تجدید دین
پندرھویں صدی عیسوی تک یورپ اور ایشیا کے درمیان رابطے کا سب سے اہم ذریعہ بحیرۂ روم تھا اور اس وقت یہ مکمل طور پر عثمانی ترکوں کے کنٹرول میں تھا۔ بحیرہ روم کے ارد گرد عثمانی سلطنت پورے آب و تاب کے ساتھ قائم تھی اور عثمانی ترکوں کے جہاز بحیرہ روم میں پھریرے لہراتے پھرتے تھے۔ یورپ کے تجارتی جہاز اسی راستے سے ہندوستان، چین اور مشرق بعید آیا جایا کرتے تھے اور عثمانی ترکوں نے بحیرہ روم پر کنٹرول حاصل کرکے اہل یورپ کو ایشیا سے پرے دھکیل دیا تھا۔
یورپی اقوام کے لیے یہ صورتحال بڑی تکلیف دہ تھی، وہ ایشیا سے تجارت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ برصغیر کے مسالوں کے بغیر ان کے کھانوں میں ذائقہ نہیں ہوتا تھا اور ہندوستان کے سوتی اور چین کے ریشمی کپڑے کے بغیر ان کے بدن ننگے رہتے تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب یورپی اقوام نے زندہ رہنے کے لیے نئے راستے ڈھونڈنا شروع کیے۔ یورپ کے تخلیق کاروں نے اپنی توجہ نئے بحری جہازوں کی تیاری اور نئے سمندری راستوں کی تلاش پر مرکوز کر دی۔ انہیں ایسے ماہرین سفر کی ضرورت تھی جو سمندری راستوں کی نشان دہی کر سکیں اور کھلے سمندر میں سمتوں کا تعین کر سکیں۔
اس مقصد کے لیے انہیں کچھ عرب ملاح میسر آ گئے اور یوں ان کام آسان ہوگیا۔ اس مہم کا سب سے اہم جہاز راں واسکو ڈے گاما تھا جو ہندوستان اور مشرق بعید تک پہنچنے کے لیے بحیرہ روم سے اوپر اوپر بحر اوقیانوس سے ہوتا ہوا ایک لمبا سفر طے کرکے ہندوستان کی بندر گاہ کالی کٹ پر جا نکلا۔ یہ وہ اہم سنگ میل تھا جس کے بعد یورپ کے دہانے پر بیٹھے عثمانی ترکوں کی شان و شوکت مدھم ہونا شروع ہوئی۔ اس کے بعد کا منظر نامہ یہ تھا کہ سولہویں اور سترھویں صدی تک اہل یورپ نے ایرانی، عربی، ترکی اور ہندوستانی معاشرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ ایران و عرب کے ساتھ جو ہوا سو ہوا اہل ہند نے بخوشی یورپی اقوام کو خوش آمدید کہا۔ مغل بادشاہوں نے انگریزوں کو تجارتی اجازت نامے لکھ کر دیے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ایک تاریخ ہے۔
1857 کے بعد انگریز کے پیدا کردہ عسکری اور فکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مختلف تحریکیں وجود میں آئیں۔ ان میں ایک تحریک اسلامی علوم و فنون کے تحفظ کی تحریک تھی۔ یہ تحریک دار العلوم اور ندوہ کی صورت میں ارتقا پذیر ہوئی۔ دارالعلوم نے جگہ جگہ دینی مدارس قائم کیے اور اسلامی علوم و فنون کے تحفظ کے لیے رجال کار کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ برطانوی استعمار میں اس تحریک کے نتائج حوصلہ افزا تھے لیکن پھر بتدریج یہ نتائج مایوس کن ہونا شروع ہوئے۔
1947 کے بعد ایک آزاد اسلامی ریاست کی صورت میں تحفظ اور دفاع کی نفسیات سے آگے نکل کر مذہب کو سماج اور ریاستی سطح پر قابل قبول بنانے کے لیے کوششوں کی ضرورت تھی جو بوجوہ نہیں ہو سکیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ مذہب کو اپنے عہد سے آہنگ نہیں کیا جا سکا۔ انسانی تہذیب اپنی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتی رہی اور مذہب بتدریج سماج اور ریاست سے بے تعلق اور اجنبی ہوتا رہا۔
دینی مدارس میں دین کے احکام، دین کی زبان اور دینی علوم و فنون کی تعلیم تو دی جاتی رہی مگر اسلام کو بطور فکر دنیا کے سامنے متعارف نہیں کرایا جا سکا۔ ان مدارس میں پڑھنے والے طلبا بنیادی اسلامی مصادر کا فہم تو رکھتے تھے لیکن اس دینی علم کو وہ اس فکری مستویٰ کے مطابق پیش نہیں کر پائے جس میں وہ جی رہے تھے۔ ان طلبا نے دینی علوم کو اپنی ذات میں تو اتار لیا لیکن اس سے وہ فکری غذا نہیں حاصل کر پائے جو انہیں اپنے عہد میں زندہ رہنے کے لیے درکار تھی۔ دوسری خرابی یہ ہوئی کہ اس نظام تعلیم کا رشتہ اقتصاد سے کاٹ دیا گیا اور کوئی نظام تعلیم اس وقت تک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا جب تک اس کا تعلق اقتصاد سے نہ جڑا ہوا ہو۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اہل مذہب 1857 کے بعد والی تحفظ و دفاع کی نفسیات سے نکل کر دین کی تجدید کا اہتمام نہیں کر پائے۔ انہوں نے دین کے تحفظ و بقا کا اہتمام تو بتمام و کمال کیا لیکن اس کی تجدید کے فریضے سے غافل رہے۔ تجدید دین اتنا اہم کام تھا کہ اس کی پیشنگوئی خود شارع نے کی تھی۔ فرمان نبویﷺ کے مطابق ہر صدی کے آخر یا شروع میں اللہ کسی ایسی شخصیت کو بھیجتا رہے گا جو اس دین کی تجدید کرے گا۔ یہاں تجدید دین سے مختلف امور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
تجدید کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مرور زمانہ سے دین میں در آنے والے بگاڑ کو دور کرکے دین کو اپنی اصل شکل میں پیش کرنا۔ تجدید کا ایک مفہوم دین کی بتیین و تشریح ہے۔ تجدید کا ایک مفہوم یہ ہے کہ دین کو اپنے عہد سے Relevant اور ہم آہنگ بنا کر پیش کرنا۔ تجدید کا یہ مفہوم اہل مذہب کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ انسانی سماج جس تیز رفتاری کے ساتھ ارتقا پذیر ہوا ہے اس کے پیش نظر تجدید دین کی جو ضرورت تھی اہل مذہب اس کا ساتھ نہیں دے پائے۔ آج دین کو اپنے عہد سے Relevant بنانا اہم کام ہے اور اس کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔
آج دین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے اہل علم کے لیے لازم ہے کہ اپنے شعبے کی تجدید کا اہتمام کریں۔ دعوت و تبلیغ ہو یا تعلیم و تدریس، وعظ و تذکیہ ہو یا تصنیف و تالیف، مدارس و مساجد کا نظام ہو یا خانقاہی سلسلہ غرض ہر شعبہ میں تجدید دین کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے پہلے سماج کو سمجھنا پڑے گا اور سماج کو سمجھنے کے لیے مختلف علوم و فنون، سماجی رویوں، مختلف زبانوں سے شناسائی، اپنے عہد کی نفسیات و اسلوب سے واقفیت اور متنوع مہارتوں پر عبور کی ضرورت ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کے ذریعے دین کو سماجی اور ریاستی سطح پر قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔
حدیث میں تجدید کے لیے من کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ من کلمہ عام ہے جو واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ اس سے مراد فرد واحد ہو اور ہم متعین طور پر اسے تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے مراد مطلق ایک جماعت بھی ہو سکتی ہے۔ یا ایسی جماعت جو کسی خاص شخص سے جنم لینے والے فہم دین کی روایت کو لے کر آگے بڑھے۔
اہل روایت کی تجدید دین سے اس بے توجہی سے موقع پا کر اہل تجدد نے تجدید کے مفہوم کو اچک لیا ہے۔ تجدید اور تجدد میں فرق یہ ہے کہ تجدید میں روایت کو Own کرکے اور اس کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر دین کو اپنے عہد سے Relevant بنانے کی سعی کی جاتی ہے جبکہ تجدد میں روایت اور اہل روایت کی نفی کے ساتھ اپنے عصر کے کچھ ثقافتی مظاہر، حاکم وقت اور ذاتی خواہشات کے مطالبات کو اصول مان کر بتکلف دین کو ان مطالبات کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھی تجدید دین کی ضرورت مسلم ہے کہ دین کو تجدد پسندوں کے دست برد اور اسے بازیچہ اطفال بنانے سے بچایا جائے۔