جامعات اور ترجمہء قرآن !
قوموں کی اجتماعی دانش سطحیت پر اجماع کر لے تو مسائل کی درست تشخیص اور ان کے حل کا سرا ہاتھ نہیں آتا، کوئی مثال دیکھنا چاہے تو یہ ملک اور اس کے عوام اس کے بہترین عکاس ہیں۔
جامعات میں ترجمہ قرآن کی تدریس کا فیصلہ زیر بحث ہے، یہ فیصلہ بیک وقت کئی پہلوؤں کے اعتبار سے اہم ہے، اس فیصلے کے فریقین میں حکومت و ریاست، مذہب و اہل مذہب اور تعلیم و جامعات اہم ہیں، لازم ہے کہ ان مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اس کا جائزہ لیا جائے اور اس کے مالہ وما علیھا پر غور کیا جائے۔ بادیء النظرمیں یہ فیصلہ بڑا اہم اور خوش آئند ہے، نسل نو کو قرآنی تعلیمات سے آراستہ کرنے سے کسی کور چشم کو ہی اختلاف ہو سکتا ہے مگراس فیصلے کے نتائج اور مضمرات کیا ہیں، کیا اس سے مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہے، کیا محض ترجمہ پڑھانے سے نسل نو کی دینی واخلاقی تربیت ممکن ہے اور کیا انتظامی سطح پر جامعات کے لیے اس فیصلے کا اطلاق ممکن ہے، آنے والی سطور میں ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔
حکومتی سطح پر اس وقت اس فیصلے کا ظہور میری سمجھ میں نہیں آ سکا، بادیء النظر میں کسی مذہبی گروہ یا مذہبی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسا کوئی پریشر حکومت پر نہیں تھا، نہ ہی کسی جلسے جلوس میں اس کا مطالبہ کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں کسی رکن کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا، ماضی قریب میں علماء و مشائخ کا کوئی وفد گورنر سرور یا عثمان بزدار سے نہیں ملا، نہ ہی میڈیا پر ایسے کسی مطالبے کی بازگشت سنائی گئی تو آخر اچانک یہ فیصلہ کیسے صادر ہو گیا۔ بطور ایک عام شہری میرے لیے یہ سوال اہم ہے، سوال کا واضح جواب نہ ہو تو سائل کو ممکنہ جوابات پر غور کرنے کا حق ہے، میرا فہم اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی طرف لے کر جاتا ہے، اقتدار کے محلات میں گرتی ہوئی ساکھ کو عموما مذہب کا سہارا ہی کام دیتا ہے، اس فہم سے اتفاق لازم نہیں مگر یہ فہم ممنوع بھی نہیں۔
یہ فیصلہ حکومت اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی باہمی مشاورت سے ہوا، حکومتی رویہ تو قابل فہم ہے اور اس پر بات ہو چکی مگر وائس چانسلرز کا رویہ میرے لیے ابھی تک معما ہے۔ یونیورسٹی علم و تحقیق کا نام ہے، یونیورسٹی تخلیق کا ری کی آماجگاہ ہے، یہاں سے علم و دانش کا ظہور ہوتا ہے، یہ آزادانہ غور وفکر اور تحقیق و جستجو کا ایک پلیٹ فارم ہے، یہاں نئے نظریات اور نئی تھیوریز جنم لیتی
ہیں۔ پچھلے پانچ سو سالوں میں جتنا بھی علم تخلیق ہوا اس کا راسہ انہی یونیورسٹیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا مطلب ہے علم و دانش میں گندھی ہوئی شخصیت، تجزیہ اور تنقیدی نگاہ کا ماہر، سماجی بنت اور اس کے نشیب و فراز سے آگاہ، تعلیمی عمل کا ماہر نباض اور طالب علم کی ذہنی و نفسیاتی ساخت سے شناساں۔ اگر میرا حسن ظن ٹھیک ہے اور فیصلے کے شرکاء مذکورہ صفات سے متصف ہیں تو مجھے فیصلے کی منطق سمجھ نہیں آئی اور اگر میرا حسن ظن غلط ہے تو پھر مجھے سر پیٹنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
بات ترجمہ قرآن کی تدریس کی نہیں بلکہ درست تشخیص کی ہے، کینسر کے مریض کو آپ ڈسپرین دے دیں تو اس سے وہ صحت یاب نہیں ہو گا۔ کسی بھی مرض سے صحت یابی کے لیے پہلے اس کی درست تشخیص اور معقول علاج لازم ہے، اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو مریض جان سے تو جائے گا ساتھ آپ کے طریقہ علاج سے ایک زمانہ متنفر ہو جائے گا۔ یونیورسٹی سطح پر نئی نسل کا اصل مسئلہ کیا ہے، جب تک اس کی درست تشخیص نہیں ہوگی صرف ترجمہ قرآن سے نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ یونیورسٹی ہی کیوں شروعات تو پرائمری سطح سے ہونی چاہیے، یونیورسٹی تک پہنچتے ہوئے اذہان صحیح یا غلط فہم کو اپنا چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعدپہلے سے موجود کسی فکر میں شکو ک وشہبات اور سوالات تو جنم لیتے ہیں مگر من حیث المجموع کسی نئی فکر کونہیں اپنایا جاتا، استثناء کی بات البتہ الگ ہے۔
اصل مسئلہ من حیث المجموع ہمارا نظام تعلیم ہے، انیسویں صدی کے بعد سے ہم فکری طور پر مغرب کی نقالی کرتے آرہے ہیں، ہم زندگی کے ہر میدان میں مغرب کو اپنے لیے معیار بنا چکے ہیں، ہماری درسگاہوں میں پڑھایا جانے والا علم کلی طور پر مغربی تصورات پر قائم ہے۔ علم کا کوئی بھی شعبہ خواہ نیچرل سائنسز ہوں یا سوشل سائنسز وہ پور ی قوت انکار کے ساتھ ہمارے مذہبی تصورات سے متصادم ہے، ان علوم کو پڑھنے والا ذہن اسلام کی اصل روح کو سمجھ ہی نہیں سکتا، ہمارانظام تعلیم ایمانی شعور کی بجائے مغربی فکر و دانش کے ستونوں پر قائم ہے، جب تک ایمانی شعور کو بحثیت مجموعی اس نظام تعلیم کا مربی نہیں بنایا جاتا محض ترجمہ قرآن سے بات نہیں بنے گی، یہ کینسر کا علاج ڈسپرین سے کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے مرض ٹھیک تو کیا مریض مزیدمتنفر ہو گا۔
جب تک ہمارا ایمانی شعور تمام علوم و فنون کا مبداء و ماخذ نہیں بنتا تب تک یہ پیوند کاری کسی کام کی نہیں، اپنی بات کے ابلا غ کے لیے محترم احمد جاوید صاحب کا سہارا لینا چاہتا ہوں :"شعور کی کئی faculties ہیں، مذہبی شعور، اخلاقی شعور، جمالیاتی شعور، عقلی شعور، ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے ایمانی شعور کو جمالیاتی شعور کا بھی مربی بنائیں، عقلی شعور کا بھی رہبر بنائیں، اخلاقی شعور کا بھی کفیل بنائیں، یہ ہماری ذمہ داری ہے اور اپنے ہر تعلیمی عمل میں اس ذمہ داری کو مقصود کے طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ میرا جمالیاتی شعور بھی اللہ کے حضور سے سیراب ہو اور میرا عقلی شعور بھی اللہ کی حضوری میں رہنے سے مانوس ہو۔"جہاں من حیث المجموع نظام تعلیم فکری کج روی کا شکار ہو وہاں وقت گزرنے کے بعد محض ترجمہ قرآن سے کہاں سے بہار آئے گی۔ لازم ہے کہ مرض کی درست تشخیص کا اہتمام اور اس کے علاج کا معقول طریقہ اختیارکیا جائے۔
انتظامی سطح پر بھی جامعات میں ترجمہ قرآن کی تدریس کا اطلاق مشکل ہے، اس کا اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے جس کا یونیورسٹی سے کسی طرح کا کوئی ربط ہے۔ کس ترجمہ قرآن کا انتخاب کیا جائے، قرآن کے ادب و احترام کا اہتمام کیسے ہو مثلاً وضو اور قرآن رکھنے کی جگہیں وغیرہ۔ ترجمہ قرآن کی کلاس ابتدائی اوقات میں رکھی جائے یا آخر میں۔ ترجمہ پڑھانے والے ماہر اساتذہ جو مدرسہ و یونیورسٹی کے ماحول سے آشنا ہوں کہاں سے دستیاب ہوں۔ انتظامی سطح پر یہ سب مسائل اہم ہیں، اس پر مستزاد طلبہ کی غیر سنجیدگی، مخلوط کلاسز اور مخلوط ماحول۔ میرا مدعا یہ نہیں کہ ترجمہ قرآ ن پڑھایا ہی نہ جائے، ایک صاحب ایمان ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے، میرا مدعا یہ ہے کہ پورے نظام تعلیم کو ایمانی شعور کی بنیاد پر از سر نو مرتب کیا جائے۔ محترم احمد جاوید پھر یاد آ گئے:" آج اخلاق اور ذہن کی تعمیر میں جن علوم کا کردار بلاشک و شبہ صادق ہو چکا ہے اہل علم ان تمام علوم کو ایمان کے تابع کر کے دکھائیں، ان تمام اقدار کو عمل صالح سے مغلوب رکھ کے دکھائیں۔"یہ کرنے کا اصل کام ہے اور یہ ابو جہل کو کلمہ پڑھانے سے بھی زیادہ مشکل اور ناممکن ہے۔
اہل مذہب کا رویہ اس لیے باعث افسوس ہے کہ وہ اسی پر خوشی کے شادیانے بجا رہے رہے ہیں، مسائل کا ادراک اور سماج کا فہم روایت سے ختم ہو چکا، محض سطحیت ہے اور اس پر بھی اصرار۔ کیا اہل جامعہ اور کیا اہل مدرسہ، قوموں کی اجتماعی دانش سطحیت پر اجماع کر لے تو تبدیلی کا سفر دائروں سے آگے نہیں بڑھتا، آج اہل جامعہ اور اہل مدرسہ انہی دائروں کے گر د گھوم رہے ہیں۔ اسی رویے سے اس خواہش نے جنم لیا کہ محض ترجمہ قرآن سے اس قوم میں بہار آئے گی، فیا للعجب۔