عورت اور مصنوعی خوبصورتی
جیف بیزوز 12 جنوری 1964ء کو امریکی ریاست نیو میکسیکو کے شہر البوکرکی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے تھے۔ پرنسٹن یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کی ڈگری لی۔ وال سٹریٹ میں کام کیا مگر نوکری کی محدود دنیا ان کے خوابوں کے لیے ناکافی تھی۔ 1994ء میں اپنے گھر کے چھوٹے سے گیراج سے آن لائن کتابوں کی فروخت کا آغاز کیا جو آگے چل کر ایمیزون کی صورت میں دنیا کی سب سے طاقتور تجارتی سلطنت بن گئی۔ آج جیف بیزوس نہ صرف دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں بلکہ جدید سرمایہ داری، ٹیکنالوجی اور کاروباری ذہانت کی ایک زندہ مثال بھی سمجھے جاتے ہیں۔
چیف بیزوز نے جون 2025میں لورین سانچیز سے دوسری شادی کی اور اس شادی کی دھوم دنیا بھر میں سنائی دی۔ لورین سانچیز 19 دسمبر 1969ء کو امریکی ریاست نیو میکسیکو میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے صحافت اور کمیونیکیشن کے شعبے کا انتخاب کیا اور یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے ابلاغیات کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز میڈیا انڈسٹری سے کیا اور بطوراینکر اور نیوز رپورٹر مختلف امریکی چینلز کے ساتھ وابستہ رہیں۔ بعد ازاں انہوں نے ہوا بازی کے شعبے میں بھی قدم رکھااور پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔
جون 2025 میں شادی سے کچھ دن پہلے لورین سانچیز کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ لورین نے مصنوعی طریقے سے اپنے چہرے کے خدوخال کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ لورین نے پلاسٹک سرجری، فلرز اور دیگر مصنوعی طریقوں سے اپنے چہرے کو اس انداز میں بدلا تھا کہ اس کی اصل شناخت مٹ گئی تھی۔ اس کے ہونٹ غیر فطری انداز میں موٹے ہو گئے تھے اور چہرہ حد درجہ کھنچا ہوا اور تاثرات سے خالی دکھائی دے رہا تھا۔ اس سب کے باوجود لورین خود کو پہلے سے زیادہ خوبصورت محسوس کر رہی تھی جبکہ اس کی تصویر دیکھنے والا ہر انسان اس میں مصنوعی پن، مضحکہ خیزی اور جذبات کی عدم موجودگی کو واضح طور پر محسوس کر سکتا تھا۔
دورِ جدید میں خوبصورتی کا تصور پہلے ظاہری نمود و نمائش کے ساتھ جوڑا گیا تھا اور اب یہ ظاہری نمود و نمائش سے بڑھ کر مصنوعی تبدیلیوں کے ذریعے ایک ایسی سطح پر پہنچ گیا ہے جو نہ صرف انسانی فطرت سے متصادم ہے بلکہ روحانی و اخلاقی انحطاط کی بھی علامت ہے۔ پلاسٹک سرجری، فلرزاور اور دیگر مصنوعی طریقے دور جدید میں خوبصورتی کے نئے معیارات بن گئے ہیں۔
مغرب میں عورتوں کی یہ نفسیات دراصل ایک وسیع تہذیبی وروحانی بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔ مغربی عورت معاشرتی دباؤ، میڈیا پروپیگنڈا اور مشہور شخصیات کے بناوٹی انداز سے متاثر ہو کر اپنی شناخت کھو چکی ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگی ہے کہ جب تک اُس کے ہونٹ موٹے، ناک پتلی، آنکھیں بڑی اور جلد چمک دار نہ ہو تب تک وہ معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہیں بن سکتی۔ یہ ایک نفسیاتی احساس کمتری ہے جس نے مغربی عورت کے اندر سے خود اعتمادی کو ختم کر دیا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا نے ایسی مصنوعی عورتوں کو ماڈل بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ مغرب کے دولت مند اور طاقتور ترین افراد ایسی مصنوعی عورتوں کو پسند کرکے اس فتنہ کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ جب دنیا کا امیر ترین فرد ایسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے جو مکمل طور پر جراحیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے تو وہ نہ صرف اپنے ذاتی ذوق کی پستی کو ظاہر کر رہاہوتا ہے بلکہ دنیا کو غلط اور گمراہ کن معیار بھی فراہم کر رہا ہوتاہے۔
اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ انسانیت کو اپنی فطرت پر رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں زیب و زینت کو پسند کیا گیا ہے مگر اس کے لیے حدود و قیود طے کی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا "اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں "لیکن اس کے ساتھ نبی اکرمﷺ نے غیر فطری طریقوں سے زیب و زینت اختیار کرنے اور اپنی شکل کو بگاڑنے سے بھی منع فرمایا۔ آپﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے جسموں میں تبدیلیاں کرتی ہیں، دانت تراشتی ہیں، بھنویں باریک کرتی ہیں یا اپنے چہرے کی ساخت کو بدلتی ہیں۔
اسلامی تہذیب میں عورت کی عظمت کا پیمانہ اس کا لباس، میک آپ یا چہرے کی ساخت اور جسم کے خد و خال نہیں بلکہ اس کا تقویٰ، عقل، علم، وفاداری اور کردار کی بلندی ہے۔ حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہؓ جیسی عظیم خواتین اپنی سیرت، علم، پاکیزگی، کردار اور ایثار کی بنیاد پر تاریخ میں مقام رکھتی ہیں نہ کہ کسی مصنوعی خوبصورتی کی بنا پر۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان خواتین خصوصاً نسل نو مصنوعی خوبصورتی کے دھوکے سے نکل کر اپنے فطری حسن کو پہچانیں۔ اپنے اندر کو سنواریں اور اسلامی اقدار کو اپنائیں۔ ایک مسلمان کی اصل پہچان یہی ہے اور یہی وہ معیار ہے جو اللہ کے ہاں قابل قبول اور آخرت میں فائدہ مند ہے۔

