آپ کو گالیاں کھانے کا شوق ہے
چھٹی صدی قبل مسیح میں اٹلی کے ساحلی علاقوں میں اہل یونان کا ایک گروہ آباد تھا، یہ لوگ یونانی زبان بولتے تھے، یونانی خداؤں کی عبادت کرتے تھے اور ہومر اور ہیسیڈ کی شاعری کو مقدس سمجھتے تھے۔ یونانی فلاسفر ز نے سب سے پہلے اسی علاقے میں جنم لیا اور بعدمیں آنے والے تمام سائنسدانوں، فلسفیوں اور مذہبی پیشواؤں کے جد امجد کہلائے۔ ان میں نمایاں نام فیثا غورث کا تھا اور اسے پہلا یونانی فلسفی مانا جاتا تھا، اس کے بعدسکول آف میلیشینز کے دور کا آغاز ہوا، فلاسفرز کا یہ گروہ یونان کے شہر میلیٹس میں رہتا تھا، ان میں سب سے اہم نام تھیلیز کا تھا، اس نے انسانی تاریخ میں سب سے پہلے گرہن کی نشاندہی کی تھی، یہ جیو میٹری دان اورآسٹرونومر تھا، اس نے سال کے 365 دنوں کی پیش گوئی کی اور سور ج اور چاند کے سائز کی نشاندہی کی۔ اس گروپ کے دوسرے اہم فلاسفرز میں انیگزیمنڈر اور انیگزیمینیز شامل تھے۔ ان کے بعد سکول آف پرمینیڈیز کا دور شروع ہوا اور اس گروپ کے اہم فلاسفرز میں پرمینیڈیز، زینو اور ڈیمو قریطس شامل تھے۔ ان کے بعد سوفسطائیت کا دور شروع ہوا، سوفسطائی وہ لوگ تھے جو حصول علم کا انکار کرتے تھے، معروضیت کے منکر تھے اور پیسے لے کر علم بیچتے تھے۔
پانچویں صدی قبل مسیح کا آغاز یونان اور فارس کی جنگوں سے ہوا اور صدی کے اختتام پر ایتھنز اور سپارٹا باہم دست و گریباں تھے، طویل جنگوں کے بعدایتھنز کو فتح نصیب ہوئی اور یونان کو سیاسی و معاشرتی استحکام نصیب ہوا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں ہی یونان میں ایک عظیم فلاسفر نے جنم لیا دنیا جسے سقراط کے نام سے جانتی ہے، سقراط کا ظہورسوفسطائیت کے رد عمل کے طور پر ہواتھا، وہ پہلا فلسفی تھا جس نے کائنات کے ساتھ انسانوں کو بھی فلسفے کا موضوع بنایا، مابعدفلسفے کی پوری عمارت سقراطی فکر کے ستونوں پر قائم ہے اور آج سقراط کو فلسفے کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ سقراط ایک سنگ تراش کے گھر پیدا ہوا تھا اور اس کے باپ نے ساری زندگی پتھر تراشنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا تھا، اس کی والدہ دایہ کا کام کرتی تھی۔
سقراط شکل و صورت سے بھی بد شکل تھا، لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے اور وہ ہنس کر منہ نیچے کر لیتا تھا، ابتداء میں اس نے والد کے ساتھ سنگ تراشی کا کام کیا اور پھر فو ج میں بھرتی ہو گیا، یہاں سے بھی دل اچاٹ ہوا تو فلسفہ و حکمت کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ سقراط کا ایک شاگرد کیٹو کہتا ہے کہ ایک روز سقراط گھر کی دہلیز پر بیٹھا تھا، اندر اس کی بیوی اسے برا بھلا کہہ رہی تھی اور سقراط کے ہونٹوں پرمسکراہٹ چھائی ہوئی تھی، بیوی نے دیکھا کہ سقراط کوئی جواب نہیں دے رہاتوغصے سے اندر گئی اور پانی سے بھرا برتن اس پر انڈیل دیا، سقراط نے ہنس کر کہا :"مجھے معلوم تھا بادل گرج رہے ہیں بارش ضرورہو گی۔"ایک دفعہ کسی نے سقراط سے کہا :"ڈیلفی کے معبد میں ایک آواز سنی گئی ہے کہ سقراط ایتھنز کا سب سے عقلمند آدمی ہے "سقراط نے ہنس کر جواب دیا : "میں اس لئے داناہوں کہ مجھے اپنی بے علمی کا احساس ہے، میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔" جب بھی کوئی سقراط کی تعریف کرتا تو اس کا جواب یہی ہوتا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔
سقراط نے ہزاروں سال قبل اس بات کا اعتراف کر لیاتھا جسے ہمارے دانشور اور کالم نگار اکسیویں صدی میں بھی نہیں سمجھ سکے، انسان کی اصل اوقات یہی ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا، دنیا علوم و فنون کا ایک سمندر ہے اورانسان کی بساط بس اتنی سی ہے کہ وہ اس سمندر سے ایک دو قطرہ حاصل کر سکے۔ اکسیویں صدی میں سیکڑوں نئے علوم و فنون وجود میں آچکے ہیں، اس عہد کے انسان کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ کسی ایک علم یا فن میں مہارت حاصل کر لے، آج اگر سقراط، افلاطون یا ارسطو بھی آ جائیں تو انہیں بھی کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرنا پڑے گی۔ آپ بیک وقت مذہب، سائنس، ادب، بلاغت، تاریخ، نفسیات، معاشیات اور سماجیات پر عبور حاصل نہیں کر سکتے، یہ موجودہ عہد کی بدیہی حقیقت ہے اور جو اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرے گا اسے پھر گالیوں کی شکایتیں نہیں کرنی چاہییں۔ میرے عہد کے کالم نگاروں کا المیہ یہی ہے کہ وہ خود کو ہر فن مولا سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہیں، خصوصا وہ مذہب اور مذہبی ایشوزپر پوزیشن لینے کو لازم سمجھتے ہیں، ناقص معلومات اور ادھوری تفہیم پر جب وہ اپنے مقدمات کھڑے کرتے ہیں تو حقائق کو مسخ کر دیتے ہیں، اس سے اس رویے کا ظہور ہوتا ہے جس کا ذکرمحترم جاوید چوہدری نے اپنے گزشتہ کالم میں کیا۔
اپنے کالم "ایک اور بند گلی" میں انہوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں ان کے پچھلے کالم " بات اسی طرف جا رہی ہے" کے بعد برابھلا کہا گیااور عنقریب انہیں "اسرائیلی جاسوس" ڈکلیئر کر دیا جائے گا۔ جہاں تک بات ہے گالیوں کی تو اس سے مجھے بھی اختلاف ہے مگر صورت واقعہ یہ ہے کہ اختلاف رائے کے آداب کا لحاظ وہاں رکھا جاتا ہے جہاں سماج خواندہ اور تہذیب یافتہ ہو، ناخواندگی اور بھوک تہذیب کے آداب مٹادیتی ہے۔ جہاں تک بات ہے ان کے کالمز کی توہمیشہ کی طرح ان کے پچھلے دونوں کالم بھی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش تھی، چوہدری صاحب کی کالم نگاری کا اصل میدان سیاست، موٹیویشن اور سفرنامہ نگاری ہے، ان کے علاوہ جن موضوعات پر و ہ لکھتے ہیں بھان متی کے کنبے کی طرح کالم تو جوڑ لیتے ہیں مگر قار ی کو فکری پراگندگی اور کنفیوژن کا شکار کر دیتے ہیں۔ انہیں اصرار ہے کہ انہوں نے آرٹ بک والڈ کے کہنے پر سچ لکھنا شروع کیا ہے اور یہ انبیاء کا راستہ ہے، چوہدری صاحب کو چاہیے تھا آرٹ بک والڈ سے سچ کی تعریف بھی پوچھ لیتے اور انبیاء کے راستے پر چلنے سے قبل انبیاء کی تعلیمات پر بھی غور کر لیتے۔
چوہدری صاحب سے گزارش ہے کہ آپ سچ ضرور لکھیں مگر اس سے قبل سچ کی درست تفہیم بھی لازم ہے۔ اپنے کالم "بات اسی طرف جا رہی ہے" میں ان کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ ترکی کی محبت اور برطانیہ کی نفرت میں کیا تھا، اب یہ دونوں عامل ختم ہو چکے لہذا ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہئے، اگر قائد اور علامہ اقبال بھی ہوتے اور اپنے فیصلوں پر "ری تھنک" ضرور کرتے، چوہدری صاحب کو اس بات سے بھی چڑ ہے کہ ہم نے اسے امت مسلمہ کے تصور کے تحت مذہبی ایشو بنا دیا ہے حالانکہ یہ سراسر سفارتی ایشو ہے، ان کا مزید اصرار یہ ہے کہ حالات کے بدلنے سے ہمیں اپنے فیصلوں کو بھی بدل لینا چاہیے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے دوسرے کالم " ایک اور بند گلی " میں بھی اسی طرح کے بچگانہ سوالات اور انتہائی سطحی باتیں کی ہیں۔ کالم کی تنگ دامنی ان سوالات کے جوابات کی متحمل نہیں ہو سکتی، اگر چوہدری صاحب چاہیں تو فلسطین اوربیت المقدس کی آئینی و قانونی حیثیت پر مکالمہ ہو سکتا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اس طرف نہیں آئیں گے، کیونکہ ان کا کام محض سطحی باتیں کرنااور کنفیوژن پھیلانا ہے اور سنجیدہ مباحث ان کے بس کی بات نہیں۔
اس لیے ان سے اتنا عرض ہے کہ کوئی بھی ذی شعور انسان اخلاقی، قانونی اور سیاسی طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کر سکتا، اگر چوہدری صاحب کا مقدمہ مان لیا جائے تو کل وہ کہیں گے ہمیں کشمیر پر بھی انڈیا کا قبضہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ حالات کا تقاضا ہے۔ ظاہر ہے چوہدری صاحب جب اس طرح کے "سچ" بولیں اور لکھیں گے تو انہیں صلواتیں تو سننی پڑیں گے، جب آپ کنفیوژن پھیلا کر فکری پراگندگی کو جنم دیں گے تو رد عمل تو آئے گا، اس لیے ان سے گزارش ہے کہ آپ سچ ضرور لکھیں لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سچ لکھنے سے پہلے سچ کی درست تفہیم لازم ہے اور یہ بھی کہ انسان کی اصل اوقات اتنی سی ہے کہ وہ یہ جان لے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔