مدارس اور مزید مغالطے !
مدارس کے باب میں، مغالطوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ انہیں ایک کالم میں نہیں سمویا جا سکتا، گوکہ پچھلے کالم میں کسی حد تک ان مغالطوں پر بات ہوئی مگر بات ابھی ادھوری ہے۔ گلوبلائزیشن کے دوراور سرمایہ داری کی دوڑ میں، مسجد و مدرسہ کی تہذیبی اہمیت سے بہت کم لوگ آشنا ہیں، ان اداروں کا وجود صرف مسلم سماج یا دنیا کے کسی خاص خطے کے لیے اہم نہیں بلکہ مسجد و مدرسہ من حیث المجموع مادیت اور استعمار کے خلاف مزاحمت کا آخری استعارہ ہیں۔ ہمارا سماج، دانشور اور مدرسے کا طالب علم اس آخری استعارے کی اہمیت سے نا آشنا ہیں، اسی عدم آشنائی کی بنا پر جب یہ ان کے وجود اور کردار پر بات کرتے ہیں تو درست تناظر نہ سمجھنے کی وجہ سے، راست نتیجے تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس سے ایک فکری کج روی جنم لیتی ہے اور عجیب و غریب رویے اور تبصرے صادر ہوتے ہیں۔ کچھ بہی خواہ بزعم خود مدارس کے طلبہ کے خیر خواہ بنتے اور ان کے مسائل حل کرنے نکلتے ہیں مگر ان کا کرداراس بندر جیسے نادان دوست کی طرح ہوتا ہے جواپنے مالک کے سر سے مکھی اڑانے کے لیے تلوار مارتا ہے اور مکھی کے ساتھ مالک کا سر بھی اڑا دیتا ہے۔
ان نادان دوستوں کو لگتا ہے کہ مدارس میں بیٹھے منتظمین، اکابرین، اہل اللہ، اہل تقویٰ اور اہل عزیمت سے بڑھ کر ہم مدارس اور طلباء کے خیر خواہ ہیں، انہیں لگتا ہے ہمار ا شعور ان سب سے بلند ہے اور جو منظرنامہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ مدارس میں بیٹھے ا ن خاک نشینوں کا کہاں دکھائی دے سکتا ہے۔ ان کے شعور کی انتہائی صورت اپنی ذات، اس سے ذرا نیچے روزگار اور اور آخر درجے میں مدارس کی اسناد کا معادلہ ہوتا ہے۔ دین، مذہب، امت، مسجد و مدرسہ ان کے لیے ثانوی درجے سے بھی ذرا نیچے کہیں وجود رکھتے ہیں۔ جبکہ ان کے اس شعور کی اٹھان جدیدیت سے تاثر، عصری تعلیمی اداروں کی رنگا رنگی اور دنیا کی زرق برق کی بنیاد پر ہوتی ہے، اس لیے ان کی شعوری کوششوں پر ایمان لانے سے قبل یہ جان لینا اہم ہے کہ ان کے شعور کی تشکیل کس ماحول اور کن عوامل کی بنیاد پر ہوئی ہے، یہ سمجھنے سے ان کے فکری نتائج کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
ان بہی خواہوں کے نزدیک مدارس کے طلباء کا بنیادی مسئلہ اسناد کا معادلہ، عصری تعلیم اور روزگار کے مسائل ہیں، جہاں تک بات ہے اسناد کے معادلے کی تو اس ضمن میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ ایچ ای سی درس نظامی کی بنیاد پر ایم اے عربی اور اسلامیات کی ڈگریاں جاری کر رہا ہے، اب یہ لازم نہیں کہ اس ڈگری کی بنیاد پر ہر ایک کو روزگار ملے، جس طرح عصری تعلیم اور فنی تعلیم میں مسابقت بہت زیادہ ہے یہی اصول یہاں بھی لاگو ہوتا ہے، بہتر رزلٹس کے حامل طلبہ ضرور کہیں نہ کہیں کھپ جاتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مدارس کی اسناد پر تنقید و تبصرہ کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو مدارس کی اسناد پر اعلیٰ تعلیم اور بہتر روزگار حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ رہی عصری تعلیم تو اس پر با ت ہو چکی کہ اس کے جو نتائج ہیں اسے دیکھ کر اگر آج بھی کچھ علماء اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ حق بجانب ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مدارس کے نظم کو محض اسناد، روزگار اور عصری تعلیم کے تناظر میں دیکھنا فکری کج روی ہے، صرف ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر آپ مدرسے کی پوری تصویر نہیں دیکھ سکتے، مدارس کے پیش نظر یہ مقاصد اہم سہی مگر اصل مقاصد ان سے بھی اہم اور بلند تر ہیں، مدرسہ صرف تعلیمی ادارہ نہیں خانقاہ بھی ہے اور اس کے عظیم تر مقاصد میں ایسے صالح علماء کی تیاری ہے جو مادیت کی چکا چوند اور دنیاوی اغراض سے بے نیاز ہو کر مخلوق کو اللہ سے جوڑنے میں لگے رہیں، جو مسجد و مدرسہ اور اپنی تہذیب کے پاسبان اور نگہبان ہوں۔ بھلا مجھے بتائیے کہ وہ لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد مدارس کا رخ کرتے ہیں ان کے لیے اسناد، عصری تعلیم اور روزگار کا کون سا مسئلہ ہے، پھر وہ کیوں مدارس کی طرف آتے ہیں۔ جس دن ان بہی خواہوں نے اس نکتے کو سمجھ لیا اس دن انہیں مدارس کی اصل روح سمجھ میں آ جائے گی اور انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ مدارس کے باب میں، اصل حقیقت کیا ہے اور وہ فکری کج روی کی کس انتہاء پر کھڑے ہیں۔
پس نوشت ـ ـ: 23 مارچ کو مولانا طارق جمیل اور ایک اداکارہ کو تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا، اہل دانش اور مختلف حضرات نے اس پر متنوع تبصرے کیے۔ سب سے مشہور تبصرہ یہ رہا کہ مولانا کو اس لیے تمغے سے نوازا گیا کہ ان کی زندگی ناچنے والوں کو راہ راست پر لانے کے لیے وقف رہی اور اداکارہ کو تمغہ اس لیے دیا گیا کہ وہ ناچتی بہت اچھا تھیں۔ یہ دو لفظی تبصرہ ہمارے سماجی دوہرے پن اور فکری انتشار کی دردناک حقیقت ہے۔ ہمارے ہیروز کی فہرست میں کبھی اہل علم، شہداء، علماء، مجاہد، سائنسدان، محقق، مبلغ، موجد، ادیب، لکھاری، سماجی کارکن اور کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔ ہمارا سماج انہیں اپنا ہیرو سمجھتا اور ان جیسا بننے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن افسوس کہ اب یہ فہرست بدل چکی ہے اوراب اس فہرست میں سنگر، ڈانسر، ایکٹر، ٹک ٹاک اسٹار، سوشل میڈیااسٹار اورمخصوص کردار والے یوٹیوبر شامل ہیں۔
آپ نئی نسل سے پوچھیں وہ آپ کو فورا بتائے گی کہ مشہور سنگر، ڈانسر، ایکٹر اور ٹک ٹاک اسٹار کون ہیں اور یہ آپ کو صرف مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی فہرست اور اس فہرست میں شامل کرداروں کے نام بھی بتائے گی۔ لیکن اگر آپ ان سے اصل ہیروز کے بارے میں جاننا چاہیں گے تو کامل مایوسی ہوگی۔ بات صرف جاننے اور ماننے کی نہیں بلکہ نئی نسل کا کردار اور ذہن اسی سانچے میں ڈھل رہا ہے اورسماج بہت بڑے فکری بحران کا شکار ہے۔ اچھائی اور برائی کا تصور مسخ ہے، گناہ اور نیکی کے معیارات بدل گئے ہیں اور اس سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ دلوں سے برائی کااحساس تک ختم ہو گیا ہے۔ کیا مولانا طارق جمیل اور اداکارہ کو دو متضاد شعبوں میں ایوارڈ کی ادائیگی ہمارے سماجی فکری بحران کی کھلی حقیقت نہیں، دو متضاد چیزیں بیک وقت کیسے صحیح ہو سکتی ہیں جبکہ اچھائی اور برائی کے معیار کا پیمانہ بھی سامنے موجود ہے۔ اس فکری انتشار کے ساتھ ہم کب تک خود کواور سماج کو دھوکہ دیتے رہیں گے اور اس فکری پراگندگی کے ساتھ یہ سماج کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اگر یہ روش جاری رہی تو ہماری اگلی نسلیں محض نام کی مسلمان رہ جائیں گی۔
جب سماج میں ایسے کرداروں کی تحسین ہو گی، انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جائے گا اور انہیں شاندار پروٹوکول سے نوازا جائے گا تو دیکھنے والی آنکھ لازمی طور پر ان جیسا بننے کی کوشش اور خواہش کرے گی۔ لازم ہے کہ اہل دانش سماج کی درست راہنمائی کریں۔ نسل نو کی صحیح کردار سازی اور ذہن سازی کی جائے، انہیں بتایا جائے کہ ان کے اصل ہیروز کون ہیں اور انہیں کس کو فالو کرنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم یہ کیسے ہو گا، ہوگا بھی یا نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ اگر آج یہ نہ کیا گیا تو نئی نسل محض نام کی مسلمان رہ جائے گی۔