روایتی مذہبی فکر میں اعتدال و توازن کا سوال
مولانا شبلی نعمانی قافلہ سرسید کے اہم فرد تھے۔ ایک عرصے تک علی گڑھ میں فارسی پڑھاتے رہے۔ پروفیسر آرنلڈ سے انگلش سیکھی۔ روم و شام کا سفر کیا۔ آخر میں ملازمت ترک کرکے اپنے آبائی ضلع اعظم گڑھ منتقل ہو گئے۔ 1913 میں اعظم گڑھ میں مشہور تحقیقی و تصنیفی ادارہ "دار المصنفین" قائم کیا اور صرف ایک سال بعد 1914 میں انتقال کر گئے۔ اپنی زندگی میں ایک بار ندوۃ العلماء تشریف لائے تو تقریر کرتے ہوئے کہا: "دوسری قوموں کی ترقی یہ ہے کہ وہ آگے بڑھیں، آگے بڑھیں اور ہماری ترقی یہ ہے کہ ہم پیچھے ہٹیں، پیچھے ہٹیں یہاں تک کہ دور نبوت سے جا ملیں"۔
مولانا شبلی نعمانی اپنے بعض افکار کے حوالے سے گومائل بہ تجدد نظر آتے ہیں لیکن یہ بات انہوں نے کمال کہی۔ دین اسلام کا حسن یہ ہے کہ یہ جتنا اپنی اصل سے قریب تر رہے گا اتنا خالص، خوبصورت اور تحریفات سے پاک ہوگا۔ اس کا عندیہ خود رسولﷺ نے دیا تھا کہ سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر وہ جو اس سے متصل ہے، پھر وہ جو اس سے متصل ہے الی آخرہ۔ اس اتصال کو ہم روایت کہتے ہیں۔ دین اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ ساڑھے چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اپنی اسی آن بان اور چمک دمک کے ساتھ موجود ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس میں تحریف و تبدل کی کوششیں ہوئیں مگر نامراد لوٹیں۔ آج بھی یہ دین روایت کی صورت میں اپنے اصل ماخذات کے ساتھ موجود اور آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر کہیں کمی محسوس ہوتی ہے تو صرف یہ کہ اسے اپنے عہد کے علوم و فنون اور زبان و اسلوب سے ریلیونٹ بنایا جائے۔ اس پر مختلف اطراف سے نقد ہوتا رہتا ہے۔ خود راقم نے متعدد بار اس پہلو پر لکھا ہے۔ لیکن کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض احباب روایت پر غیر ضروری نقد کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نقد چند دن پہلے نظر سے گزرا۔ اس میں کہا گیا کہ روایتی مذہبی فکر سے وابستگان کے فکر و نظر میں اعتدال و توازن کی کمی ہوتی ہے۔ اس کے اسباب یہ بتائے گئے کہ ان میں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی self-righteousness کی نفسیات پائی جاتی ہیں۔ ان میں خود انحصاریت یا خود اپنے اندر سکڑے سمٹے رہنے کا مزاج ہوتا ہے اور یہ خود کو پارسا سمجھتے ہیں وغیرہ۔ اس پر عرض کیا کہ ان نفسیات کی نشاندہی روایت کے نیم خواندہ مذہبی طبقے میں تو کی جا سکتی ہے لیکن روایت کے نمائندہ افراد میں یہ self-righteousness نہیں بلکہ خود اعتمادی کا احساس ہوتا ہے کہ وہ جس فکر اور عمل پر چل رہے ہیں وہ روایت سے قریب تر ہے۔ روایت کا وارث ہونے کے دو ہی امکانات ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تجدد پسندوں کو روایت کا ترجمان مان لیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اہل روایت کو، روایت کی وراثت کا حق دار تسلیم کر لیا جائے۔ چونکہ اہل روایت کو، روایت کے وارث ہونے کا احساس ہوتا ہے اس لیے ان میں self-righteousness طرز کا خود اعتمادی کا احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ جبکہ تجدد پسند روایت کی وراثت کا دعویٰ نہیں کر سکتے اس لیے انہیں self-righteousness طرز کی کسی خود اعتمادی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اب کوئی اس کو حد سے زیادہ بڑھی ہوئی self-righteousness کی نفسیات کہے یا روایت سے وابستگی اور اس کے نتیجے میں خود اعتمادی کا احساس یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے۔
خود اعتمادی کا یہ احساس اس لیے ضروری ہے کہ یہ روایت سے وابستگی اور علم و عمل میں خشوع و خضوع کا سبب ہوتا ہے۔ یہ کیفیت اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان مذبذبین بین ذالک کے مقام پر کھڑا رہے اور حضوریٔ قلب اور خشو ع خضوع کی کیفیت سے محروم رہے۔ ہاں اس احساس خود اعتمادی کے ساتھ، روایت سے کلی استناد نہ رکھنے والوں کو حقیر سمجھنا درست نہیں۔ تجدد پسند ہوں یا روایت سے کلی طور پر فکری و عملی استناد نہ رکھنے والے افراد، بہر حال امت کا حصہ ہیں۔ ان کی تجدد پسندی یا روایت سے کلی انتساب نہ ہونا اس امر کو متضمن نہیں کہ انہیں حقیر یا کم تر درجے کا مسلمان سمجھا جائے۔ روایت سے وابستگی کا یہ اصول اور اس کی مذکورہ تفریعات صرف صرف مذہبی روایت نہیں بلکہ کسی بھی روایت کے منتسبین پر لاگو ہو سکتا ہے۔
دوسرا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ ان میں خود انحصاریت یا خود اپنے اندرسکڑے سمٹے رہنے کا مزاج ہوتا ہے۔ صرف مخصوص افراد سے انٹرکشن، اپنے مخصوص حلقوں سے تعلق و تعامل۔ صرف اپنے ہم خیال افراد کے افکار و کتب سے استفادے کی کوشش وغیرہ۔ اس پر عرض ہے کہ کسی فکرکے انتخاب کے مرحلے میں تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا جا سکتا ہے لیکن کسی فکرکے دریافت ہو جانے کے بعد اپنی ساری توانائیاں اس فکر سے وابستگی اور اس کی افہام و تفہیم میں گزار دینے میں کیا حرج ہے؟ کسی درست فکر کی دریافت اور اس کے صحیح ہونے کے یقین کے ساتھ اس فکرکے اہل علم سے انٹریکشن اور اس فکرکے حامل افراد سے تعلق و تعامل مطلوب و محمود ہے۔ کثرت افکار پراگندگئی افکار کا سبب ہے اور اس کے مظاہر سماج میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ سماجی آلائشوں سے دامن بچا کر احساس تقویٰ کے ساتھ جینا یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان مختلف افکار کے جنگل میں سیر کرتے ہوئے راستہ ہی بھٹک جائے۔ اس ضمن میں غزالی، ابن عربی، شاہ ولی اللہ اور اکابرین کی مثال دی جاتی ہے کہ وہ مخالفین کی کتب سمیت ہر طرح کی کتب پڑھتے اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔ اس پر عرض ہے کہ اکابرین کی سطح کے اہل علم کا رویہ آج بھی یہی ہے۔ مسئلہ عام افراد اور اوسط ذہانت کے حاملین کا ہے۔ اگر ان سے یہ مطالبہ ہے تو یہ خلاف قیاس اور خلط مبحث ہے۔
تیسرا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اہل روایت یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں دوسرے لوگ دین کے لیے مخلص نہیں ہیں۔ دین و ملت کا جو درد اور جذبہ ان کے اپنے اندر پایا جاتا ہے، دوسروں کے فاسد دل اس سے خالی ہیں۔ اس پر عرض ہے کہ اگر لوگ کسی کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ دین کے ساتھ اس درجے کا مخلص نہیں یا اس میں ملت کا وہ درد موجود نہیں تو یقینا اس کے کچھ اسباب ہو سکتے ہیں۔ کسی کی دین کے ساتھ مخلصی کی سب سے بڑی دلیل اس کی دین کے ساتھ وابستگی اوراس کا قول و عمل ہی ہو سکتا ہے۔ کوئی ہزاروں قسمیں کھا کر دین کے ساتھ وابستگی کا یقین دلائے لیکن اگر اس کے افکار اور اس کا ظاہر اس کی گواہی نہ دیں تو یہ قسمیں کسی کو اس کی دین کے ساتھ اس درجے کی مخلصی کا یقین نہیں دلا سکتی۔
آخری بات یہ ہے کہ اس طرح کے اعتراضات عموماً inclusivity کے احساس کے تحت جنم لیتے ہیں۔ جہاں یہ احساس ہوتا کہ انہیں کلی طور پر کسی روایت کا حصہ نہیں مانا جا رہا اور انہیں روایت کی وہ شناخت حاصل نہیں جو دوسروں کو حاصل ہے۔ وہاں اس طرح کے احساسات جنم لیتے ہیں۔ ظاہر ہے اگر میں کسی روایت کو نظری یا عملی سطح پر کلی طور پر قبول کرنے میں متذبذب ہوں تو مجھے اس کی شناخت کے حوالے سے بھی کچھ کمپرومائز کرنا پڑے گا۔