غیر مسلموں سے سماجی تعلقات
موجودہ عہد تکثیری سماج کا عہد ہے، آج دنیا کے ہر ملک میں ایک سے زائد مذاہب کے ماننے والے اور پیرو کار موجود ہیں۔ دنیا کے کئی خطے اور ممالک ایسے ہیں جہاں مقامی مذاہب کی آبادی تیزی سے کم اور غیر ملکی مذاہب کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اکثر یورپی ممالک میں مسلم آبادی کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے بھی موجود ہیں جہاں مسلمانوں کی تعدادپچیس تیس کروڑ سے زائد ہے جو کل آبادی کا چوتھائی حصہ بنتی ہے۔ ایسے تکثیری سماج میں رہائش پذیر مسلمانوں کے لیے یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ ان کا ہم وطنوں اور غیر مسلموں کے ساتھ رویہ اور تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔
اس کے ساتھ دنیا عملاً ایک گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، اس گاؤں میں مسلم اور غیرمسلم کا اختلاط ماضی کی نسبت بہت بڑھ چکا ہے۔ رسم و رواج، شادی بیاہ کی رسمیں اور رہن سہن کے طریقوں میں تعامل کی صورتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ تعلیمی داروں میں اکٹھے تعلیم حاصل کرنے والے مسلم وغیر مسلم طلباء اور اکٹھے جاب کرنے والے مسلم و غیر مسلم کے درمیان کھانے پینے کے معاملات اور حلال و حرام کی تمیز جیسے سنجیدہ مسائل بھی متقاضی ہیں کہ تکثیری سماج کو در پیش ان مسائل پرغورو فکر کیا جائے۔
اکیسویں صدی کی ایک اہم پیش رفت قومی ریاستوں کا وجود ہے، دنیا آج عملاً قومی ریاستوں میں منقسم ہے اور ان منقسم ریاستوں کو بین الاقوامی معاہدوں نے منظم کر رکھا ہے۔ ان معاہدوں کی موجودگی میں ریاستوں کا اپنا وجود بھی قائم ہے اور وہ عملاً ایک عالمی ریاست کی شکل بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایک مسلم ریاست کا غیر مسلم ریاست کے ساتھ تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہئے دونوں ریاستوں کے باشندگان کا باہمی تعامل کیسا ہو یہ سوالات بھی قابل تحقیق ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ اسلامی نکتہ نظر سے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں پہلا درجہ قلبی تعلق، دوسرا مواسات، تیسرا مدارت اور چوتھا درجہ معاملات ہیں۔ اسلام عالمگیر دین ہونے کے ناتے دنیا کے کسی غیر مسلم سے معاشی یا معاشرتی تعلقات قائم کرنے سے منع نہیں کرتا بلکہ اسلام نے ان کے ساتھ تعلقات، تجارت، صناعت اور مذہبی رسومات میں شرکت کے حوالے سے کچھ اصول اور حدود مقرر کی ہیں۔
ان حدود کا تعین بھی اس لیے ضروری ہے کہ غیر مسلموں کے ہاں خوراک کے حلال و حرام ہونے کا خیال نہیں کیا جاتا، ان کے مشروبات میں بھی سر عام ممنوع اور حرام اشیاء کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ان کی عبادت گاہیں بتوں سے خالی نہیں ہوتی اور غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ اور نذر نیاز تو معمول کی بات ہے۔ ظاہر ہے اہل ایمان ان محرمات کا ارتکاب نہیں کر سکتے، اسی لیے اسلام نے ان حدود کا تعین کیا ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ باہمی تعامل کے حوالے سے ماضی بعید اور قریب میں بہت سارے اہل علم نے لکھا ہے، ہر زمانے کے اہل علم نے اپنے دور اور حالات کے مطابق غیر مسلموں کے ساتھ تعامل کی صورتیں بیان کی ہیں۔ فقہی ذخیرے میں اس حوالے سے بہت سارا لٹریچر موجود ہے، ابن تیمیہ نے"اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم" کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی، ابن قیم الجوزی کی کتاب "احکام اھل الذمہ" کے نام سے متداول ہے۔ ماضی قریب میں مشہور عالم دین ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے "الفتاوی ٰیوسف القرضاوی" میں ان مباحث کو موضوع بنایاہے۔ انڈیا کے مشہور مصنف سید جلال الدین عمری کی کتاب"غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق"بھی اس حوالے سے اہم ہے۔
ماضی قریب کے اہل علم میں ایک اہم نام مولانا وحید الدین خان کا ہے۔ مولانا وحید الدین خان کی پیدائش 1925 میں بھارتی ریاست اترپردیش کے قصبے اعظم گڑھ میں ہوئی تھی۔ والد فرید الدین خان بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے، ابتدائی تعلیم مدرسہ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ سے حاصل کی، مزید تعلیم اور جدید علوم کی تحصیل کے لیے مختلف درسگاہوں سے کسب فیض کیا۔ رسمی و غیر رسمی تعلیم کے بعد انہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا اور سب سے پہلی کتاب جو انہوں نے تحریر کی وہ "نئے عہد کے دروازے پر" تھی جو بعد میں لکھی جانے والی مشہور کتاب "مذہب اور جدید چیلنج" کے لیے بنیاد ثابت ہوئی۔
مولانا کے فکر کے مختلف جہات ہیں جن کا اظہار ان کی کتب میں جا بجا ملتا ہے، ان کے فکر کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ مذہب کی تعبیر و تشریح میں اپنی آراء کو حتمی سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک پوری دینی روایت میں صرف چند لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اسلام کے تذکیری اور دعوتی مشن کو سمجھا ہے، ماضی قریب میں انہیں کوئی ایسا نابغہ نظر نہیں آیا جس نے دین کی اصل روح کو سمجھا ہو۔ یہ حقیقت صرف انہی پر منکشف ہوئی ہے اور صرف انہوں نے دین کے اصل پیغام کو سمجھا ہے۔ ان کے فکر کا ایک اہم پہلو امن کا قیام اور دعوت و تذکیر پر حد سے زیادہ اصرار ہے، ان کے نزدیک مسلمانوں کے لیے میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ حرف آخر ہیں، اس تناظر میں ان کا موقف یہ ہے کہ قیام امن کے لیے مسلم سماج کو ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
بابری مسجد، کشمیر ایشو اور افغانستان جیسے سنگین مظالم کے بارے بھی ان کا یہی موقف رہا ہے کہ مسلمانوں کو قیام امن کے لیے ہر ظلم کو برداشت کر لینا چاہئے۔ ان کے فکر میں ردعمل کی نفسیات کا بھی بڑا عمل دخل تھا، وہ ساری زندگی جس چیز سے بچنے کی تلقین کرتے رہے ان کا اکثر لٹریچر اسی نفسیات کے زیر اثر تخلیق ہوا ہے۔ انسانی حقوق، مرد و زن کی مساوات، قیام امن، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، عائلی زندگی، نکاح و طلاق، تعدد ازواج اور ان جیسے دیگر سماجی مسائل کے حوالے سے، مولانا اپنا ایک مخصوص موقف رکھتے ہیں۔
غیر مسلموں کے باتھ باہمی تعامل کے حوالے سے بھی ان کا ایک موقف ہے، ان کے نزدیک امت مسلمہ امت دعوت ہے اور اس کا کام محض دعوت کو عام کرنا ہے، ہمیں کسی غیر مسلم سے الجھنے یا جنگ و جہاد کی ضروت نہیں بلکہ دعوت کے ذریعے ان کے قلوب کو مسخر کرنا یہ اصل کام ہے۔ آج عالمگیریت اور جدید ذرائع ابلاغ کے دور نے عملاً یہ ممکن کر دیا ہے کہ مسلمان دنیا کے ساڑھے سات ارب انسانوں کو بآسانی اپنی دعوت کا مخاطب بنا سکیں۔ اس لیے ہمیں غیر مسلموں سے الجھنے اور جنگ و جہاد کے بجائے دعوہ ایمپائر کھڑی کرنی چاہئے۔
مولانا بیسویں اور اکیسویں صدی کے باثر مسلم سکالر تھے اور نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ان کے فکری پروجیکٹ اور لٹریچر سے متاثر ہوئی ہے۔ لازم ہے کہ ان کے افکار کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے، ان کی تعبیر دین، قیام امن، دعوۃ ایمپائر، غیر مسلموں سے باہمی تعامل اور تذکیر جیسی اصطلاحات کے صحیح و سقم کو واضح کیا جائے۔ ان کے سماجی افکار کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور ان کے فکری پروجیکٹ کو من حیث المجموع روایت و درایت کے تناظر میں دیکھا جائے۔