جامعۃ الرشید اور پروفیشنل ازم
حضرت موسیٰؑ کا گھر شہر سے باہر تھا، ایک دن شہر کی طرف نکلے تو دیکھا ایک اسرائیلی ایک قبطی سے لڑ رہا ہے۔ وہ قبطی فرعون کے دربار کا باورچی تھا اور اسرائیلی کو مطبخ کی لکڑیاں اٹھوانا چاہتا تھا، حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل پر فرعون کے ظلم سے پہلے ہی آگاہ تھے انہوں نے آگے بڑھ کر قبطی کو ایک گھونسا رسید کیا، قبطی اس کی تاب نہ لا سکا اور مر گیا۔ فرعون کو پتا چلا تو غصے سے بپھر گیا کہ موسیٰ کی اتنی جرأت میری قوم کے ایک فرد کو قتل کر دیا۔
سپاہیوں کو حکم دیا موسیٰ کو پکڑ کر لاؤ اسے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ دربار میں سے ایک خیر خواہ بھاگم بھاگ حضرت موسیٰؑ کے پاس پہنچا اور خبر دی کہ یہاں سے نکل لو تمہارے قتل کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ موسیٰؑ وہاں سے نکلے اور مدین کا رخ کیا، مدین کے قریب پہنچے تو دیکھا ایک کنویں کے گرد لوگ جمع ہیں، لوگ ڈول بھر رہے ہیں اور اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں۔ کنویں سے ذرا ہٹ کر دو خوبصورت دوشیزائیں اپنی بکریوں کو روک کر کھڑی تھیں، حضرت موسیٰؑ ان کے پاس گئے اور پوچھا کیا معاملہ ہے؟
انہوں نے بتایا کہ والد بوڑھا ہے وہ آ نہیں سکتا، ہم اپنی باری کی منتظر ہیں کہ لوگ ہٹیں تو ہم اپنی بکریوں کو پانی پلائیں۔ حضرت موسیٰؑ نے آگے بڑھ کر ان کا کام کر دیا۔ لڑکیاں گھر گئیں والد کو قصہ سنایا کہ ایک باحیا نوجوان کی توجہ سے ہم آج جلدی گھر پہنچ گئیں۔ والد متاثر ہوئے تو ایک بیٹی نے کہا ابا جان کیوں نہ ہم اسے ملازم رکھ لیں، قرآن کے الفاظ میں بیٹی کا استدلال یہ تھا، "بہترین ملازم وہ ہوتا ہے جو پروفیشنل اور امانت دارہو۔ "
اس سارے واقعے سے پروفیشنل ازم کو سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ نے قرآن میں پروفیشنل ازم کی تعریف کی ہے۔ کسی بھی ادارے کی کامیابی اور سماج پر اس کے اثرات کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ وہ پروفیشنل ازم کو کس حد تک فالو کر رہا ہے۔ اس کے ملازمین، منتسبین اور وابستگا ن کے رویے میں کس حد تک پروفیشنل ازم موجود ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر عمل میں پروفیشنل ازم کو پسند کرتے ہیں۔
پچھلے کالم میں جامعۃ الرشید کے فضلاء اجتماع کی بات ہو رہی تھی۔ ہم اسی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جامعۃ الرشید کی خوبی یہ ہے کہ اس نے مدارس کی دنیا میں پروفیشنل ازم کو متعارف کرایا ہے۔ اگر ہم صرف فضلاء اجتماع کے انعقاد میں پروفیشنل ازم کی بات کریں تو یہ اجتماع کسی طور پر کسی یونیورسٹی کے المنائی ایسوسی ایشن کی تقریب سے کم نہیں تھا۔ ایک زیر تعمیر عمارت (جامعۃ الرشید لاہور کیمپس ابھی زیر تعمیر ہے) میں ہزاروں افراد کے لیے انتظام و اہتمام یقینا مشکل تھا لیکن جامعۃ الرشید نے اسے بحسن و خوبی پروفیشنل طریقے سے سر انجام دیا۔ کوئی بھی شریک رجسٹریشن کرائے بغیر اور گلے میں رجسٹریشن کارڈ آویزاں کیے بغیر اجتماع میں شریک نہیں ہو سکتا تھا۔
رجسٹریشن کے لیے پہلے سے ہی لنک فراہم کر دیا گیا تھا، جو پہلے رجسٹریشن نہیں کرا سکے ان کے لیے موقع پر اہتمام موجود تھا۔ مختلف ڈیسک قائم تھے اور آنے والوں کی فوراً رجسٹریشن کرکے انہیں کارڈ فراہم کر دیا جاتا تھا۔ اس رجسٹریشن کا فائدہ یہ تھا کہ کوئی غیر متعلق یا مشکوک شخص اجتماع گاہ میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ سکیورٹی کے لیے ریاستی اور نجی اداروں کا تعاون حاصل کیا گیا تھا۔ تربیتی نشستوں کے لیے زیر تعمیر مسجد کے وسیع ہال کو پروفیشنل طریقے سے تیار کیا گیا تھا جس میں ہزاروں کرسیاں ترتیب سے رکھی گئی تھی۔ کھانے کا نظم الگ، سونے اور باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے الگ جگہ۔
مہمانان خصوصی کے لیے خوبصورت عارضی قیام گاہ۔ سٹیج کی تیاری، ڈائس کا انتخاب، پروجیکٹر اور ہزاروں شرکاء تک بات پہنچانے کے لیے بڑی سکرینوں کا اہتمام۔ گفتگو کے لیے آنے والے مہمانوں کا بہترین انتخاب، ڈی جی آئی ایس پی آر سے لے کر گورنر سندھ اور وفاقی وزیر احسن اقبال سمیت مختلف شعبوں کے ماہرین کی نپی تلی اور ماہرانہ گفتگو۔ یہ پروفیشنل ازم کی وہ جھلک ہے جو عام طور پر مدارس کی دنیا اور مذہبی تقریبات میں دکھائی نہیں دیتی۔
اس تقریب سے ہٹ کر اگر جامعۃ الرشید کے تعلیمی سلسلوں اور انتظامی معاملات کو دیکھا جائے تو ان میں بھی ہمیں پروفیشنل ازم کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ درس نظامی کے عنوان سے ہمارے ہاں مختلف بورڈز موجود ہیں، ان میں وفاق المدارس سرفہرست ہے۔ وفاق المدارس کے نصاب و نظام پر اتنا لکھا گیا کہ اس سے ایک وسیع لائبریری وجود میں آ سکتی ہے۔ مگر اتنا لکھے جانے کے باوجود فاق المدارس کے نصاب و نظام میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی اور پروفیشنل ازم نہیں آیا۔ میں وفاق المدارس کو تعلیمی بورڈ کم اور خانقاہی نظم زیادہ سمجھتا ہوں۔ اگرچہ اس کی اپنی افادیت ہے لیکن اگر اس خانقاہی نظم کو بھی پروفیشنل طریقے سے چلایا جائے تو اس کے اثرات دو چند ہو سکتے ہیں۔
تعلیمی بورڈ کے کچھ اپنے مطالبات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں، اس کے نصاب و نظام میں گاہے بگاہے تبدیلی اور بہتری کے امکانات پر غور کیا جاتا ہے۔ اس بورڈ سے وابستہ ہزاروں طلبا کے مسائل اور ان کے مستقبل کو سامنے رکھ کر پلاننگ کی جاتی ہے مگر مدارس کی دنیا اور مختلف وفاقوں میں اس پروفیشنل از م کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جامعۃ الرشیدکے نصاب و نظام میں پروفیشنل ازم کی جھلک موجود ہے۔
درس نظامی کے نصاب پر غور و خوض کرکے مناسب ترامیم کی گئی ہیں۔ دینی و عصری تعلیم کو ایک خاص تناسب کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔ طلبا کے مستقبل کو سامنے رکھ کر پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ سکیم آف سٹڈی، آؤٹ لائن، امتحانات، طلبا کی تعلیمی جانچ کے مختلف طریقے، ساتذہ کی ٹریننگ اور دیگر پروفیشنل طریقوں کو نصاب و نظام کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مختلف تخصصات کے عنوان سے سپیشلائزیشن کی روایت کو فروغ دیا گیا ہے۔
سماج کے جن دائروں میں دینی راہنمائی کی ضرورت تھی ان کی نشاندہی کرکے اس کے مطابق افراد سازی پر کام کیا گیا ہے۔ مثلاً صحافت کا دائرہ، حلال انڈسٹری کی ضروریات، آئمہ مساجد کی تربیت، بینکنگ سسٹم میں شرعی و دینی راہنمائی، افواج پاکستان میں بطور آئمہ شمولیت اور افواج کی دینی راہنمائی، اسٹیبلشمنٹ میں صالح افراد کی بھرتی، بیوروکریسی میں محب دین و وطن افراد کی تیاری، کالجز اور جامعات میں مخلص اور دین پسند اساتذہ کی فراہمی، جدید تعلیم یافتہ افراد کے لیے دینی تعلیم کا نظم، رفاہی کاموں کے لیے ماہر اور ایمان دار افراد کی تیاری۔
سماج کے یہ وہ دائرے ہیں جہاں سماج کو دینی راہنمائی کی ضرورت ہے مگر ہمارے عام مدارس اور مختلف وفاق ان سماجی ضروریات کو نظر انداز کرکے ایک لگے بندھے سسٹم کو فالو کر رہے ہیں۔ جامعۃ الرشید نے سماج کے ان مختلف دائروں کو ضروریات مد نظر رکھ کر پروفیشنل ازم کو اپناتے ہوئے افراد سازی کا کام شروع کیا ہے۔ آج سماج اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق پروان چڑھ رہا ہے، دینی ادارے، جماعتیں اور افراد اگر ان جدید سماجی تقاضوں کو سمجھ کر پروفیشنل انداز میں دین کو پیش نہیں کریں گے تو خاکم بدہن یہ دین اپنے عہد اور زمانہ سے لاتعلق ہو جائے گا۔ اگلے کالم میں اس موضوع کو مزید آگے بڑھائیں گے۔