روایت اور غامدی مکتب فکر
خورشید ندیم صاحب محترم جاوید احمد غامدی کے غیر اعلانیہ اور غیر رسمی ترجمان ہیں۔ بظاہر انہیں اس ترجمانی پر اصرار نہیں اور وہ خود کو ایک متعدل اورغیر جانبدار لکھاری کے طورباور کراتے ہیں مگر محبت و عقیدت سات پردوں کے پیچھے چھپ کر بھی عیاں ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ترجمانی غیر اعلانیہ اور اعزازی ہونے کے ساتھ عقیدت میں بھی ڈھلی ہوئی ہے۔
خورشید صاحب نے اپنے پچھلے تین چار کالمز میں سرسید مکتب فکر، فراہی مکتب فکر اور روایتی مکتب فکر پر خامہ فرسائی کی ہے۔ اس خامہ فرسائی میں انہوں نے کوشش کی ہے کہ فراہی مکتب فکر کو سر سیدکے فکری دھارے سے الگ کرکے پیش کریں۔ ان کے نزدیک سر سید مکتب فکر پر تجدد پسندی کی پھبتی روا ہے مگر فراہی مکتب فکر روایت کا امین ہے۔ اہل روایت بلاوجہ مکتب فراہی کو روایت سے خارج قرار دیتے ہیں ورنہ اپنی اصل میں دین کی اصل روایت کو دور جدید میں جاوید احمد غامدی صاحب نے سمجھا ہے۔ اہل روایت کو چاہیے کہ غامدی صاحب کے اعزاز میں داد و تحسین کی مجالس منعقد کریں۔
خورشید ندیم صاحب کی فکری حساسیت دیکھیے کہ مکتب فراہی کو سر سید مکتب فکرکے ہم آہنگ قرار دینا انہیں خوف خدا سے بے نیازی دکھائی دیتی ہے اوردونوں مکاتب فکرکے درمیان ترادف و تقارب انہیں فکری و نظری افلاس کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اس مماثلت سے کوئی بہت بڑا فکری سانحہ رونما ہو جائے گا۔ حالانکہ دین کا معمولی علم رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ دونوں مکاتب فکر میں تفہیم دین کے بنیادی اصول تقریباً ایک جیسے ہیں۔ دونوں مکاتب فکر تشکیک، انکارحجیت حدیث اور نصوص میں تاویل کی بنیاد پر اپنا فکری پروجیکٹ قائم کرتے ہیں۔ دونوں نصوص کی تعبیر میں عقل کو غیر معمولی مقام دے کر اور امت کے اجتماعی فہم کو اپنے مخصوص اصولوں کی روشنی میں دیکھ کر روایت کو نظر انداز کرتے ہیں۔
دوسری طرف ان کی فکری حساسیت اس وقت دم توڑ دیتی ہے جب فراہی مکتب فکر کی طرف سے روایت کے اکثر و بیشتراصولوں کے انکار کے باوجود وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے روایت کا حصہ تصور کیا جائے۔ جہاں فکری قرابت موجود ہے وہاں وہ تجاہل عارفانہ برتتے ہیں مگر جہاں فکر و نظر اور اصولوں میں بعد المشرقین ہے وہاں ان کاشدت سے اصرار ہے کہ ان کو روایت میں جگہ ملنی چاہیے۔ ان کے بقول سر سید اور مکتب فراہی کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اسی اصول کواگر مکتب فراہی اورروایت کے افکار و نظریات تک پھیلا دیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ ان دونوں مکاتب فکر میں زمین اور میم زیڈ چودہ (Mom-z14) کہکشاں جتنا فرق ہے۔
سرسید اور فراہی مکاتب فکر میں، فکری و نظری مماثلتوں اور دونوں کے تجدد پر ہم رکاب ہونے کے باوجود انہیں لگتا ہے کہ دونوں کے مابین اختلاف ظاہر و باہر ہے مگر دوسری طرف روایت اور مکتب فراہی میں CEERS1019 جتنا فرق ہونے کے باوجود ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں نہ صرف روایت میں شامل سمجھا جائے بلکہ انہیں اصل روایت قرار دیا جائے۔ اہل روایت ان کے گلے میں ہار ڈالیں۔ ان کے لیے تحسین و آفرین کی مجلسیں منعقد کی جائیں اور ان کے امام کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے۔ اس کے ساتھ انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ ہم بیدار معاشرہ نہیں ہیں۔ اس بیداری کا ظہور اور اس کی شہادت صرف اسی صورت ممکن ہے جب مکتب فراہی کو اصل روایت ڈکلیئر کیا جائے اور ان کے امام کے اعزاز میں گلی گلی جلوس منعقد ہوں۔ پاکستان بھر میں چراغ روشن کیے جائیں اور ریاستی سطح پر امام کے اعزاز میں تقریبات منعقد کی جائیں۔
خورشید ندیم صاحب کو یہ بھی اعتراض ہے کہ مکتب فراہی کے معاملے میں عوام الناس میں ابہام پیدا کیا جاتا ہے۔ عوام الناس کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مکتب فراہی ایک نیا فرقہ اور مسلک ہے جودین کی تجدد پسند تعبیر کو فروغ دے رہا ہے۔ یہ ان کا بجا شکوہ ہے۔ اہل روایت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ان کو چاہیے کہ اپنے رویوں پر غور کریں اور امام کے فکر پر آمنا و صدقنا کہیں۔ جب وہ امام کے فکر پر ایمان لے آئیں گے تو ان میں اعتدال پیدا ہوگا۔ ایسا اعتدال کہ امریکا انہیں دنیا کا سب سے مہذب فاتح دکھائی دے گا۔
اس کے برعکس خورشید ندیم صاحب اور ان کے امام نے کبھی کوئی خلط مبحث پیدا نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی روایت کو متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انہیں اور ان کے امام کودو دہائیوں سے جو ایک بڑے میڈیا ہاؤس کا پلیٹ فارم میسر ہے اس سے وہ ہمیشہ روایت کو "تقویت" پہنچاتے آئے ہیں۔ ایسا پلیٹ فارم جس کی رسائی براہ راست عوام تک ہے اور پاکستان میں شاید ہی کسی اور فکر کو ایسا پلیٹ فارم میسر ہوا ہو۔ اہل روایت بلاوجہ بے پرکیاں اڑاتے ہیں کہ انہوں نے اس پلیٹ فارم سے تجدد کی راہ ہموار کی ہے اور روایت کے وجود کو چھلنی کیا ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے اپنے کالمز میں کچھ معصوم خواہشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ مثلاً ایک طرف وہ سر سید اور ان کے فکری سرمایے سے لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ان کی خواہش ہے کہ ان کے امام کو روایت کے صدیوں پر محیط علمی و فکری سرمایے پر نقب لگانے اورا س میں خلط مبحث پیدا کرنے کی بھی اجازت دی جائے۔ اس سے جڑی ہوئی خواہش یہ کہ امام کی روایت پر نقب زنی کو پوری قوم اجتماعی سطح پر سیلی بریٹ کرے، جشن منائے، تحسین کی مجالس منعقد کرے اور ان کی فکری ریاضتوں کو ریاست کا قانون ڈکلیئر کرے۔ معمولی شعور رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ یہ مطالبہ کس قدر سطحی اور مضحکہ خیز ہے۔ خورشید ندیم صاحب دانشور اور معقول آدمی ہیں لیکن دیکھیے امام کی محبت میں کتنی معصوم خواہشات پر اتر آئے ہیں۔
روایت کیا ہے، دین کا وہ اجتماعی فہم جوچودہ سوسال سے تسلسل سے چلا آ رہا ہے جبکہ غامدی صاحب کی روایت اور ان کی فکری بنیاد یں اُس دبستانِ فکر سے جڑی ہیں جس کا آغاز ڈیڑھ سو برس قبل مولانا حمید الدین فراہی سے ہوا ہے۔ مولانا فراہی سے یہ منہج مولانا امین احسن اصلاحی تک منتقل ہوا اور بعد ازاں اسے جاوید احمد غامدی نے اچک لیا۔ اچک لیا کا لفظ میں نے دانستہ استعمال کیا ہے کہ جس طرح غامدی صاحب نے فراہی و اصلاحی منہج کو اپنی فکری ترجیحات، اپنے اصولی انتخاب اور اپنے مخصوص نتائج کے تحت ازسرنو ڈھالا ہے اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے یہی لفظ موزوں ہے۔ غامدی صاحب کی تعبیر دین کو شاید خود مولانا فراہی و اصلاحی بھی قبول نہ کرتے۔
تمہید طویل ہوگئی، اگلے کالم میں ہم غامدی صاحب اور روایت کے اصول، ان اصولوں میں فرق اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والے تصور دین پر بات کریں گے۔

