahui Zaban CSS Nisab Mein

By Asadullah Raisani