بلی تھیلے سے باہر کب آتی ہے
سترھویں صدی میں انگلستا ن کی بحریہ دنیا کی بہترین فوج سمجھی جاتی تھی، ان دنوں ایشیا اور یورپ کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ بحیرہ روم تھا اور بحیریہ روم پندرھویں صدی سے ترکوں کے قبضے میں تھا۔ بحیرہ روم پر قبضے کے لیے ایک مضبوط بحریہ کی ضرورت تھی اور اسی ضرورت نے برطانوی بحریہ کو دنیا کی بہترین فوج بنا دیا تھا۔ فوج میں نظم و ضبط اور ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے اٹل قوانین بنائے گئے تھے اور معمولی غلطی پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ سزا کے لیے ایک خاص قسم کا کوڑا استعمال ہوتا تھا جس کے ایک سرے پر چمڑے کی نو رسیاں لگی ہوتی تھی، مجرم کو جب کوڑا مارا جاتا تو اسے ایک کوڑے کے ساتھ نو کوڑوں کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی تھی۔ اس کوڑے کو انگریزی میں Nine o cat کہاجاتا تھا، اس کی حفاظت کے لیے ا سے چمڑے کے ایک تھیلے میں رکھا جاتا تھا اور اس کا استعمال صرف سنگین جرم کے ارتکاب پر کیا جاتا تھا۔ کوڑا مجرم کے جسم پر لگتا تو اس کی آہ وبکا دور دور تک سنائی دیتی تھی، فوج کے افسران بڑے شوق سے اس منظر کو دیکھتے اور شدت سے انتظار کرتے کہ کب Nine o cat تھیلے سے باہر آئے گا، یہ اتنی خوفناک سزا تھی کہ 1848 میں نیو یارک کی مقننہ نے اس کے استعمال پر پابندی لگا دی۔
پہلی بار یہ اصطلاح 1681 میں لندن میں ایک قتل کی رپورٹ کے دوران سامنے آئی، 1695 میں مشہور ڈرامانگار ولیم کانگریو نے اسے ڈرامے میں استعمال کیا اور اس کے بعد یہ اتنی مشہور ہوئی کہ انگریزی میں بطور محاورہ استعمال ہونے لگی۔ انیسویں صدی میں انگریزی سے اردو میں آ ئی اور اردو میں اس کا ترجمہ بلی تھیلے سے باہر آناکیا گیا۔ اردو میں اس کا استعمال کسی سازش کے بے نقاب ہونے، کسی راز کے عیاں ہونے، کسی کی قابلیت و صلاحیت کا پردہ فاش ہونے اور کسی چھپے جرم کے منظر عام پر آنے پر استعمال ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں یہ محاورہ مختلف مواقع پر استعمال ہوتا آیا ہے اور اب ایک بار پھر اس کے استعمال کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔ پاکستانی سیاست کی بلیاں تھیلوں سے باہر آنا شروع ہو گئی ہیں اور عنقریب ان بلیوں کا بہت بڑا اجتماع منظر عام پر آئے گا۔ یہ بلیاں پچھلے دو ڈھائی سال سے بے ضمیری اور بے حسی کے تھیلوں میں چھپی بیٹھی تھیں اب ان کا دم گھٹنے لگا ہے اور یہ مزید اندر نہیں رہ سکتیں اور چپکے چپکے باہر آ رہی ہیں۔ ایک بہت بڑی بلی پچھلے دنوں اس وقت سامنے آئی جب عمران خان نے اعتراف کیا کہ ہمیں تین مہینے سسٹم کو سمجھنے میں لگ گئے اورانرجی سیکٹرکے کچھ ڈیپارٹمنٹ ایسے تھے کہ ہمیں ڈیڑھ سال انہیں سمجھنے میں لگ گیا۔
یہ اس شخص کے اقوال زریں ہیں جو کہا کرتاتھا میرے پاس دنیا کی بہترین معاشی ٹیم ہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ بہترین معاشی ٹیم د و سالوں میں معیشت کو نہ سمجھ سکی۔ ایک بہت بڑی بلی اس وقت سامنے آئی جب اینکر نے سوال کیا کہ سر لوگ مجبور ہو کر خود کشیاں کر رہے ہیں تو بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ میں کیا کروں۔ ایک بلی اس وقت سامنے آئی جب ایک چپڑاسی کو وزیر داخلہ بنادیا گیا، اس سے قبل ایک بلی پنجا ب کے سب سے بڑے ڈاکو کو سپیکر بناتے وقت سامنے آئی تھی، ایک نفیس ترین بلی کا ظہور نفیس ترین لوگوں کو ساتھ ملاتے وقت ہوا تھا اور ایک خود کش بلی اس وقت سامنے آئی تھی جب خان صاحب آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے۔ گزشتہ بلیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو وقتا فوقتا منظر عام پر آتی رہی ہیں لیکن ہمیں آگے بڑھنا ہے اور دیکھنا ہے کہ مستقبل قریب میں کون کون سی بلیاں منظر عام پر آتی ہیں اور مزید یہ دیکھنا ہے کہ ان میں سے کسی بلی کو خود کشی کی توفیق ہوتی ہے یا نہیں۔
میں پہلے دن سے لکھتا آ رہا ہوں کہ عمران خان کی شخصیت سطحیت، جذباتیت اور نرگسیت کا مرقع ہے اور ایسی شخصیت سے آپ کسی بہت بڑے کام کی توقع نہیں کر سکتے۔ ایسا شخص تواپنی ذاتی زندگی میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لا سکتا اور ہم بائیس کروڑ عوام کاملک اس کے حوالے کیے بیٹھے ہیں اور تبدیلی کے لیے ترس رہے ہیں۔ ہم انسانوں میں نو ے فیصد لو گ ایسے ہوتے ہیں جن کی شخصیت ادھوری، ناقص اور غیر تربیت یافتہ ہوتی ہے، صرف دس فیصدلوگ ایسے ہیں جنہیں ہم اچھی اور مکمل شخصیت کا ٹائٹل دے سکتے ہیں، وہ دس فیصد لوگ کون ہوتے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے تحمل، برداشت، حوصلہ، حقیقت پسندی، ٹھہراؤ، عجز، کم گوئی، قوت ارادی اور ٹیم ورک جیسی صفات کو اپنی ذات کا حصہ بنا لیا ہوتاہے، ان کی شخصیت ان صفات میں گندھی ہے اور یہی لوگ سماج میں بہتری کے پیامبر ہوتے ہیں۔
دنیاایسے لوگوں کی وجہ سے ہی رواں دواں ہوتی ہے اور ان دس فیصد کی صلاحیتوں سے باقی نوے فیصدجذباتی اور سطحی عوام مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔ جو شخص اپنی ذات کو ان صفات سے متصف نہیں کر سکتا وہ لیڈر کہلا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے آپ کسی جوہری تبدیلی کی امید لگا سکتے ہیں۔ میں عمران خان کوشروع دن سے ہی ان نوے فیصد لوگوں میں شمار کرتا ہوں، کیوں؟ کیونکہ عمران خان ان دس فیصدلوگوں میں شامل ہونے کی قابل ہی نہیں تھے، انہوں نے اپنی ذات کو ان صفات سے متصف ہی نہیں کیا تھا جن سے آپ نوے فیصد سے دس فیصد میں چلے جاتے ہیں اور دنیا کو کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ میرا یہ مؤقف عمران خان سے نفرت یا کسی بغض کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی شخصیت کے ادھورے پن کی وجہ سے ہے، مجھے اندازہ تھا کہ عمران خان جذباتی، خود پسند اورسطحی انسان ہیں اورایسا انسان خواہشات کے سراب میں تو زندہ رہ سکتا ہے حقیقی دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ میرے یہ خدشات وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہو رہے ہیں اور جو کسر رہ گئی ہے عنقریب وہ بھی پوری ہو جائے گی۔
عمران خان کے حالیہ بیانات، سسٹم کو نہ سمجھ سکنے والی باتیں اور عوام خو دکشیاں کر رہے ہیں تو میں کیا کروں یہ سب حقیقتیں عمران خان کی شخصیت، اس کے ادھورے اور ناقص پن کو آشکا رکرنے کے لیے کافی ہیں۔ دو ڈھائی سالوں میں کوئی ایک وعدہ جو پورا کیا گیا ہو، کوئی ایک خواب جو حقیقت بنا ہو اور کوئی اور بات جس پر قائم رہا گیا ہو، کیا کسی انسان اور اس کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے دو ڈھائی سال کا وقت کافی نہیں۔ جن مسائل کو مخاطب بنا کر عمران خان سیاست میں آئے تھے انہی مسائل کو لے کر وہ آگے بڑھ رہے ہیں، انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانے سے چڑ تھی، اب وہ خود بھی جا رہے ہیں، انہیں شیخ رشید اور پرویز الہیٰ جیسے سیاستدانوں سے مسئلہ تھا اب وہ انہی کے سہارے قائم ہیں، انہیں ایم کیو ایم سے شکایات تھیں اب یہ نفیس ترین لوگ بن کر کرسی کا آخری کیل ہیں، انہیں مہنگائی سے مسئلہ تھا اورآج یہ مسئلہ مسائلستان بن چکا ہے۔ عمران خان کے حالیہ بیانات اور ان کی باڈی لینگوئج ثابت کر رہی ہے کہ وہ اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں، ان کی قابلیت و صلاحیت کی بلی تھیلے سے باہر آنا شروع ہو گئی ہے اور عنقریب موسم آنے والا ہے جب عمران خان کے ساتھ اور بہت سارے لوگوں کی بلیاں تھیلے سے باہر آئیں گے اور عوا م جان جائیں گے کہ کس کس نے اپنی بلیاں بے حسی اور بے ضمیری کے تھیلوں میں چھپا رکھی تھیں۔