اسلام کا تصور خدا
ہم نے پچھلے کالم میں سامی و غیر سامی مذاہب میں خدا کے تصور کا جائزہ لیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ ان مذاہب میں سورج، چاند، آگ، بت، گائے، سانپ، حضرت مسیحؑ اور حضرت عزیرؑ جیسی شخصیات کو خدا مانا جاتا ہے اور ان تمام خداؤں میں کوئی بھی خدا ایسا نہیں جو انسانی عقل کو مطمئن کرتا ہو۔ انسانی عقل خدا کے لیے کچھ لازمی صفات کا تقاضا کرتی ہے، مثلاً انسانی عقل کا مطالبہ ہے کہ خدا کوئی ایسی ہستی ہو جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ کے لیے رہے، ہم اسے ازل تا ابد تعبیر کر تے ہیں۔
انسانی عقل تقاضا کرتی ہے کہ خدا کوئی ایسی ہستی ہو جو عالم الغیب ہو۔ جو مادہ اور مادی صفات سے ماورا ہو۔ جو ہر شے پر قادر اور بے نیاز ہو۔ انسانی عقل خدا کے بارے میں جتنی صفات سوچ سکتی ہے صرف اسلام کا تصور خدا ایسا ہے جو ان صفات پر پورا اترتا اور انسانی عقل کو مطمئن کرتا ہے۔ مثلاً قرآن ہمیں جو تصور خدا دیتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمہاری آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں چھپے رازوں سے بھی واقف ہے۔ وہ ایسا خدا ہے جس کی کوئی مثل موجود نہیں۔ وہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب ہے تو کیا تم نے اس کا کوئی ہم نام سنا ہے۔
آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتی اور وہ ہر آنکھ کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ وہ خود کسی کی اولاد ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ وہ اول اور آخر ہے۔ اس کی کوئی شروعات ہیں نہ اختتام۔ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے اسی کا پیدا کردہ ہے۔ وہ ہر ذی روح کو موت دے گا اور قیامت کے دن زندہ کرے گا۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ساری دنیا اس کی محتاج ہے۔ وہ مادہ اور جسم سے پاک ہے۔ اسے کھانے پینے اور سونے جاگنے کی حاجت نہیں۔ ہر چیز اس کے احاطہ قدرت میں ہے اور وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔
وہی زندگی دیتا ہے وہی موت دیتا ہے۔ وہی بیماری دیتا ہے اور وہی شفا دیتا ہے۔ وہی عزتوں سے نوازتا ہے وہی ذلت دیتا ہے۔ وہی رزق دیتا ہے وہی ہے جو رزق روک لیتا ہے۔ وہی ہے جو نفع اور نقصان کا مالک ہے۔ وہ سب کا مالک و نگہبان اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ عبادت کے لائق صرف اسی کی ذات ہے۔ وہ جو کرنا چاہے کوئی اسے اس کے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ وہ تھکتا ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ تمام عالم کا پالنہار ہے۔ اس کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ہے۔ ماؤں کے پیٹ میں جیسی صورت چاہے تخلیق کر سکتا ہے۔
انسانی غلطیوں سے درگزر کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہ جس کو چاہے بلند کر دے اورجس کو چاہے پست کردے۔ جس کو چاہے ہدایت دے جس کو چاہے راہ راست سے بھٹکا دے۔ وہ صاحب عدل و انصاف ہے۔ وہ ظلم و ناانصافی سے پاک ہے۔ کائنات کی ہر شے پر محیط ہے اور کوئی اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ مظلوم کی فریاد سنتا ہے اور بہتر بدلہ لینے والا ہے۔ کائنات میں اس کی مشیت اور ارادے کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ وہ حقیقی بادشاہ، مقدس اور پاک ہے۔ امن و سلامتی والا ہے۔ سب پر غالب ہے اور ساری مخلوق اس کے زیر تصرف ہے۔
وہ انسانی علم و عقل کے احاطے میں نہیں آ سکتا کیوں کہ عقل، انسانی علم اور مشاہدات سے حاصل شدہ نتائج کا نام ہے اور انسانی ذرائع علم محدود ہیں جو لامحدود کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ ساتوں آسمانوں ا ور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ زمین وآسمان کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ وہ موت و حیات کا مالک ہے۔ وہ انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے وسوسہ کو بھی جانتا ہے اور وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ جب تین انسان سرگوشی کرتے ہیں تو وہ چوتھا موجود ہوتا ہے۔ پانچ انسانوں کی سرگوشی میں وہ چھٹا ہوتا ہے۔
یہ ہے وہ تصور خدا جو اسلام پیش کرتا ہے اورخدا کا یہ تصور انسانی عقل اور فطرت دونوں کو مطمئن کرتا ہے۔ اسلام کے علاوہ جتنے بھی مذاہب اس وقت موجود ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں کسی کے تصور خدا میں یہ صفات نہیں پائی جاتی۔ ان مذاہب کے تصور خدا میں خدا بذات خود محتاج، فانی، مسخر اور عاجز ہے۔ وہ کسی اور کو نفع نقصان تو کیا خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اور اپنی ذات کو نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ صرف اسلام کا تصور خدا ایسا ہے جو انسان کے عقلی و فطری معیارات پر پورا اترتا اور انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اگر اسلام کے علاوہ باقی مذاہب کے تصور خدا کو مان بھی لیا جائے، کوئی سورج، چاند، آگ، بت، سانپ اور گائے کو خدا مان بھی لے تو یہ خدا اس کی زندگی پر اثرا نداز نہیں ہوتا۔ لیکن اسلام کے تصور خدا پر ایمان لانے سے انسانی زندگی میں جوہری تبدیلی آتی ہے۔ مثلاً یہ خدا انسانی وجود کو ہر اس عمل سے روک دیتا ہے جو بذات خود مرتکب یا انسانیت کے لیے نقصان دہ ہو۔
اسلام کا تصور خداجن افعال کو گناہ قرار دے کر منع کرتا ہے وہ انسان کے لیے ذہنی وجسمانی طور پر نقصان دہ ہیں۔ مثلاً اسلام کا تصور خدا شراب اور زنا کو حرام قرار دیتا ہے کہ یہ انسان کے لیے ذہنی وجسمانی طور پر نقصان دہ ہیں۔ وہ غیبت، حسد، بغض، کینہ اور نفرت جیسے اعمال سے منع کرتا ہے کیوں کہ یہ انسان کو ذہنی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اسلام کا تصور خدا انسانوں کو در در ٹھوکریں کھانے کے بجائے ایک در پر فریاد کرنے کا تصور دیتا ہے۔ اسی کی تعظیم کرنے، اسی پر توکل کرنے، اسی سے ڈرنے اور اسی سے محبت کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
آج انسانی سماج میں جتنی برائیاں اورخرابیاں ہیں، جتنی خرافات، بدعتیں، مظالم اور ناانصافیاں ہیں سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کا تصور خدا درست نہیں۔ انسانوں کے ایک طبقے نے سرے سے ہی خدا کا انکار کر دیا ہے اور دوسرے طبقے نے خدا کے بارے میں غلط تصور ات قائم کر لیے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھی خدا کے بارے میں یہ تصور قائم کررکھا ہے کہ خدا کوئی ایسی ہستی ہے جو عرش پر متمکن ہے اور وہاں سے ساری دنیا کے نظام کو دیکھ او رچلا رہی ہے۔ جبکہ زمان و مکان کی تھیوری ہمیں بتاتی ہے کہ جو مخلوقات اس کائنات کے اندر رہتی ہیں ان پر تو زمان و مکان کا قانون اپلائی ہوتا ہے لیکن جو قوتیں اس کائنات سے ماورا ہیں ان پرزمان ومکان کا قانون اپلائی نہیں ہوتا۔
مثلاً بحیثیت انسان میرا وجود بیک وقت دو مختلف مکانوں میں نہیں ہو سکتا جبکہ حضرت عزرائیلؑ بیک وقت ہزاروں لاکھوں لوگوں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں کیوں؟ کیونکہ ان کا تعلق اس کائنات سے ماورا ہے اورکائنات کا قانون زمان و مکان ان پر لاگو نہیں ہوتا۔ اسی طرح خدا بھی ایسی ذات ہے جو اس کائنات اور اس کے اصولوں سے ماورا ہے، وہ بیک وقت ہر جگہ اور ہر لمحہ موجود ہے۔ "وھو معکم اینما کنتم" اور "نحن اقرب الیہ من حبل الورید" کا یہی مطلب ہے۔ ہم سمجھتے ہیں خداصرف آسمان پر جلوہ افروز ہے ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ہر جگہ اور ہر لمحہ، جلوت و خلوت میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے حاظر و ناظر اور علام الغیوب کہا گیا ہے۔ ہم بند کمروں اور رات کی تاریکی میں جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔
ہم نے شروع میں خدا کی جو صفات بیان کی ہیں آپ زمان و مکان کی تھیوری کو ذہن میں رکھ کر ان پرغور کریں آپ کو خدا کے درست تصور کی تفہیم ہو جائے گی اور آپ کو یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ صرف اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جو حقیقت میں خدا کہلانے کا اہل ہے۔ آپ اس خدا کو ہر لمحہ اپنے ساتھ پائیں گے اور آپ کو قرآن میں بیان کردہ خدا کی صفات حقیقت میں سمجھ آنا شروع ہو جائیں گی اور آپ پکار اٹھیں گے "لیس کمثلہ شی"۔ آپ چیخ اٹھیں گے کہ یہی وہ ہستی ہے جو حقیقت میں خدا کہلانے کی مستحق اور ان اللہ علی کل شی قدیر ہے۔