مدارس کے طلبا اور یونیورسٹیز
کچھ عرصے سے مدارس کے طلبا کا اعلیٰ تعلیم اور یونیورسٹیوں کی طرف آنے کا رجحان بڑھا ہے اور یہ اچھی پیش رفت ہے۔ مدارس کے طلبا کی دینی علوم پر دسترس اور نصوص کو سمجھنے کا فہم بہتر ہوتا ہے مگر مسئلہ صرف اس علم کے اطلاق اور اس کو اپنے عہد سے ریلیٹ کرنے کا ہوتا ہے۔
مدارس کا اپنا ایک نظم ہے جو قدیم طرز پر چل رہا ہے اور اس میں عبارت حل کرنے اور عبارت سمجھنے کی اہلیت پیدا کرنے پر فوکس ہوتا ہے۔ کسی علم یا فن کے اطلاقات اور اس سے جڑے جدید مسائل پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی اور طلبا گہرا فہم رکھنے کے باوجود اسے سماج پر اپلائی کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ مثلاً قرون وسطیٰ کے فقہی و کلامی مسائل میں زمین و آسمان کا فرق ہے، طلبا ماضی کے مسائل سے تو واقفیت حاصل کر لیتے ہیں لیکن دور جدید میں ان مسائل کی کیا نوعیت ہے، انہیں عموماً اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔
ایک کمی عموماً یہ ہوتی ہے کہ ماضی قریب و بعید میں، دینی علوم میں ہونیوالی پیشرفت سے شناسائی نہیں ہوتی اور اس علم یا فن کو دیکھنے کا ان کا تناظر محدود ہوتا ہے۔ یونیورسٹی میں آنے سے ان طلبا کو اپنے علم کو اپ ڈیٹ اور اسے اپنے عہد سے ریلیٹ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جدید طریق ہائے تدریس، سماج کی نفسیات، اپنے عہد کی زبان و محاورے سے شناسائی اور دینی علوم میں ہونے والی پیشرفت سے آگاہی ہوتی ہے۔
مدارس کے ماحول سے باہر کی دنیا کو دیکھنے کا نیا تناظر، دینی علوم میں کام کرنے والی جدید شخصیات اور دینی علوم کے نئے اطلاقات سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس لیے جن طلبا کے لیے ممکن ہو انہیں یونیورسٹی کی طرف ضرور آنا چاہئے۔ اس سے ان کا اپنا فہم دین بھی بہتر ہوگا اور وہ سماج کی ضروریات کے پیش نظر مذہب کی بہتر تشریح کر سکیں گے۔ لیکن مدارس کے طلبا کو بطور استاد یا طالب علم یونیورسٹی کی طرف آنے سے پہلے چند باتوں کو ضرور مد نظر رکھنا چاہئے۔
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ مدرسہ میں آٹھ دس سال لگانے کے بعد ان کی یہ مذہبی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ "کامیابی" کے بارے میں ان کا زاویہ نظر درست ہو۔ پیسہ، عہدہ، دولت، شہرت اچھی چیزیں اور کامیابی کی علامت ہیں مگر بطور مدرسہ گریجوایٹ ان کا یہ تصور کامیابی ناقص اور ادھورا ہے۔ ان کا کامل تصور یہ ہونا چاہئے کہ عہدہ۔
دولت اور شہرت کے ساتھ وہ مدرسہ، امت اور مذہب کو کیا لوٹا رہے ہیں۔ ایسے طلبا یونیورسٹی میں جا کر بے جا تاثر مت لیں، اچھی اور مثبت چیزوں کو ضرور لیں لیکن مدارس کی نسبت یونیورسٹی کی چکا چوند انہیں مدارس سے بد ظن نہ کر دے۔ مدارس اور یونیورسٹی کے ماحول، وسائل اور مسائل کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے۔ مدارس میں بہتری کے لیے حسن ظن کے ساتھ غور و فکر ضرور کریں مگر انتہا پر نہ جائیں۔
عموماً دیکھا یہ گیا ہے لوگ ایک انتہا سے نکلتے ہیں تو دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ماحول، اساتذہ کے افکار اور کولیگز کی ڈسکشن سے فکری مسائل اور احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ مدرسہ نے آپ کو جو دیا ہے وہی اصل ہے بس اسے کچھ اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی روایت کے اصل امین مدارس ہی ہیں اس لیے اپنے مدرسہ بیک گراؤنڈ سے نہ صرف مطمئن رہیں بلکہ شکر بھی ادا کرتے رہیں۔ ہاں ایک فکر مند داعی کی طرح بہتری کے لیے حسن ظن کے ساتھ غور و فکر ضرور کریں۔
روایت سے انحراف اور اساتذہ و علما سے بد ظن نہ ہوں۔ روایت زندگی و موت کا مسئلہ ہے، اگرچہ دور جدید میں روایت کو اس قدر متنازع بنا دیا گیا ہے کہ ہر کوئی روایت کا ترجمان کہلانے پر مصر ہے مگر یہ یقین رکھیں کہ قرآن میں جس اسلامی روایت کا ذکر ہوا ہے، بعض خامیوں کے باجود اس کے اصل امین مدارس اور وابستگان مدارس ہی ہیں۔ جدید مغربی فکر و فلسفہ سے آگاہی ضرور لیں مگر اس سے متاثر نہ ہوں۔ ان فلسفوں کے اثرات سے عقائد و نظریات میں کجی نہ آئے۔
فلسفہ اور مغربی فکر کو مذہب اور کائنات کی تفہیم میں معاون کے طور پر لیں اسے مقصود نہ بنائیں۔ اسے مقصود بنانے سے جو نامناسب اور انتہا پسندانہ رویے سامنے آتے ہیں میں ان کا عینی شاہد ہوں۔ طلبا کے سامنے جدید فلسفہ و سائنس کے صرف سوالات نہ رکھیں بلکہ انہیں ان کے جوابات بھی دیں۔ صرف سوالات رکھنا انہیں فکری انتشار میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ میں نے خود طلبا سے سنا ہے کہ اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے انہیں فکری انتشار اور شکوک و شبہات میں مبتلا کیا۔
آپ ایک سمسٹر میں طلبا کو سب کچھ نہیں پڑھا سکتے آپ بس انہیں علم کا ذوق اور چسکہ لگا دیں جو عموماً یونیورسٹی کے ماحول میں انہیں نصیب نہیں ہوتا۔ ان میں علم کی طلب اور جستجو پیدا کر دیں اور انہیں اس قابل بنا دیں کہ وہ دنیا کو ایک نئے تناظر اور زاویے سے دیکھنے کے اہل ہو سکیں۔ مذہب میں مسلک پر شدت اختیار نہ کریں، پانچ بنیادی عقائد جیسے مشترکات کے بعد مسلک میں اختیار کا آپشن دیں۔ اصول واضح کر دیں مگر کسی پر حکم نہ لگائیں۔ طلبا آپ کو حکم لگانے پر مجبور کریں گے مگر بطور استاذ آپ سب مذاہب و مسالک کے لیے احترام کا نمونہ بن کر دکھائیں۔
انسانیت وہ مشترکہ مذہب ہے جو یکساں قابل قبول ہے۔ مذہب کو انسانیت کے پیرہن میں پیش کریں، اس بنیاد پر کی گئی بات میں وزن اور تاثیر دونوں ہوں گے۔ کلاس روم میں رسمی تعلیم کے ساتھ غیر رسمی تعلیم کا انداز بھی اپنائیں۔ سمسٹر کے دوران کبھی کبھار طلبا کے ساتھ کیفے، لان میں بیٹھ کر کچھ وقت بتائیں، مذہب کے موضوع پر ہلکی پھلکی گفتگو کرتے رہیں، ان کے سوالات لیں، ان کی کونسلنگ کریں اور انہیں اپنائیت کا احساس دلائیں۔ ظاہر ہے طلبا کے لیے دعا تو لازم ہے۔
مذہب اور جدید سائنس، جدیدیت، جدید مغربی فکر و فلسفہ اور الحاد وغیرہ جیسے موضوعات پر آپ کا خصوصی مطالعہ ہونا چاہئے کہ بچے عموماً اس قسم کے سوالات کرتے ہیں۔ سوالات نہ بھی ہوں آپ از خود ان موضوعات پر بات کرتے رہیں تاکہ طلبا ان سوالات سے واقف ہو سکیں۔ کسی بھی طریقے سے طلبا کو سیرت رسولؐ کا مطالعہ ضرور کرائیں، اس پر اسائنمٹ لے لیں، پریزنٹیشن رکھ لیں۔
سیرت سے زیادہ زود اثر کوئی چیز میرے علم میں نہیں جس کا طلبا پر اثرہوتا ہو۔ قابل اور دینی جذبہ رکھنے والے طلبا پر خصوصی توجہ دیں، انہیں اپنے سبجیکٹ میں مہارت کے ساتھ مذہب کا مطالعہ بھی کرائیں تاکہ وہ مستقبل میں مذہب و سائنس کے اچھے سکالر کے طور پر سامنے آ سکیں۔