1.  Home/
  2. Muhammad Irfan Nadeem/
  3. Science Aur Ilm e Jadeed Ka Mughalta

Science Aur Ilm e Jadeed Ka Mughalta

سائنس اور علمِ جدید کا مغالطہ

اکسیویں صدی میں مذہب اور خدا کے خلاف مقدمہ قائم کرنے میں سب سے مضبوط بنیادیں سائنس نے فراہم کی ہے۔ سائنس تجربات و مشاہدات کا نام ہے اور سائنس کا مذہب کے خلاف بنیادی استدلال یہ ہے کہ سائنس نے حقیقت کے ادراک کے جونئے طریقے وضع کیے ہیں مذہب اور مذہبی عقائد ان پر پورا نہیں اترتے۔ سائنس تجربہ و مشاہدہ پر انحصار کرتی ہے جبکہ مذہب مابعد الطبعیات پر مشتمل اور ایمان بالغیب کی بات کرتا ہے۔ مابعد الطبعیات پر مشتمل ان عقائد کو تجربہ و مشاہدہ کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جا سکتا اس لیے یہ ناقابل اعتبار ہیں حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔

یہ مقدمہ اس قدر سطحی، غیر منطقی اور غیر معقول ہے کہ معمولی غور وفکر سے اس کو رد کیا جاسکتا ہے۔ یہ مقدمہ خود سائنسی اصولوں پر پورا نہیں اترتااور اس میں غلط طرز استدلال کو بنیاد بنا کر بے بنیاد مقدما ت کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا حقیقت کے ادراک کا واحد ذریعہ صرف تجربہ و مشاہدہ ہی ہیں یا اس کے علاوہ بھی کسی طریقے سے حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے سائنسی نظریات اور علم جدید کے دعوے ایسے ہیں جو ہمارے تجربے ومشاہدے میں نہیں آتے لیکن اس کے باجود سائنس اور علم جدید انہیں حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ مثلا ارتقاء کے نظریے کو ہی دیکھ لیں، کیا کسی نے ارتقاء کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پھر اس نظریے کو ہم کیوں مان رہے ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ ہم اپنے زمانے میں موجود کچھ شواہد اور تجربات کی بنیاد پرماضی کے واقعات کو بھی حال کے تناظر میں دیکھتے ہیں، قیاس کرتے ہیں اور ان درمیانی حقائق و واقعات کو ترتیب دے کرنتیجہ اخذ کر لیتے ہیں۔

گو ماضی کے ان واقعات کا ہم نے تجربہ و مشاہدہ نہیں کیا ہوتا لیکن ہم اپنے زمانے میں موجود تجربات و مشاہدات پر قیاس کرتے ہوئے انہیں بھی حقیقت مان لیتے ہیں۔ لہذا علم جدید اور سائنس کا یہ موقف اور استدلال ہی غلط ہے کہ حقیقت کا ادراک صرف تجربہ و مشاہدہ سے ممکن ہے اور مذہبی عقائد تجربہ ومشاہدہ کے اصولوں پر پورے نہیں اترتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تجربہ و مشاہدہ اس قابل نہیں کہ وہ کائنات کی حقیقتوں کو محض اپنے تجربہ و مشاہدہ کی بنیاد پر سمجھ سکیں۔

یہ کائنات ان گنت رازوں کا سلسلہ ہے، یہ بے انتہا وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے، یہاں ہر طرف نئے امکانات بکھرے پڑے ہیں۔ کائنات تو بہت دور انسان صرف زمینی سیارے کی ساری حقیقتوں کو اپنے تجربہ و مشاہدہ کی بنیاد پر نہیں سمجھ سکتا۔ اگرآج سائنسدانوں کی ہزاروں ٹیمیں صرف زمینی سیارے کی حقیقتوں کو دریافت کرنے نکل پڑیں تو قیامت تک وہ اس کے نصف کو بھی ایکسپلور نہ کرسکیں۔ تو یہ شرط لگا نا کہ حقیقت صرف وہی ہے جو انسانی تجربہ و مشاہدہ میں آ سکے اپنے امکانات کو محدود کرنے کااورکائنات کی حقیقتو ں سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔

اس لیے ایک تواس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ تجربہ و مشاہدہ حقیقت کے ادراک کے قطعی ذرائع نہیں بلکہ ان میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے۔ مثلاکوئی شخص تجربہ کرے کہ لوہا پانی میں ڈوب جاتا ہے مگر دوسرا شخص لوہے کی کشتی کو پانی میں تیرتا دیکھے تو اس کا مشاہدہ اسے کچھ اور نتائج فراہم کرے گا۔ معلوم ہوا کہ تجربہ و مشاہدہ حقیقت کے ادراک کے قطعی ذرائع علم نہیں بلکہ ان میں غلطی کا امکان موجود ہے۔

دوسرا اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ صرف تجربہ و مشاہدہ ہی حقیقت کے ادراک کے ذرائع نہیں بلکہ اور ذرائع سے بھی حقیقت کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت کا ادراک جس طرح تجربہ و مشاہدہ کی بنیاد پر ممکن ہے اسی طرح اس تجربہ و مشاہدہ سے حاصل ہونے والے نتائج پر قیاس کرنے سے بھی حقیقت کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ نہ کوئی تجربہ ومشاہدہ محض تجربہ و مشاہدہ ہونے کی بنیاد پر صحیح ہے اور نہ ہی کوئی قیاس محض قیاس ہونے کی بنیاد پر غلط ہے۔

تیسرا اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ علم جدید اور سائنس ہمیں جو تجربات و مشاہدات کرواتے ہیں وہ بذات خود ان "نظریات" کے تجربات ومشاہدات نہیں ہوتے بلکہ ان نظریات کی توجیہہ ہوتے ہیں۔ مثلا نیوٹن کا یہ نظریہ کہ "کائنات چند متعین قوانین کے تحت چل رہی ہے" تو کیا کسی سائنسدان نے ان قوانین کا تجربہ و مشاہدہ کیا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ نیوٹن اور بعد میں آنے والے تمام سائنسدان ان نظریات کی توجیہہ کو تجربہ و مشاہدہ کا نام دیتے ہیں۔

اس طرح علم جدید او ر سائنس نے جو نئی حقیقتیں دریافت کی ہیں مثلاً ارتقاء، انرجی، مادہ، قانون فطرت اور قانون کشش ثقل ان سب کا کسی نے بھی مشاہدہ نہیں کیا بلکہ سارا علم جدید اور سائنس ان نظریات کی توجیہ کو تجربہ و مشاہدہ کا نام دے رہے ہیں اور ان تمام حقائق کو سائنسی حقیقتیں سمجھا جاتا ہے۔ یہ سائنسی حقائق مشاہداتی حقائق نہیں ہوتے بلکہ یہ مشاہداتی حقائق کی تعبیریں ہوتی ہیں۔ اگر یہ طرز استدلال علم جدید اور سائنس کی حقیقتوں کے لیے درست ہو سکتا ہے تو مذہب کے حق میں اس طرز استدلال کو کیوں قبول نہیں کیا جاتا۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ مذہب ایمان بالغیب جبکہ سائنس ایمان باالشہود کی بات کرتی ہے جبکہ اصلاً دونوں ایک ہی اصول پر عمل کر رہے ہیں۔

مذہب کا اصل وظیفہ اشیاء کی اصلی اور آخری حقیقتوں کو بیان کرنا ہے جبکہ سائنس اشیاء کی ظاہری اور خارجی حقیقتوں کو بیان کرتی ہے۔ اگر وہ بھی اشیاء کی اصلی اور آخری حقیقتوں کو بیان کرنے کی طرف آئے تو اسے بھی مذہب جیسا طرز استدلال اختیار کرنا پڑے۔ اس وقت سائنس اشیاء کی جن حقیقتوں کو بیان کر رہی ہے اور کائنات کی تفہیم کا جو استدلال پیش کررہی ہے مذہب اس سے زیادہ بہتر حقائق اور استدلال پیش کرتا ہے۔

مثلاً مذہب اشیاء کی جن اصلی اور آخری حقیقتوں کو بیان کرتا ہے وہ ہمیشہ سے ایک جیسی رہی ہیں، مذہب کے نظریات اس حوالے سے ایک جیسے رہے ہیں جبکہ سائنس اشیاء کی جن ظاہری اور خارجی حقیقتوں کو بیان کرتی ہے وہ ہر لمحہ تغیر پذیر رہتی ہیں۔ سائنس کی نظر میں آج جو نظریات حقیقت ہیں ممکن ہے کل وہ حقیقت نہ رہیں جبکہ مذہب کے بیان کردہ حقائق ہمیشہ سے ایک ہی رہے ہیں۔ اس اعتبار سے مذہب کائنات کی جو تفہیم پیش کرتا ہے وہ انسانی عقل کے لیے زیادہ جسٹیفکیشن رکھتی ہے۔ باقی تفصیلات ہم اگلے کالم میں پیش کریں گے۔

نوٹ: اس کالم کی تیاری میں مولانا وحید الدین خانؒ کی کتاب "مذہب اور جدید چیلنج" سے استفادہ کیا گیا ہے۔

Check Also

Danda Peer Aye Shuf Shuf

By Zafar Iqbal Wattoo