Tuesday, 09 December 2025
  1.  Home
  2. Muhammad Irfan Nadeem
  3. Maktab e Ghamidi Ke Mazeed Asool

Maktab e Ghamidi Ke Mazeed Asool

مکتب غامدی کے مزید اصول

اس دنیا میں انسانی علم کہ جس کا ہم آئے روز مشاہدہ کرتے ہیں تین بنیادی منابع سے وجود پذیر ہوا ہے، مشاہدہ، عقل اور وحی۔ باقی سب علوم انہی تین ذرائع کی ترکیب سے وجود میں آئے ہیں۔ مشاہدہ اور عقل ہمارا موضوع نہیں سوسردست ہم وحی کی طرف آتے ہیں۔ دین وحی پر قائم ہے اور وحی انبیاء پر نازل ہوتی ہے۔ وحی کی تفصیلات ہم تک خبر کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں اس لیے خبر کا ثبوت اور اس کی حجیت مذہب کا بنیادی مطالبہ بن جاتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دین کا واحد اور تنہا ماخذ، قرآن و سنت کی صورت میں رسول اللہﷺ کی ذات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ دین بعد کی نسلوں تک کیسے منتقل ہوتا ہے؟ مکتب غامدی اس کا جواب فطرت، عقل اور تاریخ میں تلاش کرتے ہیں۔ یہ مؤقف اپنے منطقی نتائج میں دین کے بنیادی ڈھانچے کو زیر زبر کر دیتا ہے۔ عقل و فطرت میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ چودہ سو سال پہلے کے کسی واقعے، کسی حکم یا کسی نص کی حقیقت کا خود فیصلہ کر سکیں۔ تاریخ خود خبر کی محتاج ہے کہ تاریخ کو تاریخ بننے کے لیے راوی، خبر، نقل اور روایت کی ضرورت ہے۔

روایت کا جواب یہ ہے کہ بعد کی نسلوں تک دین کی منتقلی کا بنیادی ماخذ "خبر" ہے۔ اس خبر پر امت کا اجماع قائم ہو جائے تو یہ اس خبر کی اضافی تائید اور تصویب بن جاتا ہے۔ قرآن نے خود خبر کی حجیت پر بارہا استدلال کیا ہے۔ "اِیتونی بکتابٍ من قبل ھذا او اثارۃٍ من علم" میں لفظ "اثارۃ" سلف کی خبر اور روایت پر مستدل ہے۔ قرآن یہ اصول بیان کر رہا ہے کہ وحی سے پہلے کے مذاہب یا آثارِ سلف سے دلیل پیش کی جا سکتی ہے اور یہ آثار ایک طرح کی خبر ہی ہیں۔ اسی طرح "ا ن جاء کم فاسق بنبا فتبینوا" میں خبر کو قبول کرنے کی اجازت تحقیق کے ساتھ دی گئی ہے۔ یہ اصول بعینہ وہی ہے جو علمِ حدیث کی بنیاد ہے۔ خبر ایک آدمی کی ہو یا زیادہ کی اس کو رد نہیں کیا جاتا، صرف اس کی تحقیق لازمی سمجھی جاتی ہے۔

قرآن کے اپنے ثبوت کا معاملہ بھی خبر کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن اور اس کی قرأتیں صرف اور صرف خبر کے ذریعے منتقل ہوئی ہیں۔ قرآن کی جمع و تدوین انہی روایات کے ذریعے ہوئی۔ حضرت ابو خزیمہ انصاری کی گواہی کو قبول کرنا بھی خبر کے اصول کا زندہ ثبوت ہے۔ آج دنیا کے درجنوں ممالک میں قرآن مختلف متواتر قرأتوں میں پڑھا جاتا ہے۔ یہ قرأتیں خبر ہی کے ذریعے امت کو ملی ہیں۔ اگر قرأتوں کی خبر کو نکال دیا جائے تو پھر نہ حافظے میں رہنے والی قرأت کا کوئی اعتبار بچتا ہے نہ تحریر کی شکل میں محفوظ نسخوں کا۔ یہ نتیجہ اتنا خوفناک ہے کہ عقل و نقل کسی اعتبار سے بھی اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔

امت کا اجماع ہے کہ دین کی منتقلی کا اصل اور واحد ذریعہ "خبر" ہی ہے۔ قرآن و سنت دونوں صحابہ سے خبر کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ خبر کبھی محتف بالقرائن ہوتی ہے، کبھی تلقی بالقبول کا درجہ رکھتی ہے، کبھی مجرد خبر واحد ہوتی ہے اور کبھی ایسی خبر ہوتی ہے جس کے مضمون پر امت کا اتفاق ہوتا ہے۔ یہی اخبار دین کی بنیاد بنتی ہیں۔ اگر ان اخبار کو غیر معتبر قرار دیا جائے تو نہ قرآن کے ثبوت کا درجہ باقی رہتا ہے نہ سنت کے وجود کا۔ پھر وہ تمام احکام، اعمال اور عقائد جو امت نے نسل در نسل محفوظ کیے، سب غیر یقینی ہو جاتے ہیں۔ دین اسلام کی حجیت، حفاظت اور ثبوت کا مرکزی اور بنیادی ستون خبر ہی ہے۔ یہی اصول قرآن سے ثابت ہے، یہی حدیث کے منہج کا تقاضا ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس پرامت کا چودہ صدیوں سے اجماع ہے۔ اگر خبر کی اس اصولی حیثیت کو ترک کیا جائے تو عقل اور تاریخ مرکز بن جاتے ہیں اور دین ایک ایسی تعبیر میں ڈھل جاتا ہے جس کا کوئی اصول باقی نہیں رہتا۔ دین کا تسلسل خبر سے ہے اور خبر ہی اس امت کے علم کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

غامدی مکتب فکر خبر کی اس اصولی حیثیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے نزدیک خبر محض تاریخی ریکارڈ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ انہوں نے خبر کے رد و قبول کے لیے کچھ ایسی اصطلاحات وضع کی ہیں جن کی وضاحت میں یہ خود الجھ جاتے ہیں۔ کبھی اسے شرح و بیان کا عنوان دیا جاتا ہے، کبھی تواتر قولی و عملی کی تفریق کی جاتی ہے اور کبھی الفاظ کے داؤ پیچ کا سہارا لے کر خلط مبحث پیدا کیا جاتا ہے۔

مکتب غامدی کے کچھ مزید اصول بھی ہیں، مثلاً روایت کے نزدیک قرآن و حدیث دونوں دین کے مستقل مصادر ہیں جبکہ مکتب غامدی کے نزدیک "کتاب" کا اطلاق محض قرآن پر نہیں بلکہ تمام آسمانی کتب پر ہوتا ہے اور "سنت" صرف ان عملی روایات کا نام ہے جو حضرت ابراہیمؑ کی امت سے چلی آ رہی ہیں۔ روایت کے ہاں قرآن و سنت سے استنباط میں سلف کی پیروی مطلوب اور اس سے انحراف قابلِ مذمت ہے مگر مکتب غامدی کے ہاں اعتزال باعثِ فخرہے۔ روایت کے نزدیک صحابہ، تابعین اور آئمہ امت کے درمیان پیدا ہونے والا اجماع حجت ہے۔ مکتب غامدی کے نزدیک یہ اجماع حجت نہیں بلکہ پوری امت کے اجماع پر غلطی کا امکان موجود ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو امت کا چودہ سوسالہ علمی ورثہ بیک آن نیست و نابود ہو جاتا ہے۔

روایت کے نزدیک عقل و فطرت کا اپنا مقام ہے مگر ان سے کسی شرعی حکم کا اثبات نہیں ہوتا۔ مکتب غامدی کے نزدیک فطرت اور عقل بھی شرعی احکا م یعنی حلال و حرام، اوامر و نواہی کے مستقل ذرائع ہو سکتے ہیں۔ یہ موقف اگر مان لیا جائے تو شریعت کا بڑا حصہ انسانی تعقل کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور خبر کے اصولی مقام کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ روایت کے نزدیک قرآن کے قطعی مفہوم کا تعین تین طریقوں سے ممکن ہے حدیث کے ذریعے، صحابہ کے اقوال کے ذریعے اور اجماع امت کے ذریعے۔ مکتب غامدی کے نزدیک عربی معلیٰ، نظم قرآن اور قرآن کا عرف قطعی معیار ہیں۔ اہل روایت قرآنی آیات کی تخصیص، تقیید اور توضیح حدیث کے ذریعے جائز سمجھتے ہیں جبکہ مکتب غامدی کے نزدیک حدیث کا یہ مقام نہیں۔

ان اصولوں کے اطلاقات کے نتیجے میں روایت اور مکتب غامدی کا جو تصور دین قائم ہوتا ہے اس پر ان شاء اللہ ہم اگلے کالم میں بات کریں گے۔

Check Also

Ducky Bhai Ke Sath Ghalat Hua Magar

By Syed Mehdi Bukhari