جدیدیت اور مطلوب رویے !
جدیدیت کیا ہے، سماج کے انفراد ی واجتماعی شعور کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کرنا۔ حکمت پر مشتمل نئے افکار اور تہذیبی اقدار کو بطور سماج اپنا لینا، اس کے ساتھ جدید سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی سے استفادہ بھی اس میں شامل ہے۔ انفرادی اجتماعی شعور کی عصر حاضر سے ہم آہنگی میں اعتدال، جدیدیت کا حسن ہے۔ نئے افکار اور سائنسی ایجادات سے، وقت سے قبل اور ضرورت سے زیادہ تاثر تجدد کی راہ ہموار کرتا ہے، اس سے فکری کج روی جنم لیتی ہے اور سماج انتشار کا شکار ہوتا ہے، تفہیم دین کے باب میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ا ور دین کی متجددانہ تعبیر یہیں سے جنم لیتی ہے۔
جدیدیت سے مرعوب اذہان جب اعتدال قائم نہیں رکھ پاتے تو ان کاعلمی و فکری کام بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، بطور فکر سماج میں ان کے علمی و فکری کام کو پذیرائی نہیں ملتی۔ گو لمحہ موجود میں انہیں چند واہ واہ کرنے والے ضرور میسر آ جاتے ہیں مگر بطور فکر، وہ فکر صاحب فکر سے زیادہ زیست نہیں پاتی۔ ماضی قریب میں اس کی مثال سر سید احمد خان ہیں، ان کے بعد شاید ہی کسی نے ان کی فکر کی نمائندگی کی ہو۔ اس کے بر عکس ان کے ہم عصروں کی افکار بطور روایت آج بھی زندہ وتابندہ ہیں۔ نام لینے کی شاید ضرورت نہیں۔ مرحوم وحید الدین خان کے ساتھ بھی یہی ہوا، ان کا علمی کام اس قابل ہے کہ اس کی پذیرائی کی جائے مگر اس اعتراف کے ساتھ کہ بعض جگہوں پر وہ جدیدیت سے متاثر نظر آئے، انہوں نے روایت کے بجائے جدیدیت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا اور اس طرح ان کی فکر، ان کے جانے کے بعد پنپتی نظر نہیں آتی۔ پچاس سالہ علمی سفر اور دو سو سے زائد کتب کے باوجود، وہ فکری طور پر لاولد ثابت ہوئے۔
محترم جاوید احمد غامدی اس کی زندہ مثال ہیں، ان کی تعبیر دین کی ساری عمارت جدیدیت سے تاثر کی بنیادپر قائم ہے، ضرورت سے زیادہ تاثر نے ان کی فکر کو کئی بار کٹہرے میں لا کھڑا کیا، جس کی انہیں اور ان کے متعلقین کو بار بار وضاحتیں دینا پڑیں۔ آج انہیں واہ واہ کرنے والے سوشل میڈیا کے چند "مجاہدین " میسر ہیں، یا ان جیسے جدیدیت سے متاثر چند اہل مدرسہ، مگر بطور فکر، ان کی فکر ان کی ذات سے متصف ہے، اللہ انہیں عمر خضر عطا کرے مگر ان کی فکر ان کے بعد آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔
جدیدیت کے بر عکس روایت کیا ہے، سماج کا وہ اجتماعی شعور جو انہوں نے اپنے پرکھوں سے حاصل کیا، اس کے مختلف دائرے ہیں، مثلاً مذہبی روایت، سیاسی روایت، علمی روایت وغیرہ۔ ان میں سے کسی بھی دائرے میں، جدیدیت جب روایت کے سائے میں پروان چڑھے گی تو معتدل نتائج فکر سامنے آئیں گے، سماج کو اس سے توحش نہیں ہو گا۔ سر دست ہم روایت کے مذہبی دائرے پر بات کر لیتے ہیں، مذہب کا معاملہ یہ ہے کہ خود شارع نے بتادیا یہ جتنا اصل کے قریب ہوگا اپنی ذا ت میں خالص اور محمود ہو گا، روایت مذہب کی اسی خالص شکل کا نام ہے۔ مذہب کی تعبیر جب روایت کے اصولوں کی بجائے جدیدیت سے تاثر کی بنیاد پر کی جائے گی تو بدیہی طور پرفکری کج روی سامنے آئے گی، اس لیے لازم ہے کہ تعبیر دین کے لیے مطلوب رویوں کو اپنایا جائے۔ وہ رویے جو روایت سے جڑے ہونے کے ساتھ سماج کے اجتماعی شعور کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کریں۔
جدیدیت ایسا مظہر ہے کہ لوگ اس سے تاثر لینے میں زود اثر واقع ہوئے ہیں، اس کے اسباب متعدد ہیں، روایت پر عدم اعتماد، مطالعہ و مشاہدہ کی کمی، تنقیدی نقطہ نظر کا نہ ہونا اور انفعال مزاجی۔ تعبیر دین کے منصب سے وابستہ صاحبان زود اثری کے سبب جان ہی نہیں پاتے کہ جدیدیت کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہونا چاہئے۔ روایت اصل جبکہ جدیدیت عارضی مظہر ہے، ہمیں روایت کو بنیاد بنا کر جدیدیت سے اچھی چیزوں کولے کر اسے سماجی کے اجتماعی شعور کا حصہ بنانا ہے۔ جبکہ یہاں صورتحال معکوس ہے۔ روایت کو جدیدیت کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے، جدیدیت کو بنیاد بنا کر روایت کو اس ترازو میں تولنے کی سعی کی جاتی ہے اور جب روایت اس معیار پر پورا نہیں اترتی تو اسے نامکمل اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔
آج کرنے کا کام یہ ہے کہ جدیدیت کے مثبت پہلوؤں سے استفادہ کر کے اسے سماج کے اجتماعی شعور اور روایت کا حصہ بنایا جائے ورنہ روایت پر کیچڑ اچھالنے کا کام تو ماشاء اللہ ہر جگہ ہو رہا ہے۔ تفہیم دین کے باب میں ہمیں ایسے ہی رویے مطلوب ہیں، ایسے ہی رجل رشید سامنے آئیں گے تو روایت آگے بڑھے گی۔ یہ بات بعض کرم فرماؤں کو سمجھ نہیں آتی، وہ سمجھتے ہیں روایت میں کیڑے نکالنا ہی اصل کام ہے جو انہیں خاص طورپر تفویض ہوا، روایت پر اعتراض کا مطلب ہے کہ ہمارے پرکھوں نے کسی تعبیر کو ٹھیک نہیں سمجھااور ہم اس کی صحیح منشا تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، یہ سراسر نفسیاتی عارضہ ہے مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں۔
کوئی سال دو سال قبل ایک علمی ڈسکورس میں خلافت کا مسئلہ زیر بحث تھا، شاید مولانا ابوالاکلام آزاد کی کتاب مسئلہ خلافت کے حوالے سے گفتگو چل رہی تھی، شرکاء میں اکثریت مذہبی لوگوں اور مدرسہ کے فاضلین کی تھی، آن لائن ڈسکشن میں تین ملکوں کے طلباء شریک تھے، ہمسایہ ملک سے ایک فاضل نے خلافت کے حوالے سے، لبرلز کے جتنے اعتراضات تھے انہیں ڈسکشن میں ا نڈیل دیا، اکثر شرکاء نے بیک جنبش ہاں میں ہاں ملا دی۔ بعض نے مزید اعتراضات بھی پیش کیے کہ خلافت ایک یو ٹوپیائی تصور ہے، قومی ریاستوں کے دور میں خلافت کی بات ضرورت سے زیادہ سادگی ہے وغیرہ۔
ڈسکشن کے آخر میں، میں نے اپنا نکتہ نظر پیش کیا کہ ہم اس ڈسکورس میں اس لیے جمع نہیں ہوئے کہ لبرلز اور دیگر معترضین نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں انہیں یہاں انڈیل دیں، ہم دنیا جہاں سے خلافت کے خلاف مواد کو یہاں شیئر کر یں اور اس پر واہ واہ کریں بلکہ اس علمی ڈسکورس اور مذہب کا طالب علم ہونے کی بنا پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان اعتراضات کے جوابات ڈھونڈیں، خلافت ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے ہم اس حقیقت کو جھٹلانے کی بجائے اس کے قیام پر غور کریں اور اگر آج اس کا قیام ممکن نہیں تو اس کے متبادل پر غور کریں، عالم اسلام کے اتحاد کے لیے نئے امکانات پر بات کریں وغیرہ۔ ڈسکشن کو لیڈ کرنے والے مسلمان امریکی پروفیسر نے میری بات کی تائید کی ہمیں اسی رویے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف مسئلہ خلافت کی بات تھی، تفہیم دین اور تعبیر دین کے باب میں، من حیث المجموع ہمیں انہی رویوں کی ضرورت ہے۔