فوج اور سیاست کا بیانیہ
ہم نوے کی دہائی تک پہنچے تھے، نوے کی دہائی میں صرف چھ سال میں تین منتخب حکومتوں کو برطرف کیا گیا اور یہ برطرفی ادارے کی طرف سے نہیں تھی۔ یہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی باہمی لڑائی تھی اور اس لڑائی میں کبھی ن لیگ جیت جاتی تھی کبھی پیپلز پارٹی لیکن ملک ہر بار ہار جاتا تھا۔ پھر 12 اکتوبر 1999 آ گیااور ملک ایک بار پھر مارشل لا کی گود میں چلا گیا۔
12 اکتوبر کا سانحہ کارگل جنگ کی وجہ سے نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کا نقطہ عروج تھا، پرویز مشرف نے وزیر اعظم کی رضامندی کے بغیر کارگل پر حملہ کر دیا تھا اور یہ حملہ فوج اور پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا تھا۔ نوازشریف واشنگٹن گئے اور وہاں جا کر جنگ بندی اور فوجی دستے واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ پرویز مشرف اور سینئر فوجی قیادت کو نواز شریف کا یہ اقدام اچھا نہیں لگا اور یوں دونوں اداروں کے درمیان سرد جنگ شروع ہوگئی۔
نواز شریف بہرحال وزیر اعظم تھے، انہوں نے پرویز مشرف کی رخصتی کا فیصلہ کر لیا اور یوں 12ا کتوبر کا دن ان کی سیاسی موت کے ساتھ طلوع ہوا۔ بادیئ النظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں ادارے کا کردار غلط تھا اور ادارے کو بہر حال اس انتہائی اقدام تک نہیں جانا چاہئے تھا۔ لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس سارے سانحے کے ذمہ دار پرویز مشرف تھے، کیا نواز شریف نے ایک آرمی چیف کی جبری رخصتی اور اس کے طیارے کو لینڈنگ کی اجازت نہ دے کر اس سانحے کی شروعات نہیں کی تھی؟ کیا بطور وزیر اعظم نواز شریف کویہ زیب دیتا تھا کہ اپنے آرچیف کو ملک میں لینڈنگ کی اجازت نہ دیں؟ ہمیں 12 اکتوبر کے سانحے کو سمجھنے کے لیے اس سے جڑے اس طرح کے سوالات پر بھی غور کرنا چاہئے۔
12 اکتوبر کے دن جو بھی ہوا اس کے بعد بہرحال ملک نے سکھ کا سانس لیا، ملک میں استحکام بھی آیا، معیشت بھی مضبوط ہوئی، انڈسٹری نے بھی پاؤں جمائے، زراعت نے بھی ترقی کی اور عالمی برادری میں بھی پاکستان فرنٹ فٹ پر آ گیا۔ پچھلی دہائی میں جہاں صرف چھ سال میں تین منتخب حکومتیں گرائی گئی تھیں، اب نہ صرف ملک کی سانسیں بحال ہوئیں تھیں بلکہ ملک نے ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی شروع کر دیا۔
18 فروری 2008 کو ملک کے دسویں عام انتخابات ہوئے، بینظیر بھٹو کی تازہ تازہ شہادت ہوئی تھی اور یہ شہادت پیپلز پارٹی کو اقتدار دلانے میں کامیاب ہوگئی۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے اور چند ہی مہینوں بعد اتحادیوں کی ہمت جواب دے گئی۔ حکومت بنانے سے قبل پیپلز پارٹی نے اتحادیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ معزول ججز کو بحال کرے گی مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس وعدے سے مکر گئی۔
ججز بحالی کی تحریک جو پہلے سے چل رہی تھی ایک بار پھر متحرک ہوئی، نواز شریف لانگ مارچ لے کر لاہور سے روانہ ہوئے، یہ لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچا تھا کہ 16 مارچ 2009 کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ٹی وی پر نمودار ہوئے اور ججز بحالی کا اعلان کر دیا۔ اتحادیوں کا اہم مطالبہ پورا ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود ملک میں استحکام نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی کی کرپشن کی کہانیاں زبان زدعام ہونے لگیں، قوم لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہوگئی، سرحدی علاقوں میں ڈرون اٹیکس کا سلسلہ بڑھ گیا اور مہنگائی کو پر لگ گئے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومتی اتحادیوں نے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔
پیپلز پارٹی کی اہم اتحادی ایم کیو ایم کے دو وزراء نے دسمبر 2010 کو مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اسی دوران مزید کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی آگ کو مزید تیز کر دیا۔ 2 مئی 2011 کو امریکہ نے ایبٹ آباد میں آپریشن کرکے اسامہ بن لادن کو شہید کر دیا، یہ کسی بھی ملک کی طرف سے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کی پہلی جرأت تھی جسے صدر زرداری اور پیپلز پارٹی نے بڑی آسانی سے ہضم کر لیا تھا۔ اسی سال 26 نومبر 2011 میں افغانستان سے نیٹو افواج نے پاک افغان سرحد پر موجود سلالہ چیک پوسٹ پر ڈرون اٹیک کرکے 24 پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا۔ یہ کھلی دہشت گردی تھی مگر پیپلز پارٹی میں اتنا دم خم نہیں تھا، فوج اور اپوزیشن کے دباؤ پر پیپلز پارٹی نے نیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
2011 میں میمو گیٹ سکینڈل بھی سامنے آ گیا، 10 اکتوبر 2011ء کو برطانوی اخبار فنانشل ٹائم لندن میں منصور اعجاز کا مضمون چھپا، جس میں اس نے انکشاف کیا کہ حسین حقانی نے مجھے امریکی افواج کے چیئرمن جوائنٹ چیفس آف سٹاف مائیکل مولن تک پہنچانے کے لیے ایک خط دیا ہے جس میں لکھا ہے کہ پاکستان کی موجودہ فوجی قیادت منتخب حکومت کو گرانا چاہتی ہے اس لیے مائیک مولن جنرل کیانی کو ایسا نہ کرنے کا پیغام دیں۔ اس کے عوض پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے بھرپور تعاون کرے گا۔
مزید یہ کہ پاکستان اس کے بدلے امریکہ کو بیڈ بوائز کی تلاش کے لیے پاکستانی سر زمین تک رسائی دے گا، ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں امریکہ کے ایڈیشنل ڈسپلن کو تسلیم کرے گا، مجوزہ نیشنل سکیورٹی ٹیم آئی ایس آئی کے سیکشن ایس کو ختم کیا جائے گا، ممبئی حملوں میں بھارت سے تعاون کریگا اور امریکہ کو اسامہ کی بیواؤں تک رسائی دے گا۔ سیاسی عدم استحکام کی حدت اس وقت مزید بڑھ گئی جب اپریل 2012 میں عدالت نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو صدر زرداری کے سوئس بینکوں میں پڑے اثاثہ جات کے خلاف درخواست نہ لکھنے کی پاداش میں 30 سیکنڈ کی سزا سنا کر نااہل کر دیا۔
2008 سے 2012 تک ملک سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کا شکار رہا۔ یہ صورتحال ملک کے طاقتور اور صاحب اختیار اداروں کے لیے پریشان کن تھی، یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے عمران خان کی چکنی چپڑی باتوں، مسحور کن گفتگو اور اس کے دعووں سے متاثر ہو کر اس کو سیاسی متبنیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ سب سے پہلے جنرل احمد شجاع پاشا نے کیا تھا، شجاع پاشا اس وقت آئی ایس آئی کے چیف تھے، انہوں نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی اور کہا ہم سب سیاستدانوں کو آزما چکے ہیں لیکن اب ہمیں نئے چہروں کو بھی آزمانا چاہئے۔ ان کا اشارہ عمران خان کی طرف تھا، جنرل کیانی کے اتفاق کے بعد پروجیکٹ پر کام شروع ہوگیا۔
جنرل پاشا زمان پارک گئے، عمران خان سے ملاقات ہوئی اور عمران خان کچھ اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔ دوسری ملاقات بنی گالہ میں ہوئی، جنرل پاشا اس ملاقات میں بھی کنوینس نہیں ہوئے، بہر حال فیصلہ کر لیا گیا۔ پروجیکٹ کے مطابق عمران خان کو تین کوآرڈینیٹر مہیا کیے گئے، میڈیا کو عمران خان کی پروفائل بلڈنگ کا حکم دیا گیا اور 2011 میں مینار پاکستان کے جلسے میں عمران خان کو باقاعدہ مستقبل کا وزیر اعظم ڈکلیئر کر دیا گیا۔ جنرل پاشا کی مدت ختم ہوئی تو جنرل ظہیر الاسلام نئے آئی ایس آئی چیف بنے، انہوں نے پروجیکٹ کی اونر شپ کو جاری رکھا اور2013 کے الیکشن سے قبل ملک کے ایک بڑے بزنس ٹائیکون کو عمران خان کو ڈیڑھ ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا۔
عمران خان 2013 کے الیکشن میں قابل ذکر سیٹیں حاصل نہیں کر سکے اور یوں یہ پروجیکٹ آگے بڑھتا رہا۔ بعد میں آنے والے آرمی چیف راحیل شریف اور جنرل باجوہ شروع میں عمران خان پروجیکٹ کے حق میں نہیں تھے لیکن راحیل شریف ذاتی وجوہات اور جنرل باجوہ کو مجبوراً اس پراجیکٹ کو اون کرنا پڑا اور ان ذاتی وجوہات اور مجبوریوں کی قیمت ادارے کو 9 مئی کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔
آپ یہاں پھر سوال اٹھائیں گے کہ ادارے نے اپنی حدود سے تجاوز کیا، لیکن میں بھی پھر کہوں گا کہ 2008 سے 2012 کے دوران، نو سالہ مارشل لا کے بعد بھی سیاستدانوں نے جس امیچورٹی، عدم استحکام اور سیاسی افراتفری کا مظاہرہ کیا اس کو دیکھتے ہوئے طاقت اور اختیار زیادہ دیر تک ہاتھیوں کی لڑائی اور گھاس کو روندتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
اگر سیاستدانوں نے 2000 سے 2008 تک کے معاشی سفر کو جاری رکھا ہوتا، ملک میں استحکام ہوتا، رٹ برقرار رہتی، اسامہ اور سلالہ جیسے واقعات نہ ہوتے اور سیاستدان پارلیمان کو عزت دیتے اور اپنے مسائل مل بیٹھ کر حل کرتے تو کسی کو ضرورت نہ پڑتی کہ وہ عمران جیسے پروجیکٹ کا آغاز کرتے۔
طاقت اور اختیار نے صرف یہ کیا کہ ملکی صورتحال اور مسائل کے پیش نظر صدق نیت سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا وہ الگ بات کہ یہ پروجیکٹ ان کے گلے پڑ گیا۔ بات اب بھی ادھوری ہے جسے اگلے کالم میں پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔