فنون لطیفہ اور اسلام
لقمان حکیم کا نام آپ نے سنا ہوگا، ان کا اصل نام لقمان تھا مگر اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے حکیم مشہور ہو گئے۔ ان کی حکمت و دانائی اتنی مشہور ہوئی کہ اللہ نے اس کا ذکر قرآن میں کر دیا۔ قرآن کے اکیسویں پارے میں پوری ایک سورة موجود ہے جس کا نام ہی سورة لقمان ہے۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے لقمان حکیم کی چند نصیحتوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی۔
ان میں سے ایک نصیحت یہ تھی کہ چال میں میانہ روی اختیار کرو۔ چال میں میانہ روی سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ چلنے پھرنے میں معتدل رہا جائے بلکہ من حیث المجموع زندگی کے تمام امور میں میانہ روی اختیار کی۔ یہی اعتدال زندگی کا حسن ہے اور اس اعتدال کو سماج میں قائم رکھنا انسانیت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ فنون لطیفہ کے حوالے سے بھی اسلام کا یہی اصول ہے، فنون لطیفہ انسان کی جمالیاتی حس کی تسکین کا نام ہے لیکن یہ تب روا ہے جب تک انہیں اعتدال میں رہتے ہوئے کام میں لایا جائے۔
ہمارے ہاں یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام فنون لطیفہ پر قدغنیں لگاتا ہے اور اسلام میں انسانوں کی جمالیاتی حس کی تسکین کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ الزام بھی جڑ دیا جاتا ہے کہ اسلام ایک خشک مذہب ہے جس میں ہنسی مزاح اور لوگوں کو خوش رہنے اور خوشی تخلیق کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ الزام سراسر غلط یا بعض لوگوں کا سُو فہم ہے ورنہ اسلام نہ صرف خوش رہنے کے مواقع فراہم کرتا ہے بلکہ خوشی تخلیق کرنے پر بشارتیں بھی سناتا ہے۔
نبی اکرم نے فرمایا سب سے بہترین عمل کسی مسلمان کو خوشی عطا کرنا ہے۔ ایک موقع پر فرمایا کہ دلوں کو کبھی کبھار خوش کرتے رہا کرو۔ ایک اور موقع پر فرمایا، جس طرح انسان کا بدن تھک جاتا ہے اسی طرح انسان کا دل بھی تھک جاتا ہے لہٰذا اس کی تفریح کا سامان حکمت و دانائی کے ساتھ کرتے رہا کرو۔ مزید برآں آپ کے مزاح کے واقعات کتب سیرت اور احادیث میں موجود ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اسلام خوش ہونے، خوشی تخلیق کرنے یا انسان کی جمالیاتی حس کی تسکین کے لیے فنون لطیفہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا سراسر غلط ہے۔
اسلام کا اصل مدعا یہ ہے کہ انسان اعتدال اور مقصدیت کے ساتھ زندگی گزارے، وہ فن یا دیگر لغو کاموں میں اس قدر مشغول نہ ہو جائے کہ اپنی تخلیق کا مقصد بھول کر بے اعتدالی کی وادیوں میں اتر جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں میں جو فنون لطیفہ رائج ہوئے ان میں ان بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھا گیا۔
آج ہم فنون لطیفہ کی بنیاد پر سماج کو جس فرسٹریشن، بے اعتدالی، بے حیائی، فحاشی اور جرائم تخلیق کرنے کی جس سطح پر لے آئیں اس پر میں بعد میں بات کروں گا پہلے میں اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں رائج فنون لطیفہ کی ایک جھلک آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
اسلامی تاریخ کی ابتدا میں جس فن کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ فن تعمیرات تھا، اگرچہ اس فن میں اس سے قبل رومی تہذیب کی خدمات نمایاں تھیں مگر مسلمانوں نے اس میں کشادگی اور مقصدیت کے عنصر کو شامل کیا۔ اس فن کی ابتدا مساجد سے ہوئی اور مساجد کی تعمیر کا بنیادی مقصد نماز اور معاشرتی روابط کی استواری تھا۔
مسلمانوں نے مساجد کی تعمیر میں نئے ٹرینڈ متعارف کرائے، نماز کے لیے وسیع ہال، مسجد کے داخلی دروازے پر حوض، اطراف میں راہداریاں، وضو گاہ، مسجد کا صحن، سامنے دو مینار، گنبد اور منبر و محراب یہ طرز تعمیر اپنے عہد کا خوبصورت فن تھا جسے لوگ دور دور سے دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ اموی دور میں عبد الملک بن مروان نے قبة الصخراءکا گنبد تعمیر کرایا جو اس فن کا عظیم شاہکار تھا۔
عباسی عہد میں یہ فن مزید آگے بڑھا اور آرام گاہوں میں فوارے، ٹھنڈے اور گرم پانی کا اہتمام اور دیواروں پر نقش و نگار کا کام ہونے لگا۔ مسلمان اندلس گئے تو یہ فن یورپ میں بھی متعارف ہوا، قرطبہ و غرناطہ کے محلات، قصر الحمرا اور مسجد قرطبہ کے در و دیوار اس فن کے عظیم شاہکار تھے اور آج بھی سپین کے کوچہ و بازار میں اس فن کی سیکڑوں شہادتیں بکھری پڑی ہیں۔
خلافت عثمانیہ اور ہندوستان میں مسلمانوں نے فن تعمیر کے جو شاہکار تخلیق کیے وہ آج بھی نمایاں ہیں۔ دوسرا اہم فن، فن خطاطی تھا، اس فن میں لفظوں کو ایک خاص ترکیب کے ساتھ جڑا جاتا ہے جو کسی فن پارے میں حسن پیدا کرتے ہیں۔ قرآن سے وابستگی کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ فن بہت مقبول ہوا، بڑے بڑے خطاط قرآنی آیات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا کرتے تھے، جاندار کی تصاویر بنانے کی ممانعت کی وجہ سے لوگ خطاطی کے ذریعے اظہار مدعا کیا کرتے تھے۔
رومی تہذیب میں دیواروں کو جانداروں کی تصاویر سے مزین کیا جاتا تھا مسلمانوں نے خطاطی کے ذریعے دیواروں کو مزین کرنے کا رواج ڈالا۔ جہاں تک فن مصوری کی بات ہے تو مسلمانوں میں تمثیلی مصوری یا جانداروں کی تصاویر بنانے کی ممانعت اس لیے تھی کہ یہ صورت بت پرستی کی طرف لے کر جاتی تھی اور اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ انسانیت کو کفر و شرک کے جن اندھیروں سے نکال کر لایا ہے واپس انہیں اسی میں دھکیل دے۔ اس لیے اسلام نے اشیا کی ظاہری شکلیں بنانے کے بجائے ان کے جوہر اور معانی کو سامنے لانے کی ترغیب دی۔ مثلاً اللہ کی تخلیق کردہ کائنات کے حسین مناظر، شاہکار اور جنگی مناظر کی منظر کشی اور مختلف عمارتوں کی تصاویر جیسے رجحانات شامل تھے۔
اسی طرح کسی ماحول کی تمثیلی عکاسی، بادشاہوں کے محلات میں مختلف مناظر کی منظر کشی، مختلف اقسام کے پھول پودوں کی منظر کشی اور بے جان اجسام کی تمثیلی عکاسی۔ اگرچہ بعض بادشاہوں نے اپنے درباروں میں جانداروں، جانوروں اور پرندوں کی تصاویر بھی بنوائی تھیں مگر کسی بھی عہد کے اہل علم اور اسلامی روایت نے کبھی اس کی پذیرائی نہیں کی۔ اسلامی تہذیب میں کتابی مصوری بھی رائج رہی اور یہ ایرانی تہذیب کے توسط سے اسلامی تہذیب کا حصہ بنی۔
کتابی مصوری میں کتابی متن کے ساتھ تفہیم کے لیے ساتھ تصاویر بھی بنا دی جاتی تھیں، مثلاً شاہنامہ فردوسی، کلیات سعدی، قصص الانبیاءاور طبی علوم کی کتب میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ فن موسیقی کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت زیادہ افراط و تفریط موجود ہے، یہ فن اہل عرب کے بجائے عجم میں زیادہ مقبول ہوا، عجمیوں کا طریقہ تھا کہ بادشاہوں کے محلات میں گانے بجانے کے اجتماعات ہوتے تھے جس میں ماہر رقاص اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔
اہل عرب کی موسیقی اور رقص کا انداز یہ تھا کہ جنگوں کے مواقع پر سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے اور انہیں جوش و غیر ت دلانے کے لیے مغنی نغمہ سرائی کرتے تھے۔ دشمن کو ڈرانے اور ان کا حوصلہ پست کرنے کے لیے رزمیہ اور ہجویہ اشعار کہے جاتے تھے۔ اسلامی روایت میں ہلکے پھلکے صوفی رقص کی کسی حد تک پذیرائی ہوئی اور اس سے آگے کی تمام ریاضتوں کو لغویات میں شامل کیا گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ رقص کے نام پر جسم کی نمائش یا اس میں اس قدر محو ہو جانا کہ انسان اپنے مقصد اصلی سے غافل ہو جائے کسی صورت روا نہیں تھا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ رقص کو عموماً نچلے طبقے کے لوگ بطور پیشہ اختیار کیا کرتے تھے اس طرح ان کا استحصال ہوتا تھا اور اسلام کسی قسم کے استحصال کا روادار نہیں ہے۔ ادبی فنون لطیفہ میں مسلمانوں نے بہت مہارت حاصل کی، ادب کی نئی اصناف متعارف کرائیں، شعر و نظم کو نیا آہنگ عطا کیا، نثر کو متنوع انداز میں پیش کیا اور ان فنون میں مقصدیت کو شامل کیا۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلامی تہذیب میں رائج ان مختلف فنون لطیفہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے فنون لطیفہ پر کبھی قدغن نہیں لگائی لیکن اس کے ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اسلام نے اس انسانی جذبے کو شتر بے مہار بھی نہیں چھوڑا کہ یہ جذبات اسے جب چاہیں بے اعتدالی کی وادیوں میں دھکیل دیں۔
آج ہم فنون لطیفہ کے نام پر جس ہیجان، بدتہذیبی، فرسٹریشن، ترسنے کی کیفیات، فیشن، عزت و آبرو کی نیلامی اور فحاشی و عریانی کو پروان چڑھا رہے ہیں اور ہم نے مذہب، تہذیب، ثقافت اور سماج کی تباہی کا جو اہتمام کیا ہے اس پر ہم اگلے کالم میں بات کریں گے۔