ہولی اور الحاد
13 جون 2023 کو قائد اعظم یونیورسٹی میں ہولی منائی گئی، 20 جون 2023 کو ایچ ای سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرڈاکٹر شائستہ سہیل نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے پابندی کا لیٹر جاری کیا اورصرف دو دن بعد 22 جون 2023 کو ڈاکٹر شائستہ سہیل پابندی کا یہ نوٹس واپس لینے پر مجبور ہوگئیں۔ یہ دو دن ملک کے چوبیس کروڑ اسلام پسند عوام کے لیے باعث شرمندگی، ان کی دینی حمیت کے لیے چیلنج اور مستقبل میں ان کی بے بسی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ ان دو دنوں نے چوبیس کروڑ عوام کو ان کی حقیقت بتاد ی ہے اور انہیں جتلا دیاہے کہ یہاں چند مغربی فنڈڈ این جی اوز، چند میڈیا ہاؤسز اور چند ہزار مذہب بیزار افرادکے سامنے تمہاری کوئی اوقات نہیں۔
13 جون 2023 کو قائداعظم یونیورسٹی میں ہولی کا تہوار منایا گیا، ہولی ہندوؤں کا تہوار ہے اور یہ ہر سال مارچ کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ اس دفعہ یہ جون میں کیوں منایا گیا اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ اس تہوار میں ایسا کیا ہوا کہ ایچ ای سی کو اس پر پابندی لگانا پڑی یہ پڑھنے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ گوگل، فیس بک یا یوٹیوب پر جائیں اور اس دن کی ہولی کی تقریبات دیکھ لیں، سیکڑوں مسلمان طلبا و طالبات کھلے میدان میں جمع ہیں، بلند آواز سے میوزک چل رہا ہے، شور شرابا ہے، مخلوط ڈانس ہے، ہوہو ہاہا کا شورہے اور ایک دوسرے پر رنگ پھینکے جا رہے ہیں۔
یہ طلبا و طالبات کون ہیں؟ یہ مسلمان ہیں، مسلمان گھرانوں میں پلے بڑھے ہیں، والدین نے تعلیم و تہذیب کے لیے یونیورسٹی بھیجا ہے لیکن یہ یونیورسٹی میں بے ہنگم میوزک، مخلوط ڈانس اور ہولی جیسے تہواروں کو منانا سیکھ رہے ہیں۔ یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، معاملہ ایچ ای سی کے نوٹس میں آیا اور ایچ ای سی نے یونیورسٹی کا نام لیے بغیر پابندی کا لیٹر جاری کر دیا۔
لیٹر انتہائی معقول اور مدلل تھا، پاکستانی ثقافت، اقدار، روایات اور اسلامی نظریہ حیات کا حوالہ دے کر کہا گیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ایسی تقریبات سے پاکستان کے قومی تشخص پر حرف آتا ہے۔ جیسے ہی لیٹر جاری ہوا مغربی فنڈڈ میڈیا، این جی اوز اور مذہب بے زار چیخ اٹھے، شاہ زیب خانزادہ اور دیگر اینکرز نے پروگرامز میں چیخنا چلانا شروع کر دیا، بات قومی اسمبلی تک پہنچ گئی، اقلیتی ارکان نے خلط مبحث پیدا کرکے ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی اور وزیر ہائیر ایجوکیشن رانا تنویر حسین نے پابندی کا یہ نوٹس نہ صرف واپس لینے کا اعلان کیا بلکہ ایچ ای سی کے متعلقہ ذمہ دارن کو آئندہ ایسے اقدامات سے باز رہنے کا حکم بھی دیدیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صرف ہندو طلبہ کو یونیورسٹی کے کسی مخصوص مقام پر ہولی منانے کی اجازت دے دی جاتی لیکن پورے نوٹس کو کالعدم قرار دے کر نہ صرف 13 جون کے حیا باختہ ایونٹ کو جائز قرار دیا گیا بلکہ آئندہ کے لیے بھی اس کو جواز فراہم کر دیا گیا۔ ایک ایسی تقریب جو انتہائی غیر مناسب تھی، جو پاکستان کی شناخت، تہذیب، اقدار و روایات پر خوفناک حملہ تھی، جس پر پابندی لگانا ملکی آئین و قانون کا تقاضا اور چوبیس کروڑ عوام کا مطالبہ تھااسے صرف دو دن کے اندر اڑا کر رکھ دیا گیا۔ این جی اوز، میڈیا ہاؤس اور چند ہزار مذہب بے زارجیت گئے، پاکستان کا آئین، مذہب اور چوبیس کروڑ عوام ہا ر گئے۔ اور یہ ہار صرف وقتی ہار نہیں تھی بلکہ یہ مستقبل کے لیے ایک پیغام ہے اور یہ ہماری آئندہ نسلوں کے ایمان کا معاملہ ہے۔ یہ ہارآئندہ کیا کیا چیلنجز اور مسائل پیدا کرے گی اس کی کچھ تفصیلات میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتاہوں۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز میں الحاد کیوں پھیل رہا ہے، اگر نہیں کیا تو میں آپ کو بتانا چاہتاہوں کہ اس کا جواب آپ کی اس ہار میں پوشیدہ ہے۔ الحاد کبھی براہ راست حملہ آور نہیں ہوتا، یہ ابتدا میں انسان کوہر گز کنوینس نہیں کر پاتا کہ وہ خدا کا انکار کر دے بلکہ یہ چپکے چپکے اپنی جگہ بناتا ہے۔
طلبا جب یونیورسٹی میں جاتے ہیں تو الحاد سب سے پہلے ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے، یہ انہیں آزاد خیالی اور روشن ضمیری کا سبق پڑھاتا ہے، یہ انہیں سائنسی فتوحات سنا کر رام کرتا ہے، یہ انہیں بتاتا ہے کہ مذہب ایک ڈھکوسلا ہے اوراخلاقی اقدار کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ انہیں کچھ اخلاقی سوالوں میں الجھاتا ہے، اللہ غفور ہے تو ہمیں عذاب میں کیوں مبتلا کرے گا۔ کا فر اگر نیک عمل کریں تو انہیں اس کا بدلہ کیوں نہیں ملے گا اس کے لیے کلمہ پڑھنا کیوں ضروری ہے۔ حدود کا ظالمانہ نظام کیوں ہے۔
اللہ انسانوں پر جنگیں کیوں مسلط کرتا ہے، سیلاب اور زلزلے کیوں آتے ہیں اور اگر مذہب کو ماننا ہی ہے تو اسلام ہی کیوں۔ ایک طرف الحاد سٹوڈنٹس کے ذہنوں پران سوالات کے کچوکے لگاتا رہتا ہے دوسری طرف کچھ عمر ایسی ہوتی ہے اور رہی سہی کسر مخلوط ماحول پوری کر دیتا ہے۔ یہ عوامل خواہشات کی پیروی کو ہوا دیتے ہیں، موقع بھی ہوتا ہے، دستور بھی اور خواہش بھی لہٰذا مذہب اپنی اہمیت کھو دیتا ہے اور الحاد کا بیج ذہنوں میں جڑ پکڑنا شروع کر دیتا ہے۔
الحاد یہ طریقہ واردات کیوں اختیار کرتا ہے اس کی وجہ بہت سادہ ہے، ڈائریکٹ خدا کا انکار انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا کیونکہ اللہ نے ہر انسان کے اندر ہدایت کا مادہ رکھا ہے جسے وہ تھوڑی سی غور وفکر کی بنیاد پر پہچان سکتا ہے اس لیے الحاد یہ طریقہ واردات اختیار کرتا ہے۔ اس طویل تمہید سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ تعلیم گاہوں میں ہولی، دیوالی، آزاد ماحول، مخلوط ڈانس، بے ہنگم میوزک اور مغربی تہوار یہ الحاد کا پیش خیمہ ہوتے ہیں، یہ الحاد کے بیج ہوتے ہیں اور یہ الحاد کی پنیری کا کام کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نے قومی اسمبلی میں اسے قانونی جواز فراہم کرکے آئندہ نسلوں کے ایمان کا سودا کر لیا ہے۔
کاش وکلا کا کوئی ایسا فور م ہو جس کے پلیٹ فارم سے ہمارے مذہب، تہذیب، اقدار اور روایات پر ہونے والے ان حملوں کوعدالت میں چیلنج کیا جائے اور اس جنگ کوعدالت کے ایوانوں میں لڑا جائے۔ میری وکالت پیشہ افراد سے درخواست ہے کہ آپ آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔ آپ یقین کریں یہ کام ساری رات نوافل پڑھنے سے زیادہ افضل ہے، یہ آئندہ نسل کے ایمان کے تحفظ کا معاملہ ہے اور کسی ایک مسلمان کا ایمان بچانا ہزاروں سال کی عبادت سے افضل ہے۔