سفید زہر
معافی غلطیوں کی ہوا کرتی ہے گناہوں کی نہیں غلطیاں نادانستگی یا نادانی میں ہوتی ہیں جن کا احساس ہونے پر آئندہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرکے اللہ رب العزت سے توبہ کی جاسکتی ہے لیکن جانتے بوجھتے ایک گناہ کو بار بار کرنا یقینا جرم ہے۔ آج ہم کہتے ہیں خدا ہم سے ناراض ہوگیا ہے اس لئے وہ ہماری دُعائیں نہیں سن رہا نہ قبول کر رہا ہے لیکن کیا ہم نے اپنے گناہوں کی سچے دل سے معافی مانگی ہے ہر گزر نہیں۔ ذخیرہ اندوزوں نے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر اپنے پرانے فرائض کو مزید شدومد سے انجام دینا شروع کردیا ہے۔ لوگ چیخ رہے ہیں کہ آج ضرورت ہے تو میڈیکل سٹورز پر ڈیٹول جیسی عام ملنے والی چیز نایاب ہوچکی ہے اگر کہیں کوئی سٹور والا دے بھی دیتا ہے تو اپنے من چاہے داموں پر فروکت کرتا ہے ابھی بھائی نے بتایا کہ 70روپے کی ملنے والی شیشی 220روپے میں نہایت تگ ودو کے بعد دستیاب ہوتی ہے۔ وٹامن سی لینے جائو تو نہایت عام ملنے والی گولیاں نایاب ہوچکی ہیں۔
ادھر کچھ عرصہ سے ایک اور فراڈ نے زور پکڑا ہوا ہے ملک بھر میں چھوٹے بڑے شہروں کی طرح لاہور اور گردونواح میں جعلی مکھن، گھی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کا کاروبار عروج پر ہے۔ ہم جسے صحت بخش سمجھ کر مہنگے داموں خرید کر پی رہے ہیں وہ دودھ نہیں صرف سفید زہر ہے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں ہی اب خالص دودھ دستیاب ہے ورنہ چھوٹے بڑے تمام شہروں میں کیمیکل ملا سفید زہر ہی بک رہا ہے۔ لاہور میں ہم نے جگہ جگہ سے خالص سمجھ کر دودھ خریدا لیکن تسلی ابھی تک نہیں ہوئی یقینا خالص ملنا ممکن بھی نہیں۔ دودھ اللہ تعالی کی ایسی خالص اور توانائی سے بھرپور نعمت ہے جو ہماری زندگی اور روزمرہ خوراک کا نہایت ضروری حصہ ہے۔ انسانی زندگی کاآغاز سی نعمت سے ہوتا ہے اور ایک بچہ ایک لمبے عرصہ تک دودھ جیسی خوراک پر ہی انحصار کرتا ہے۔ جوان اور بوڑھے لوگوں کے لئے اس کی ایک اہمیت ہے۔ ایسی نعمت جو خود کئی قسم کے زہروں کااثر ختم کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ اب اسے خود زہرکا روپ دے دیا گیا ہے۔
پاکستان میں سالانہ دودھ کی پیداوار 34 ارب لیٹر سے بھی تجاوز کرچکی ہے اگر دودھ دینے والےجانوروں کی خوراک کا خاص خیال رکھا جائے تو سالانہ دودھ کی پیداوار60 سے65 ارب لیٹر تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ ملکی ضروریات کو پوراکرنے کیلئے 40سے45 ارب لیٹر دودھ درکار ہے۔ جبکہ باقی20 ارب لیٹر دودھ کو برآمد کرکے آمدنی میں اضافہ کیاجاسکتا ہے لیکن صد افسوس کہ ہم اس جائزکاروبار پر عمل کرنے کی بجائے جعلی دودھ بنانے اور فروخت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ لاہور میں اکثر ہزاروں ٹن دودھ چیکنگ کے بعد گرا دیا جاتا ہے۔ یہاں کی مشہور ترین دکانوں پر جعلی دودھ پکڑا گیا اور بارہا اسے ضائع بھی کیا گیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس کاروبار کو نہ تو ختم ہی کیا جاسکا ا ور نہ ہی دوبارہ ایسی غلطی کرنے سے روکنے کیلئے کوئی موثر سزا ہی نافذ کی جاسکی ہے۔ ہزاروں ٹن دودھ گرتا ہے اور اگلے ہی روز اتنا جعلی دودھ پھر سے تیار ہوکر مارکیٹ میں آجاتا ہے۔ نہایت ارزاں قیمت پر تیارشدہ اس کیمیکل کو ضائع کرنے سے فروخت کرنے والے کے کاروبار اور منافع پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ شہری اس جعلی دودھ کو پینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ کم از کم ماضی میں دودھ اور پانی کی ملاوٹ کی جاتی تھی جو کم از کم انسانی صحت کیلئے اس قدرمضرنہیں تھا اگرچہ بہت سی خبریں سننے کو ملتی تھیں کہ ناقص اور گندا پانی بھی شامل کیا جاتا ہے۔
جرم تو خیر وہ بھی تھا لیکن آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ اب جو دودھ آپ استعمال کررہے ہیں وہ جانوروں سے حاصل شدہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف قسم کی مضر صحت چیزوں کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے آپ کو یاد ہے کہ کچھ سال قبل گرمی شروع ہوتے ہی دودھ بھی اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاء بھی نایاب ہوجایا کرتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ اصل میں گرم کے موسم میں جانور دودھ کم دیتے ہیں اب آبادی کئی گناہ بڑھ چکی ہے دودھ کی طلب بھی اسی رفتار سے بڑھ چکی ہے لیکن رسدوطلب میں کوئی فرق نہیں ہے ہر جگہ ہر دکان پر دودھ آپ کو وافر مقدار میں نظر آتا ہے۔ اس جعلی دودھ میں جو خطرناک اجزاء استعمال کئے جارہے ہیں اُن میں یوریا، کپڑے دھونے والا سرف، ہائیڈروجن فارمولین، نشاستہ مایا، کوکنگ آئل یا ڈالڈا گھی، میگنیشیم سلفیٹ، ملک پائوڈر دودھ کی پی ایچ اور تیزابیت میں توازن برقرار رکھنا اور گاڑھا کرنے کیلئے بورک ایسڈ اور عام سادہ پانی، پسے سنگھاڑے، کیلشیم ہائیڈروآکسائیڈ، سکم ملک پائوڈراور پینٹ بھی ڈالا جاتا ہے۔
سن کر آپ کا سر بھی میر ی طرح چکرا گیا ہوگا لیکن پھر بھی مجبوری ہے ہم یہ زہر پئے جارہے ہیں ہمارے پاس شاید دوسرا کوئی رستہ موجود نہیں ہے۔ اس دودھ سے تیزی سے موذی امراض میں اضافہ ہورہا ہے جس میں پیٹ کی بیماریاں، تیزابیت، قے، پیچش، فوڈ پوائزننگ، بچوں کے دانتوں کا خراب ہونا، گروتھ کم ہونا، نظر کا کمزور ہونا اور دیگر بے شمار بیماریاں شامل ہیں اور ادھر ہم اسے کیلشیم کاذخیرہ سمجھ کر ہڈیاں مضبوط اور دانت چمکدارکرنے کے چکر میں لیٹرز کے حساب سے خریدے جارہے ہیں اس جعلی کے دودھ کے مسلسل استعمال سے کینسر، ہائیپر ٹینشن، کڈنی، لیور، شوگر اور لبلبے کے سنجیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، حکومت کو چاہئےکہ اس سنگین مسئلے کی طرف زیادہ توجہ دے اور فوڈ اتھارٹی والوں کو اختیارات میں مزید اضافہ دے۔ ایسے کاروبار کرنے والوں کے کاروبار کو مستقل بنیادوں پر بند کردیا جائے۔ ایک انسان کی موت پوری انسانیت کی موت ہے اور یہاں تو معاملہ پوری انسانیت کا ہے۔