مکتب غامدی کی تعبیر دین کے نتائج
پچھلے کالم میں ہم نے مکتب غامدی کی تعبیر دین کے اصول بیان کیے تھے، ان اصولوں کی روشنی میں دین کی جو تعبیراور نتائج سامنے آتی ہے ہم اس پر بات کر لیتے ہیں۔ روایت اپنی پوری ہیئت میں دین کو قران، سنت، حدیث، فہمِ صحابہ اوراجماع امت کے شعور سے اخذ کرتی ہے۔ اس کے نزدیک دین کوئی ذوقی تجربہ نہیں بلکہ وحی کی ایک منضبط، محفوظ اور متصل کڑی ہے۔ اس کے برعکس مکتبِ غامدی نظمِ قرآن، اصولِ فطرت، عقل کی حاکمیت اور خبر کو ثانوی حیثیت دے کر دین کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ اس سانچے سے جن نتائج کا ظہورہوتااور جو تعبیر سامنے آتی ہے وہ دین کے پورے ڈھانچے کو زیر زبر کردیتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں ایک عام مسلمان خلط مبحث کا شکار ہو جاتا ہے۔
دین کا منبع رسول اللہ کی ذات ہے اور امت تک دین کی منتقلی "خبر"کے ذریعے ہوئی ہے۔ خبر کے بغیر دین کی منتقلی ممکن نہیں۔ قرآن بھی خبر ہے، سنت بھی خبر ہے، صحابہ کے اقوال بھی خبر ہیں، فقہا کے دلائل بھی خبر ہے، امت کا تعامل بھی خبر ہے اور اجماع بھی خبر ہی کی توثیق ہے۔ دین کی منتقلی میں خبر کی اس اصولی حیثیت کو نظر انداز کیا جائے تو دین تاریخ کے ایک دھندلے خیال میں بدل جاتا ہے۔ پھر یہ معلوم ہی نہیں رہتا کہ چودہ سو سال کے دوران اس امت نے کس چیز کو دین سمجھااور کس کو نہیں۔ مکتبِ غامدی جب خبر کی اس اصولی حیثیت کو ایک تاریخی ریکارڈ کہہ کر نظر انداز کرتا ہے تو دین کی وہ تعبیرجو روایت نے صدیوں کی محنت سے قائم کی تھی ایک دم نیست ونابود ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دین امت کے اجتماعی فہم سے نکل کر ایک فرد کا ذوقی تجربہ اور فردی پیمائش بن جاتا ہے۔
اس تعبیر دین کا پہلا اثر حدیث و سنت پر پڑتا ہے۔ روایت کے نزدیک حدیث محض تاریخی حکایت نہیں بلکہ قرآن کی شرح، تفصیل اور عملی تطبیق ہے۔ جبکہ مکتبِ غامدی حدیث کو شرح و وضاحت جیسے مبہم نام کا عنوان دے کر عملاً دین کی نصف عمارت کومہندم کردیتا ہے۔ روایت میں نماز، زکوٰۃ، حج، طلاق، وراثت، تجارت، سیاست، قضا، جہادسب کچھ اپنے عملی پہلوؤں کے ساتھ سنت و حدیث سے ثابت ہیں اور ان کی پوری تفصیل خبر کے ذریعے امت تک منتقل ہوئی ہے۔ جبکہ مکتبِ غامدی ان میں سے بہت سی چیزوں کی تفصیل قرآن میں نہ ملنے کی بنا پر، حدیث کی طرف رجوع کرنے کے بجائے انہیں رد کر دیتا ہے یا پھر عقل و فطرت کے ذریعے ان کے نئے مفاہیم وضع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح دین ایک ایسے سانچے میں ڈھل جاتا ہے جس میں حدیث کی روشنی کم اور انسانی عقل کا آہنگ زیادہ دکھائی ہوتا ہے۔
اس تعبیر دین کا دوسرا اثر اجماع امت پر پڑتا ہے۔ غامدی مکتب فکرکے اصولوں کے مطابق دین کے وہ سارے اجماعی احکام جن پر امت کا چودہ صدیوں سے اجماع تھا ناقابل عمل بن جاتے ہیں۔ مثلاً روایت کے نزدیک رجم کی سزا سنت اور حدیث دونوں سے ثابت ہے اور امت کے ہر دور میں فقہا نے اسے حجت مانا ہے۔ لیکن مکتبِ غامدی چونکہ عقل اور نظمِ قرآن کو حاکم مانتا ہے اور حدیث کو مستقل مصدر نہیں، اس لیے وہ رجم کو غیر شرعی قرار دیتا ہے۔ اسی طرح سود کی پوری بحث جو قرآن، سنت، صحابہ کے تعامل اور فقہا کے اجماع سے ثابت ہے، مکتبِ غامدی کے یہاں ایک نئی تعبیر میں ڈھل جاتی ہے جس میں جدید معاشی تصورات کو "فطرت" کا قائم مقام بنا دیا جاتا ہے۔ پردہ، جہاد اور خلافت جیسے مسائل میں بھی یہی صورت پیدا ہوتی ہے۔ وہ چیزیں جو امت کا مسلّمہ سرمایہ تھی، مکتبِ غامدی کی تعبیر میں یکسر مسترد ٹھہرتی ہیں۔
روایت کے نزدیک عقل نص کو سمجھنے کا آلہ ہے اس پر حاکم نہیں۔ لیکن مکتبِ غامدی کی تعبیر میں عقل اور فطرت نص پر مقدم ہو جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جہاں کہیں نص عقل کے کسی جدید تصور سے ٹکراتی ہے، وہاں نص کو تاویل، تخصیص یا محض تاریخی تناظر کہہ کر غیر مؤثر بنا دیا جاتا ہے۔ یوں دین کا وہ حصہ جو غیب، عبادات، تقدیر، معجزات، فرشتوں، جنات یا آخرت سے متعلق ہوتاہے وہ نئے تاویلی سانچوں میں ڈھل جاتا ہے۔ ایک عام مسلمان کے ایمان کے لیے یہ کیفیت انتہائی خطرناک ہوجاتی ہے۔ وہ یہ سمجھ نہیں پاتا کہ دین میں اصل کیا ہے اور فرع کیا ہے، کس حکم کی بنیاد وحی ہے اور کس کی بنیاد انسانی تعقل۔
ایک اثر یہ پڑتاہے کہ دین اپنی عملی اور اجتماعی صورت کھو دیتا ہے۔ روایت میں دین ایک ہمہ گیر نظام ہے جس میں فرد بھی ہے، معاشرہ بھی ہے، ریاست بھی، عبادات بھی اور معاملات بھی۔ لیکن مکتبِ غامدی کے نزدیک دین کا دائرہ فرد کی اخلاقیات تک سمٹ جاتا ہے۔ شریعت کا بڑا حصہ "قانون" کے بجائے "اخلاق" میں بدل جاتا ہے۔ نتیجتاً دین کا اجتماعی، فقہی، تمدنی اور سیاسی وجود کمزور پڑ جاتا ہے۔ دین ریاست کا جز ٹھہرتا ہے نہ خلافت کوئی دینی قدر باقی رہتی ہے۔ جہاد کوئی دینی حکم رہتا ہے نہ ہی شریعت کا نفاذ کوئی دینی تقاضابنتا ہے۔ دین صرف ایک اخلاقی بیانیہ رہ جاتا ہے اور یہ سب دین کو جدید سیکولر انسان کی ذہنی ساخت کے مطابق ڈھالنے کے لیے کیاجاتا ہے۔ یہ تمام نتائج مل کر مذہب کی ایسی تصویر پیدا کرتے ہیں جس میں مذہب ذاتی خواہشات اور شخصی تجربات کا عنوان بن جاتا ہے۔
اس تعبیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ دین متن اور روایت کے بجائے متن اور عقل پر منحصر ہو جاتا ہے۔ دین کا کوئی بھی حکم چاہے وہ حدیث سے ثابت ہو، صحابہ کے تعامل سے یا امت کے اجماع سے اگر وہ ذہن میں متعین "فطرت" سے ٹکرائے تواسے رد کر دیا جاتا ہے۔ فطرت کا یہ دروازہ کھلتے ہی دین، نصوص اور احکام کے ایک جامع نظام کے بجائے چند ذاتی تعبیرات تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ روایت میں حدود و قصاص، ارتداد کی سزا، زنا کی سزا، سود کی حرمت، جہاد کی تشریحات، میراث کے احکام، گواہی کے اصول اور نکاح و طلاق کے معاملات سب حدیث، فہم صحابہ اور اجماع امت کے ذریعے متعین ہوتے ہیں۔ جبکہ مکتب غامدی کی تعبیر کے مطابق ان میں سے کئی احکام اپنی اصل شکل میں برقرار ہی نہیں رہتے۔ کہیں سزا بدل جاتی ہے، کہیں حکم کی بنیاد تبدیل ہو جاتی ہے، کہیں حکم کو مخصوص سیاق میں محدود کر دیا جاتا ہے اور کہیں حکم کو قرآن کے "نظم" کے خلاف قرار دے کر رد کر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ دین کا ایک بڑا حصہ غیر یقینی، غیر معتبر اور شخصی فہم پر منحصر ہو جاتا ہے۔ وہ دین نہیں رہتا، ایک تجزیاتی فلسفہ بن جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ایک بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ دین کے اندر "دومرکزیت" پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک مرکز قرآن اور دوسرا مرکز عقل و فطرت بن جاتے ہیں اور ان دونوں مراکز کا فیصل عقل کو ٹھہرادیا جاتا ہے۔ یوں قرآن کا متن تو موجود رہتا ہے مگر اس کے ساتھ حدیث کی تائید، سلف کا فہم، امت کا تعامل سب غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔ اس طرح دین کا حقیقی مرکز قرآن نہیں فرد کی عقل بن جاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے روایت نے ہمیشہ "تفرد" کہ کر رد کیاہے۔
دین کا اصل جوہر وہ ہے جو امت کے متفقہ شعور سے ثابت ہے۔ روایت اسی شعور کا نام ہے اور یہی شعور دین کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ اگر اس شعور کو بے وزن کر دیا جائے یا اسے تاریخ کا بوجھ کہہ کرجھٹلا دیا جائے تو دین ایک ایسی عمارت بن جاتا ہے جس کی نہ بنیادیں مضبوط رہتی ہیں، نہ دیواراور نہ ہی چھت۔ ایسی عمارت جوچند ذوقی تعبیرات، نظمِ قرآن جیسی مخصوص اصطلاحات، عربی معلیٰ کے محدود اطلاقات اور عقلی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہوتی ہے۔ ختم شد۔

