فنون لطیفہ یا کچھ اور
فلم ہو، ڈراما یا ٹی وی پر دکھایا جانے والا کوئی اور پروگرام یہ سب مصنوعی اور فرضی کرداروں کے ساتھ خود ساختہ ماحول میں ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ ان میں اصل اور حقیقی کچھ بھی نہیں ہوتا، کہانی فرضی، کردار فرضی، کرداروں کے منہ سے ادا ہونے والے ڈائیلاگ فرضی، ماحول فرضی، منظرنامہ فرضی حتیٰ کہ آوازیں تک فرضی ہوتی ہیں۔
پچھلے کالم میں ہم فلم کی بات کر رہے تھے، ہم اسی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کسی فلم کے مختلف مناظر کی عکس بندی کے لیے مختلف سیٹ بنائے جاتے ہیں اور ہم پچھلے کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ ایک ایک سیٹ پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ پھر اس سیٹ پر جن کرداروں نے اداکاری کرنا ہوتی ہے ان کے لیے لاکھوں روپے کا میک اپ خریدا جاتا ہے اور فلم کے کسی ایک سین یا منظر کی عکس بندی کے لیے اداکاروں کو چھ چھ گھنٹے میک اپ روم میں بٹھا کر تیار کیا جاتا ہے۔
ان کی شخصیت اور شکل و صورت کو ان کرداروں میں ڈھالا جاتا ہے جو انہوں نے سکرپٹ کے مطابق ادا کرنا ہوتے ہیں۔ پھر ایک ایک منظر کی عکس بندی کے لیے چھ چھ گھنٹے لگائے جاتے ہیں اور بسا اوقات پورا دن کسی ایک منظر یا سین کی عکس بندی میں صرف کر دیا جاتا ہے۔ فلم یا ڈرامے میں اگر کہیں رقص شامل ہو تو اس کے لیے مشہور رقاص ہائر کیے جاتے ہیں، وہ فنکاروں کو رقص کی تربیت دیتے ہیں۔
اسی طرح گانوں کے لیے ملک کی بہترین آوازوں کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں۔ ایک فلم کو عموماً چھ ماہ، سال اور بعض صورتوں میں کئی کئی سال میں فلمایا جاتا ہے۔ یہ صرف ریکارڈنگ ہوتی ہے، آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ رف اور خام مال ہوتا ہے اس کے بعد اگلا مرحلہ ایڈیٹنگ کا ہوتا ہے۔ ایڈیٹنگ کے لیے ویڈیو ایڈیٹر ہائر کیے جاتے ہیں یہ چھ، دس یا بارہ گھنٹوں کی ریکارڈنگ میں سے سکرپٹ کے مطابق اصل کہانی جو عموماً ڈیڑھ سے دو گھنٹے پر مشتمل ہوتی ہے اسے الگ کر دیتے ہیں۔
پھر ان دو گھنٹوں پر مشتمل میٹریل کو بیک گراؤنڈ میوزک، مختلف آوازوں، ساؤنڈ ایفکٹس اور مختلف اثرات شامل کر کے زود اثر بنایا جاتا ہے۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد ڈیڑھ یا دو گھنٹوں پر مشتمل ایک فلم تیار ہوتی ہے اور اسے نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ تقریباً یہی سارا طریقہ کار کسی ڈراما سیریل کی تیاری میں اپنایا جاتا ہے اور ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد کوئی ڈراما نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
موسیقی اور رقص کے پروگرامز میں اس سے بھی زیادہ مصنوعی پن اور بناوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور اس کے لیے سیٹ بھی خاص انداز سے بنائے جاتے ہیں اور لائٹس کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہی صورتحال مارننگ شوز کی ہوتی ہے اور ان کے سیٹ بھی بھرپور طریقے سے سجائے اور تیار کیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مارننگ شو کی مشہور میزبان جگن کاظم کے لیے پی ٹی وی نے پچیس لاکھ روپے کا سیٹ تیار کرایا، اس کے ساتھ اسے تئیس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ بھی دی گئی اور پی ٹی وی کی تاریخ کا مہنگا ترین مارننگ شو ثابت ہوا۔
رمضان ٹرانسمیشن کے لیے جو سیٹ بنائے جاتے ہیں ان میں کوکنگ اور دیگر سرگرمیوں کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ آپ ایک لمحے کے لیے ذرا رک کر فیصلہ کریں کیا کوئی حقیقت پسند انسان اس طرح کی لغویات کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کر سکتا ہے؟ کیا ایک سلیم الفطرت انسان کو یہ چیزیں اذیت نہیں دیتیں اور کیا اسی لیے علامہ اقبال نے نہیں کہا تھا کہ یہ سراسر سراب، دھوکہ اور خود کو غیر کے روپ میں پیش کرنا ہے اور کیا مولانا طارق جمیل نے غلط کہا تھا کہ میڈیا (ٹی وی چینلز) جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر چلتے ہیں؟ میں نے جو اوپر ذکر کیا یہ فلم سازی کا محض سرسری جائزہ ہے اگر تفصیل لکھی جائے تو اس کے لیے کئی کالم درکار ہوں گے اور ایک سلیم الفطرت انسان کو یہ سب جان کر کوفت اور ذہنی اذیت ہونا شروع ہو جائے گی۔
فلم ہو، ڈراما، مارننگ شو، موسیقی یا رقص کا کوئی پروگرام ان سب میں مصنوعی پن، بناوٹ، فرضی ماحول، فرضی آوازوں اور فرضی کرداروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور جب یہ فلم یا ڈراما تیار ہو کر نمائش کے لیے پیش کیے جاتے ہیں تو گھروں میں بیٹھ کر دیکھنے والے نوجوان اور ہماری مائیں بہنیں انہیں حقیقی سمجھ کر جذباتی ہو جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سارے دجل، فریب، دھوکے، مصنوعی پن، بناوٹی کرداروں اور فرضی کہانیوں کا سماج اور نئی نسل پر کیا اثر ہو رہا ہے۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس وقت نئی نسل کی جو ذہنی، فکری اور جسمانی ساخت پروان چڑھ رہی ہے یہ سراسر ان فلموں اور ڈراموں کا نتیجہ ہے۔
اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں آ رہا توآپ اپنے نزدیک کسی کالج یا یونیورسٹی کو وزٹ کریں، یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کی وضع قطع دیکھیں، ان کا لباس، ان کا حلیہ اور ان کی گفتگو کا اندازہ کریں آپ کو میری بات کا یقین ہو جائے گا۔ آپ لڑکوں کے فیشن کو دیکھیں، ان کے لباس سے بالوں کے سٹائل تک کا معائنہ کریں آپ کو نظرآئے گا یہ سراسر فلموں اور ڈراموں میں پیش کردہ فیشن کی نقالی ہے۔
آپ لڑکیوں کے لباس اور فیشن پر نظر دوڑائیں آپ ان کے لمبے ناخنوں اور بے ستر لباس کو دیکھیں آپ فوراً چیخ اٹھیں گے کہ یہ سب کیا ہے۔ یاد آیا کچھ عرصہ قبل کراچی کے ایک نامور دینی ادارے کے مہتمم لاہور تشریف لائے، دوستوں کے اصرار پر انہوں نے لاہور کی ایک نامور یونیورسٹی وزٹ کرنے کا پروگرام بنایا، یونیورسٹی میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ان کی طبیعت بے زار ہوگئی، وہ وہاں جس طرح کا ماحول دیکھ رہے تھے انہیں اس پر یقین نہیں آ رہا تھا، انہوں نے میزبان سے درخواست کی اگر میں یہاں مزید رکا تو میری روح گھائل ہو جائے گی۔
ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ایک مسلمان اپنے ملک کی کسی جامعہ کو وزٹ کرنے کی سکت کیوں نہیں رکھتا؟ ہم واپس آتے ہیں موضوع کی طرف، اوپر ہم نے ظاہری وضع قطع کی بات کی اگر آپ یہ دیکھنا چاہیں کہ فلمیں اور ڈرامے نئی نسل کی ذہنی و فکری تشکیل میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں تو آپ ان سے صرف یہ پوچھ لیں کہ ان کے ہیروز کون ہیں، آپ کو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ سے لے کر پاکستانی یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکر تک لمبی لسٹ ملے گی، آپ کو ان ہیروز کی ایک ایک ادا کے بارے میں بتایا جائے گا، ان کی ذاتی زندگی تک کے بارے میں آپ کو گائیڈ کیا جائے گا، ان کے لائف سٹائل کے بارے میں بریف کیا جائے گا اور ان کے ہر کامیاب اور فلاپ فلم، ڈرامے، شو اور پروگرام کی ہسٹری تک بتا دی جائے گی۔
آپ ان سے موجودہ یا ماضی قریب و بعید کے کسی مسلم ہیرو کے بار ے میں جاننا چاہیں گے تو جواب خاک ملے گا۔ اسلامی تاریخ یا ہیروز تو دور کی بات آپ ان سے پاکستانی تاریخ یا ہیروز کا پوچھ لیں یہ آئیں بائیں شائیں کر کے چپ ہو جائیں گے۔ شہر چھوڑیں آپ پنجاب کے کسی دور دراز گاوں دیہات میں چلے جائیں وہاں آپ کو ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر انڈین پنجابی فلموں کے گانے سننے کو ملیں گے، یہ سب کیا ہے؟ یہ فلموں اور ڈراموں کی مصنوعی اور جھوٹی دنیا کے وہ اثرات ہیں جو نئی نسل کی ذہن و فکری تشکیل سے لے کر ان کی جسمانی وضع قطع کا تعین کر رہے ہیں۔
یہ صرف نئی نسل پر اثرات کا مختصر جائزہ ہے اگر من حیث المجموع سماج پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو حقائق انتہائی خطرناک ہیں۔ تفصیلات اتنی عام ہیں کہ ان کا یہاں اعادہ لا حاصل ہے۔ صرف یہ جان لیجیے کہ ہر سال ہزاروں شادیاں گھروں سے بھاگ کر ہو رہی ہیں، طلاق کے ہزاروں کیسز عدالتوں کے منتظر ہیں اور دار الامان میں سیکڑوں لڑکیاں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
سب سے افسوسناک بات یہ کہ فلموں، ڈراموں، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے سماج میں جو زہر گھولا جا رہا ہے اسے فنون لطیفہ کا نام دے کر جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔