روٹی، دوا اور دودھ کا سوال
28 جون 1914 کے دن بظاہر ایک معمولی واقعے 88 لاکھ 56 ہزار 315 افراد کی جانیں لے لیں، 2 کروڑ 12 لاکھ انیس ہزار چار سو باون افراد کو زخمی کیا اور 77 لاکھ 50 ہزار 952 افراد کو قیدی بنا لیا۔ 28 جون کو سربیا کے ایک نوجوان نے آسٹریا کے ولی عہد فرانسس فرڈیننڈ کو قتل کر دیا اور بظاہر یہ معمولی واقعہ پہلی جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
آسٹریا کے بادشاہ فرینز جوزف نے سربیا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اتحادی ممالک بھی جنگ میں کود پڑے، ایک طرف آسٹریا، اٹلی اور جرمنی کا اتحاد تھا اور دوسری روس، برطانیہ اور فرانس ملے ہوئے تھے۔ امریکہ بھی اس جنگ میں پیچھے نہ رہا، امریکہ نے اتحادیوں کا ساتھ دیا تو جرمنی نے اس کا سمندری بائیکاٹ کر دیا۔
امریکہ کو ان دنوں ایک کیمیائی مادے "کاربالک ایسڈ" کی اشد ضرورت تھی کیوں کہ یہ کیمیائی مادہ جراثیم کش ادویات اور زخمیوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ کیمیائی مادہ ایک خاص قسم کے کوئلے سے تیار ہوتا تھا اور یہ کوئلہ صرف جرمنی میں پایا جاتا تھا، جنگ چھڑنے کے بعد جرمنی نے اس پر پابندی لگا دی اور امریکہ میں زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ جنگ کے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے اور لاکھوں کروڑوں لوگ میدان جنگ میں پڑے تڑپ رہے تھے۔
امریکہ میں کاربالک ایسڈ میں کمی کی بدولت زخمیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور مسئلہ یہ تھا کہ اس کاکوئی نعم البدل بھی موجود نہیں تھا۔ امریکہ کی اعلیٰ قیادت جمع ہوئی، امریکہ بھر کے سائنسدانوں کو جمع کیا گیا اور ایڈیسن کو ان کا صدر بنا کر متبادل طریقے سے کاربالک ایسڈ کی تیاری کا ٹاسک دے دیا۔
دنیا کے سب سے بڑے موجد ایڈیسن کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا اور اس ہنگامی صورتحال میں اس نے اپنے ملک اور قوم کی راہنمائی کا بیڑا اٹھا لیا۔ اس نے اگلے ہی روز سائنسدانوں کی میٹنگ بلائی اور ان کے سامنے یہ نکتہ رکھا "اگر ہم کوئلے سے کاربالک ایسڈ تیار نہیں کر سکتے تو ہمیں کسی اور چیز پر غور کرنا چاہیے"۔
ایک سائنسدان بولا "مگر کیسے سر؟" ایڈیسن نے سپاٹ لہجے میں کہا "ہم ایسی کیمیائی چیزوں سے یہ کام لے سکتے ہیں جن میں کوئلے کی خاصیت پائی جاتی ہے"۔ پورے ہال میں شور بلند ہوا "یہ ناممکن ہے سر" لیکن ایڈیسن نے بڑے ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر کہا "جب تک ہم پوری طرح کوشش نہیں کر لیتے ہم کسی چیز کی نفی نہیں کر سکتے"۔ کار بالک ایسڈ کی کمی سے لاکھوں امریکیوں کی جانیں خطرے میں تھیں اور ایڈیسن یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
اس نے ہنگامی طور پر ایک تجربہ گاہ بنائی، سائنسدانوں کو گروپوں میں تقسیم کیا اور چوبیس گھنٹے کام شروع کر دیا، کچھ دنوں کے بعد ایڈیسن نے تجربہ گاہ کے ایک سینئر سائنسدان سے پوچھا "کار بالک ایسڈ کی تیاری میں کتنا وقت لگے گا" وہ سائنسدان بولا "سر ابھی تو ہمیں یہ بھی نہیں پتا یہ کام ہوگا کیسے" ایڈیسن نے اسے تسلی دی "نوجوان گھبراؤ مت میں تمہیں سب بتاؤں گا یہ کا م کیسے ہوگا"۔ "تو پھر سر ہم یہ کام نو ماہ میں مکمل کر لیں گے"۔
سینئر سائنسدان کا یہ جواب سن کر ایڈیسن بولا "ہرگز نہیں، ہمارے زخمی نو ماہ تک میدان جنگ میں زندہ نہیں رہ سکتے، ہمیں ابھی اور اسی وقت کار بالک ایسڈ کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن سر یہ سب کیسے ہوگا۔ میں یہ کام خود کروں گا۔ ایڈیسن کو ناکامی کے لفظ سے شدید نفرت تھی اور وہ ہر صورت اپنے ملک اور قوم کو بچانا چاہتا تھا۔ ایڈیسن پاگلوں کی طرح کام میں جت گیا اور پھر دنیا نے دیکھا ایڈیسن کی محنت اور اس کا عزم رنگ لایا اور نو ماہ نہیں بلکہ صرف سترہ دنوں میں اس نے کار بالک ایسڈ تیار کرکے امریکی صدر کو پیش کر دیا۔
اٹھارویں دن تجربہ گاہ میں سات سو پونڈ کار بالک ایسڈ تیار ہوا اور صرف ایک مہینے بعد ایک ٹن روزانہ کے اعتبار سے کاربالک ایسڈ تیار ہونے لگا۔ جیسے ہی 11 نومبر 1918 کو اتحادیوں کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا ایڈیسن نے سائنسدانوں کی صدارت سے استعفیٰ دیا، فوجی خدمات سے سبکدوش ہوا اور واپس اپنی پرانی تجربہ گاہ میں آ کر ڈیرے ڈال دیے۔
ہم گزشتہ تین چار سال سے غربت سے لڑ رہے ہیں اور پاکستان کے تئیس کروڑ عوام حالت نزع میں ہیں۔ غربت سے تنگ مائیں بچوں کے گلے کاٹ رہی ہیں اور باپ بیٹیوں سمیت نہروں اور دریاؤں میں کود رہے ہیں مگر حکمرانوں میں احساس ہے نہ منصوبہ بندی۔ اگر انہیں عوام کے دکھوں کا احساس اور شعور ہوتا تو وہ پاکستان میں موجود سیکڑوں این جی اوز اور ہزاروں منصوبہ سازوں کو میز پر بٹھاتے اور مسائل کا حل تلاش کرتے۔
پچھلے چند سال سے یہ ملک کسی نرگسیت زدہ کی بھینٹ ایسا چڑھا کہ ملک اور عوام پس منظر میں چلے گئے اور یہ ملک سیاسی دنگل کا اکھاڑا بن گیا۔ غربت اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور حکمران اسمبلیاں توڑنے اور بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا ریاست کے چاروں ستون دن رات اسمبلیوں کی گردان کر رہے ہیں۔
موسم کی شدت بھی سر پر آن کھڑی ہے، ماہرین کے مطابق اس دفعہ توقع سے زیادہ گرمی پڑنے کے امکانات ہیں، لوڈشیڈنگ کی سیاہ ڈائن بال کھولے کھڑی ہے مگر ریاست کے چاروں ستونوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ہزاروں صنعتیں بند ہو چکی ہیں، انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے، مزدور فاقوں پر مجبور ہیں، دیہاڑی دار مزدوروں کے چولہے بجھ گئے ہیں، سیالکوٹ اور فیصل آباد کے کارخانے اور ملیں بند ہو چکیں، دفاتر بند ہو چکے، لوگوں میں چڑچڑاپن پیدا ہوگیا، عوام غصے میں بپھر گئے ہیں، سرعام احتجاج اور توڑ پھوڑ ہو رہی ہے، ملکی املاک تباہ کی جا رہی ہیں اور لوگوں کے گھروں سے پانچ پانچ دن سے پانی غائب ہے۔
حکمرانوں کی بے حسی اور لاپروائی دیکھئے کہ انہوں نے غربت کے مسئلے کوآج تک سنجیدگی سے نہیں لیا اور آج بھی اس مسئلے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ عوام نے جمہوریت اور اسمبلیاں بچا کر انہیں پوجنا نہیں ہے، جب انہیں کھانے کو روٹی اور تن کو ڈھانپنے کے لیے کپڑا نہیں ملے گا تو یہ جمہوریت کا اچار ڈالیں گے۔ عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے یا نہیں انہیں تو صرف اپنا چولہا جلانے کے لیے روزگار چاہئے۔
کاش! پاکستان کے حصے میں بھی کوئی ایڈیسن آ جاتا جو سترہ سال کی غربت کا حل سترہ دنوں میں ڈھونڈ کر اس ملک کے غریبوں پر رحم کرتا، جو اس ملک کے دیہاڑی دار مزدوروں کے چولہے بھجنے سے بچا لیتا تاکہ وہ شام کو گھر جاتے وقت اپنے بیوی بچوں کے لیے روٹی اور بوڑھے والدین کے لیے دوا اور دودھ خرید کر لے جاتے۔