جامعۃ الرشید لاہور کیمپس میں فضلاء اجتماع
المنائے ایسوسی ایشن یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہونے والے طلبا کی تنظیم کا نام ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر بڑی یونیورسٹی اپنے پاس آؤٹ طلبا سے رابطے کے لیے المنائے ایسوسی ایشن ڈیسک قائم کرتی ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا کی کئی مشہور یونیورسٹیوں کے تمام اخراجات ان کے المنائے اٹھاتے ہیں اور ان میں ہاورڈ اور آکسفورڈ جیسی نمبر ون یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ المنائے ایسوسی ایشنز کے کردار پر میں کچھ عرصہ قبل تفصیلی کالمز لکھ چکا ہوں۔
آج ہم جامعۃ الرشید کراچی المنائے ایسوسی ایشن کے زیر انتظام جامعۃ الرشید لاہور کیمپس میں منعقد اجتماع کے حوالے سے بات کریں گے۔ موضوع کی طرف آنے سے قبل میں کچھ پس منظر اور پیش منظر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں اس وقت مدارس کے پانچ وفاق موجود ہیں، ان پانچ وفاقوں میں لاکھوں طلبا زیر تعلیم ہیں، ان میں سب سے بڑا وفاق وفاق المدارس کا ہے، وفاق المدارس کے تحت تقریباً انیس ہزار مدارس کام کر رہے ہیں، ان میں اکیس لاکھ پچاسی ہزار چار سو چوالیس طلبا زیر تعلیم ہیں جبکہ ایک لاکھ ستائیس ہزار چون اساتذہ تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
یہ وفاق 1959 میں قائم ہوا تھا اور اب تک اس سے ایک لاکھ پچھتر ہزار چار سو بارہ علما، ایک لاکھ چھتیس ہزار تریسٹھ عالمات اور دس لاکھ چون ہزار پانچ سو اکیاون حفاظ فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی این جی اور یا کسی بھی پرائیویٹ بورڈ کی کارکردگی سے کہیں زیادہ ہے۔ اب بھی ہر سال تقریباً دس ہزار علماء اور اتنی ہی تعداد میں عالمات مدارس سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ فارغ التحصیل طلبا و طالبات کہاں کھپ رہے ہیں اور سوسائٹی میں کیا رول پلے کر رہے ہیں یہ دس بلین ڈالر کا سوال ہے لیکن اس سوال کی طرف ہم بعد میں آئیں گے۔
ہم اس وقت اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، اکیسویں صدی کے آغاز سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ مذہب، سائنس، سیاست، معیشت، تعلیم، ٹیکنالوجی، علمیات، میڈیا، روشن خیالی، آزادی اظہار، اے آئی، سوشل میڈیا اور فرد کی آزادی جیسے نئے تصورات نے انسانی سماج کو نئی بنیادوں پر استوار کر دیا ہے۔
انسانی زندگی کے ان تمام دائروں میں بنیادی اور جوہری تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں اور ارتقا کا یہ سفر آئندہ بھی رکنے والا نہیں۔ اس ساری تبدیلی کی بنیاد علم جدید ہے اور علم جدید کے پیچھے مغربی فکر و فلسفہ کھڑا ہے۔ اس تبدیلی کے مثبت اور منفی پہلو کون سے ہیں اور ایک اسلامی سماج کے لیے یہ تبدیلیاں کہاں تک قابل قبول ہیں، مذہب ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے اور ان نئے تصورات کے بارے میں کیا راہنمائی فراہم کرتا ہے؟ یہ تمام سوالات تا حال تشنہ طلب ہیں اور اس کی ذمہ داری ہمارے مدارس اور علماء پر عائد ہوتی ہے۔
کیا مدارس اور علما اپنی یہ ذمہ داری پوری کر رہے ہیں؟ اس سوال سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب ہم مدارس اور علما کی بات کرتے ہیں تو یہاں دو چیزیں ہیں، ایک ان کی نیت اور دوسرا ان کا عمل، ہم ارباب مدارس کی نیت پر شک کر سکتے ہیں اور نہ مذہب کسی کی نیت کو زیر بحث لانے کی اجازت دیتا ہے، ہم صرف ان کے عمل، کردار اور حکمت عملی پر بات کر سکتے ہیں اور اس کالم میں بھی ہم اہل مدارس کے صرف کردار اور حکمت عملی پر بات کریں گے۔
میں نے چند سطور قبل علم جدید کے پیدا کردہ جن چیلنجز کا ذکر کیا ہے ارباب مدارس کی درست حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے یہ میدان خالی پڑے ہیں اور یہ خلا دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ خلا جن دائروں میں بڑھ رہا ہے ان میں سب سے پہلے مساجد میں امامت و خطابت کا دائرہ ہے، پھر فقہ افتاء کا دائرہ ہے، تیسرا دائرہ وعظ و تبلیغ کا ہے، چوتھا دائرہ شہروں، گاؤں دیہات میں بنیادی دینی تعلیم کا ہے، پانچواں دائرہ میڈیا و ابلاغ کا ہے، چھٹا دائرہ سکول کالج اور یونیورسٹی میں اسلامیات کی تدریس کا ہے، ساتواں دائرہ خود مدارس کی تعلیم اور درس نظامی کی تدریس کا ہے، آٹھواں دائرہ جدید مسائل میں ریسرچ و اجتہاد کا ہے، نوواں دائرہ جدید مغربی فکر و فلسفہ اور لبرل افکار پر نقد و نظر کا ہے، دسواں دائرہ تصنیف و تالیف کا ہے، گیارواں دائرہ جدید بینکنگ، مالی اور اقتصادی مسائل کا ہے اور بارواں دائرہ سیاست اور سوشل ورک کا ہے۔ سماج کے یہ اہم ترین دائرے مذہب کی راہنمائی کے منتظر ہیں لیکن اہل مذہب کا کردار اور حکمت عملی ان سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔
وفاق المدارس سے ہر سال دس ہزار طلبا اور اتنی ہی تعداد میں طالبات فارغ التحصیل ہو رہی ہیں۔ یہ فارغ ہونے والے علماء اور عالمات کہاں کھپ رہے ہیں اور سوسائٹی میں ان کا کیا کردار ہے ایک نظر اس پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق فارغ التحصیل طلبا میں سے بیس فیصد عصری تعلیم میٹرک یا ایف اے کی تیاری میں مشغول ہو جاتے ہیں، دس فیصد درس نظامی کی بنیاد پر کسی یونیورسٹی میں ایم فل اسلامیات میں داخلہ لے لیتے ہیں، اتنے ہی طلبا سرکاری ملازمتوں میں کھپ جاتے ہیں اور تقریباً دس فیصد طلبا مختلف مسائل اور گھریلو مجبوریوں کے باعث محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں۔
باقی پچاس فیصد میں سے دس فیصد ایسے ہوتے ہیں جنہیں کسی مسجد میں جگہ مل جاتی ہے اور وہ امامت و خطابت سنبھال لیتے ہیں۔ بیس فیصد طلبا مختلف مدارس میں درس نظامی کی تدریس میں مشغو ل ہو جاتے ہیں، پانچ فیصد طلبا ایک سال کے لیے تبلیغی جماعت میں نکل جاتے ہیں اور جو باقی دس پندرہ فیصد بچتے ہیں وہ اپنا کو ئی ذاتی کاروبار کرتے ہیں یا وہ فارغ رہ کر زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ صرف چالیس پچاس فیصد طلبا ایسے ہوتے ہیں جو دین کے کسی کام سے جڑتے ہیں اور وہ بھی مذکورہ درجن بھر دائروں میں سے صرف دو تین دائروں کو ٹچ کرتے ہیں اور باقی سب میدان خالی پڑے ہیں۔
ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری اہل مدارس اور علما پر عائد ہو رہی ہے اور دوسری طرف یہ عالم ہے کہ خلا پر تو کیا مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد کہ جو طلبا اس خلا کو پر کرنے کے لیے مذکورہ دائروں میں کام کر رہے ہیں انہیں مناسب راہنمائی فراہم کرنے والا کوئی نہیں۔ جامعۃ الرشید نے المنائے ایسوسی ایشن کے نام سے سابق فضلاء کا سالانہ اجتماع شروع کرکے ایک اچھی روایت کا آغاز کیا ہے۔ اس دفعہ یہ اجتماع کراچی کے بجائے جامعۃ الرشید لاہور کیمپس میں رکھا گیا ہے۔
یہ اجتماع جمعہ کی صبح سے شروع ہوا اور آج (اتوار) عصر کے بعد اختتام پذیر ہوگا۔ اس اجتماع کے مندرجات پر بات اگلے کالم میں کریں گے لیکن فی الوقت اس کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے اجتماعات سے مذکورہ خلا کو سو نہیں تو دس بیس فیصد تو پُر کیا جا سکتا ہے اور ظلمتوں اور معصیتوں کے اس خوفناک جنگل میں اتنی سی روشنی بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔