طالبان کیسے وجود میں آئے
دسمبر 1979 کی صبح جب روس کے فوجی قافلے افغانستان میں داخل ہوئے تو خطے کی تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا تھا۔ کابل کی فضاوں پر سرخ پرچم لہرا رہے تھے اور ایک طویل جنگ کا آغاز ہونے والا تھا۔ روس بیسویں صدی کا بدمست ہاتھی تھا اور امریکہ اس سے یہ ٹائٹل چھین کر اپنے نام کرنا چاہتا تھا۔ روس کی افغانستان میں انٹری امریکہ کے لیے سنہری موقع تھا چنانچہ جس روز پہلا روسی فوجی افغانستا ن میں داخل ہوا اگلے روز امریکی سی آئی ہے متحرک ہوگئی۔
پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی تھا چنانچہ امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی کی آنیاں جانیاں شروع ہوگئیں۔ امریکہ نے پاکستان کو بھاری امداد دینا شروع کر دی، لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان منتقل ہو گئے۔ پاکستان نے انہیں ویلکم کہا اور افغان بستیاں بسانا شروع کر دیں۔ بستیاں بسی تو سی آئی اے نے نیا پروجیکٹ شروع کر دیا۔ یونیورسٹی آف نبراسکا میں 1972 سے "سنٹر فار افغانستان سٹڈیز" کے نام سے ایک مرکز کام کر رہا تھا، سی آئی اے نے اسے گود لیا اور نئے پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا۔
یونیورسٹی آف نبراسکا کے ریکارڈ کے مطابق اس مرکز نے 1992 تک 8500 سے زائد افغان اساتذہ کو تربیت فراہم کی۔ یہ تربیت محض تدریس کی تربیت نہیں تھی بلکہ اس مخصوص نصاب کی تربیت تھی جس میں سوویت یونین کے خلاف جہادکو ایک مقدس فریضہ اور سوویت دشمن کو ایک شیطانی طاقت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت 15 ملین سے زائد درسی کتابیں پشتو اور دری زبانوں میں شائع کی گئیں جو پاکستان کے مہاجر کیمپوں اور افغانستان میں تقسیم کی گئیں۔
ان کتابوں میں ریاضی کے سوال بھی بندوقوں، میزائلوں اور جنگی ہتھیاروں کے گرد گھومتے تھے، مثلاً کسی صفحے پر لکھا ہوتا تھا: "اگر 5 روسی فوجی مارے جائیں اور 3 بچ جائیں کل کتنے فوجی بنتے ہیں؟" نصاب میں عربی اور اسلامی اصطلاحات کا استعمال اس انداز میں کیا گیا تھا کہ طلبہ میں جنگی جوش و جذبہ پیدا ہو۔ افغانستان میں مجاہدین بھیجنے کے لیے پاکستان اور انڈونیشیا میں دو بین الاقوامی یونیورسٹیاں بھی تعمیر کی گئیں۔
اس دور کی ایک مشہور تصویر آج بھی دنیا بھر کے اخبارات اور تحقیقی رپورٹس میں محفوظ ہے کہ ایک افغان بچہ پاکستانی کیمپ میں امریکی ساختہ درسی کتاب پڑھ رہا ہے جس کے صفحے پر قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ ٹینکوں اور بندوقوں کی تصویریں بنی ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ ایک منظم منصوبہ تھا جسے امریکی سی آئی اے نے ترتیب دیا تھا۔ یونیورسٹی آف نبراسکا کا یہ منصوبہ دراصل "سوفٹ وارفیئر" کا ایک تجربہ تھا جس میں نصاب اور تعلیم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
یہی وہ نسل تھی جو بعد میں طالبان کے نام سے وجود میں آئی۔ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کی تحریک اسی فکری زمین سے پھوٹی جسے یونیورسٹی آف نبراسکا کے نصاب، امریکی فنڈنگ اور جہادی مراکز نے ہموار کیا تھا۔ اس میں یونیورسٹی آف نبراسکا کا کردار اس لیے اہم ہے کہ یہ پروجیکٹ براہ راست اس یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے چلایا گیا تھا۔ 1990 کی دہائی میں جب روسی افواج افغانستان سے چلی گئیں تو یہ نصاب اور نظریاتی اثرات ختم نہ ہوئے بلکہ انہوں نے افغان معاشرے میں ایک جنگی کلچر کو جنم دیا جو بعد میں ریاستوں کے لیے مستقل سکیورٹی چیلنج بن گیا اور جس کا سامنا آج پاکستان بھی کر رہا ہے۔
ماضی میں بھی اس پروجیکٹ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا۔ اس جنگ کے دوران پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین نے پناہ لی۔ یونیورسٹی آف نبراسکا کی جانب سے چھاپی گئی کتابوں اور دیگر پروپیگنڈہ مواد نے پاکستان کے دینی مدارس کے نصاب کو بھی متاثر کیا۔ افغان مہاجرین کے مدارس اور پاکستانی مدارس کے مابین نظریاتی خلیج کم ہوئی اور عسکری بیانیہ مضبوط تر ہوگیا۔ افغانستان میں تربیت یافتہ مجاہدین نے بعد میں خطے میں مختلف عسکری تنظیموں کی شکل اختیار کر لی۔ ان تنظیموں کا پاکستانی معاشرے کے سماجی و تعلیمی ڈھانچے پر گہرا اور طویل المدتی اثر مرتب ہوا۔ یہ اثر محض سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ قومی سطح پر بیانیاتی تبدیلی کا ذریعہ بن گیا۔
جہادی نصاب سازی کے تحت جو کتب افغان مہاجر بچوں کو فراہم کرنا تھی جلد ہی پاکستان کے متعدد مدارس اور غیر رسمی تعلیمی مراکز تک پہنچ گئیں۔ ان کتب میں ریاضی، اردو اور دیگر مضامین میں قرآنی آیات کو عسکری پس منظر میں پیش کیا گیا، مثلاً پاکستانی سکولوں میں پڑھائی جانے والی کتب میں بھی جمع، تفریق اور گنتی کے سوالات میں ٹینک، بندوقیں اور کلاشنکوف کے استعارے استعمال ہونے لگے جب کہ عربی و دینی مضامین میں جہاد کے تصورات کو سوویت یونین کے خلاف نمایاں کیا گیا۔ بعد ازاں کئی مقامی مدارس اور غیر سرکاری تعلیمی نیٹ ورکس نے انہی تصورات کو اپنے نصاب کا حصہ بنا لیا جس سے جہادی آئیڈیالوجی کو ایک تعلیمی رنگ مل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مجاہدین کو منظم کرنے کے لیے مخصوص مدارس قائم کیے گئے اور یہ مدارس عسکری تربیت، نظریاتی ذہن سازی اور تنظیمی ڈھانچوں کی نرسریاں بن گئے۔
ان مدارس کا ایک بڑا حصہ سرحدی اور قبائلی علاقوں میں قائم تھا اور ان کے نصاب میں جہادی آیات و تصورات کو مستقل بنیادوں پر تعلیمی عمل میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں بین الاقوامی نوعیت کے تربیتی و علمی مراکز بھی قائم ہوئے جو بظاہر افغان مہاجرین کے لیے تھے مگر بعد میں یہ جہادی نیٹ ورکس کے نظریاتی و عملی مراکز بن گئے۔ یہ وہی نیٹ ورکس تھے جنہوں نے بعد ازاں مقامی اور علاقائی سلامتی کے تناظر میں پاکستان کے لیے چیلنجز پیدا کیے۔ یہ وہ پس منظر اور وجوہات ہیں کہ آج عشروں بعد جب عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھتی ہے اور ریاستی سطح پر اقدامات کیے جاتے ہیں تو انہی نصابی اور ادارہ جاتی بنیادوں کو ختم کرنا سب سے بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔
ممکن ہے کہ اس کالم میں پیش کیے گئے حقائق بعض طبائع کو سخت اور ناگوار گزریں لیکن طالبان کے وجود اور ان کے ظہور کا پس منظر جاننے کے لیے ان حقائق کو جاننا ضروری ہے۔ طالبان کوئی خدائی فوج دار اور ماورائی صلاحیتوں کی حامل کوئی جماعت نہیں بلکہ امریکی اور پاکستانی ایجنسیوں کا پیداکردہ ایک بندوبست ہے۔ جب تک یہ جماعت اسلام کے اصولوں کی پاسدار رہی ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ تھی لیکن اب اگر یہ جماعت اسلام کے اصولوں سے انحراف کرنا چاہتی ہے تو انہیں ان کی اوقات یاد دلانا ضروری ہے۔ ساتھ یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ جنہوں نے آپ کے وجود اور ظہور میں کردار ادا کیا وہ آپ کے نابود کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

