قرآن: تلاوت کی ساتھ تدبر بھی
یہ واقعہ میرے دوست نے چند سال قبل سنایا تھا۔ میرے دوست کا بھتیجا ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا، ایک دن وہ کسی کام کے سلسلے میں اپنی پروفیسر کے آفس میں گیا، اسے اپنی اسائنمنٹ کے حوالے سے کوئی بات کرنا تھی۔ وہ آفس پہنچا، دستک دی اور اندر داخل ہوگیا، اس نے دیکھا پروفیسر قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھ رہی تھی۔ اسے جھٹکا لگا، اسائنمنٹ پر بات کرنے سے پہلے اس نے سوال کر ڈالا: "میڈم آپ قرآن پڑھ رہی تھی؟" پروفیسر نے سوال سنا تو چونک گئی، کتاب بند کی اور صرف دو لفظوں میں جواب دیا: "یس، یو ڈونٹ، وی ڈو" (ہاں، تم نہیں پڑھتے، ہم تو پڑھتے ہیں)۔
آج من حیث الامہ ہمار ے زوال کے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے تدبر قرآن کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ہم قرآن کی تلاوت تو شاید کبھی نہ کبھی کر لیتے ہیں لیکن ہمیں اس کے معانی اور مفاہیم پر غور کرنے کی توفیق کبھی نہیں ہوتی۔ یہ تدبر قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے کہ آج ہم دین اور دنیا دونوں اعتبار سے پیچھے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی غلطی کا احساس تک نہیں۔ ہم سارا سال قرآن کو ہاتھ تک نہیں لگاتے اور رمضان میں اگر قرآن کو ہاتھ لگاتے بھی ہیں تو چند صفحات تلاوت کے بعد اسے دوبارہ رکھ دیتے ہیں۔
ہمارا سارا زور زیادہ سے زیادہ قرآن مکمل کرنے پر ہوتا ہے، ہم اس کی آیات پر تدبر اور غور و فکر نہیں کرتے۔ اس امت نے قرآن کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ کی کہ اسے محض تلاوت کرنے والی کتاب سمجھ لیا ہے جبکہ نزول قرآن کا اصل مقصد تدبر اور ہدایت تک پہنچنا تھا۔ ہمارا نوجوان دنیا بھر کا ادب پڑھتا ہے لیکن اس کے پاس قرآن کو سمجھنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ آپ کسی راہ چلتے ہو ئے نوجوان کو روک کر پو چھ لیں وہ آپ کو ہیر رانجھے سے سسی پنو ں اور لیلیٰ مجنوں سے شیریں فرہاد تک کے سارے قصے سنا دے گا۔ وہ آپ کو ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ میں بننے والی ہر فلم، اس کی ہسٹری، اس کے ریلیز ہونے کا سال اور اس کی مقبولیت کا گراف تک بتا دے گا لیکن اس نے زندگی میں کبھی قرآن کا ترجمہ پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہوگی۔ خود سوچیں ہمارا اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا اور ہم زوال پذیر کیوں نہیں ہوں گے۔
ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! آپﷺ بوڑھے نظر آ رہے ہیں کہ آپﷺ کے بال سفید ہو گئے ہیں، آپﷺ نے فرمایا مجھے سورۃ ھود، سورۃ الواقعہ اور سورۃ المرسلات نے بوڑھا کر دیا ہے۔ (ان سورتوں میں قیامت کا ذکر ہے اور قیامت کی ہولناکیوں سے آپﷺ کے بال سفید ہو گئے تھے) حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "عنقریب فتنے ظاہر ہوں گے، ان سے بچنے کا طریقہ اللہ کی کتاب قرآن ہے، اس میں تم سے پہلے اور بعد کی خبریں ہیں اور اس میں تمہارے فیصلے موجود ہیں۔ یہ قول فیصل ہے، فضول بات نہیں ہے، جو جابر سرکش اس کو چھوڑے گا اللہ اس کو توڑ کر رکھ دے گا اور جو اس کے علاوہ ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گمراہ کر دے گا"۔
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں اللہ کی قسم! قرآن میں غور و فکر اسے نہیں کہتے کہ اس کے حروف کو تو یاد کیا جائے مگر اس کے حدود کو پامال کیا جائے۔ بعض لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے پورا قرآن ختم کر لیا جبکہ ان کے اخلاق و کردار میں قرآن کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ مفتی محمد شفیع عثمانیؑ شیخ الہندؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رہائی کے بعد ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند میں علما کے ایک مجمع میں شیخ الہندؒ نے فرمایا: "ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں۔ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے، ایک ان کا قرآن کریم کو چھوڑ دینا اور دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے۔ بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں۔ بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدل کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے"۔
قرآن پر تدبر اس لیے ضروری ہے کہ آج من حیث الامہ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے قرآن میں ان مسائل کے حوالے سے راہنمائی موجود ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہی خالق مالک اور رازق ہے۔ قرآن میں فرشتوں اور قیامت کا ذکر ہے اور قیامت کے نزدیک رونما ہونے والے واقعات جیسے یاجوج ماجوج، دابۃ الارض کا ظاہر ہونا اور حضرت عیسیٰؑ کا نازل ہونا شامل ہیں۔ مرنے کے بعد جی اٹھنا اور اس کے بعد کی زندگی، عالم برزخ کے حالات، قیامت کے احوال، نفسی نفسی کا عالم، شیطان اور باطل معبودوں کا اپنے تابعداروں سے الگ ہو جانا۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ قیامت کے دن حساب کتاب ہوگا اور ہر عمل کی جزا اور سزا دی جائے گی۔ قرآن میں عبادات کا ذکر ہے، طہارت کا تفصیلی بیان ہے جس میں وضو اور جنابت وغیرہ کے معاملات کے ساتھ تیمم، قصر نماز، نماز پڑھنے کا طریقہ، نماز کی حفاظت، خضوع خشوع اور وقت کی پابندی سکھائی گئی ہے۔ قرآن نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ بے حیائی سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے لیے جگہ، لباس اور بدن کا پاک ہونا ضروری ہے اور جو انسان پانچ وقت کی نمازوں کا اہتمام کرتا ہے تو یقینا اس کا بدن اور لباس پاک رہتا ہے جو عموماً بے حیائی اور فواحش کی وجہ سے ناپاک رہتا ہے۔
قرآن زکوٰۃ، صدقہ، ان کے مصارف، روزہ، اعتکاف، لیلۃ القدر، حج، خانہ کعبہ کی تحریم و تعظیم، عمرہ، احرام، طواف، نکاح، ولی، نکاح کس کس سے جائز ہے، مہر، طلاق کی تفصیل، عورت کو طلاق کا اختیار، خلع، ظہار، لِعان کا ذکر، عدت کا بیان، چور اور رہزن کی سزا، زانی کی سزا، تہمت لگانے والے اور ثبوت نہ لانے والے کی سزا، پردہ، وصیت اور میراث، خرید و فروخت، سود، جہاد، صلح، مال غنیمت، غدار اور خائن دشمن سے سلوک، دشمن سے بھی عہد نہ توڑنا، اسلام میں داخل ہونے کے لیے دشمن کو مجبور نہ کرنا اور دشمن پر ظلم و زیادتی نہ کرنا جیسے تمام معاشرتی معاملات میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
قرآن ہمیں حضرت آدم و حوا کا بیان، ابلیس کا ذکر، دیگر نبیوں کے قصے، ہابیل قابیل کا ذکر، اصحاب کہف، ہاروت ماروت وغیرہ، حقوق العباد میں والدین، ہمسایہ، رشتے دار، زوجین، غلام، یتیم، مسکین، سائل، مہمان، دشمن کا حق اور گزشتہ اقوام کے حالات بتاتا ہے۔ غرض قرآن میں ہمیں پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے ہر طرح کی راہنمائی موجود ہے اور آج ہر صاحبِ ایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
رمضان کی ساعتوں میں ہمیں قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس کے معانی و مفاہیم کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کے الفاظ کی تاثیر مسلم لیکن اس کی حقیقی روح اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ ساری رات نوافل پڑھنے سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ دین کا کوئی مسئلہ سیکھ لیا جائے۔ اس لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ تلاوت کے ساتھ اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے اور انہیں اپنی زندگی میں لانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔