کیسے کیسے نگینے خاک ہوئے
ہرکسی کے اثاثے مختلف ہوسکتے ہیں جن کیلئے کبھی وہ دُنیا سے فراڈ کرتے ہیں اور کبھی آخرت بھی خراب کرنے پر آسکتے ہیں لیکن ایک ایسا شخص بھی گزرا ہے جس کاقیمتی اثاثہ اُس کی دیکھنے والی آنکھیں اور محسوس کرنے والا دل تھا۔ ہر آنکھ دیکھنے والی نہیں ہوتی اور ہر دل دُکھ اور غم پر دھڑنے والا بھی نہیں ہوتا۔ یہ بصارت اور یہ جذبات دوسروں کے حوالے سے ہیں۔ دُنیا کے دکھ اور انسانی جسموں کے زخموں کو دیکھنے اور محسوس کرنے والے اس شخص کا نام عبدالستار ایدھی ہے جن کی چوتھی برسی بھی آن پہنچی۔ نیک دل اور نیک سیرت انسان نے مرنے سے قبل جب اُن کے گردوں نے کام چھوڑدیا تھا تو صرف ایک ہی لائن کی وصیت لکھی" میری آنکھیں ضرورت مند کو عطیہ کردی جائیں " آفرین صد آفرین۔ عبدالستار ایدھی کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا سماجی کارکن کہا گیا۔ اس رحمدل انسان نے کراچی کی شاہراہوں پر چندہ بھی مانگا، خون میں لتھڑی اور لاوارث لاشوں کے کفن دفن کا اہتمام بھی کیا۔ کوڑے کے ڈھیر سے اُٹھائے گئے بچوں کو چھت اور روزی روٹی کا انتظام بھی کرکے دیا۔ نائلون کے چپن پہن کر ہی ٹی وی پر انٹرویو دینے کیلئے آجانے والے اس شخص کی سادی انتہاء درجے پر تھی، ساری عمر ملیشیا کا سادہ کرتا پاجامہ ہی زیب تن کیا اور اس لباس میں بھی وہ کئی امیروں، کئی شہنشاہوں سے زیادہ عزت والا تھا۔
دوسروں کی تکالیف کیلئے مانگنے والے اس وا حد بھکاری کے سامنے رئوسا اپنی جیبیں خالی کرجایا کرتے تھے۔ زمین پر رومال رکھ کر مانگنے والے اس درویش نے2005ء کے زلزلہ متاثرین کیلئے سولہ ٹرک امدادی سامان کے بھیجے۔ ایدھی صاحب ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے جب ان کی عمر سترہ برس تھی، شروع ہی سے خدمتِ خلق کا جذبہ رکھتے تھے۔ کراچی میں فلوء کی وباء پھوٹی تو وباء کے مریضوں کے لئے ایدھی صاحب نے خدمت میں دِن رات ایک کردئیے۔ ایک مخیر شخص نے کافی بڑی رقم عطیہ کی تو اُنہوں نے ایمبولینس خرید لی خود چلاتے اور لوگوں کی خدمت کیا کرتے۔ یہیں سے ایدھی فائونڈیشن کا آغاز ہوا۔ سکول کے زمانے میں ماں نے سبق پڑھادیا تھا کہ دو آنے میں سے ایک آنہ تیرے لئے ہے اور دوسرا آنہ کسی غریب بچے کیلئے ہے۔ عمر بھر ماں کا یہ سبق یاد رکھا۔ یہ سلسلہ وطنِ عزیز سے باہر دیارِ غیر تک پھیلتا چلا گیا اور سادہ دل نیک انسان اپنی ہر ہر سانس انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کرتا رہا۔ 8 جولائی 2016ء کی ایک شام کو اُن کی طبعیت بگڑ گئی اسپتال لے جانے پر معلوم ہوا کہ دونوں گردوں نے کام چھوڑ دیا ہے، رات کے کسی پہر و دُنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اور ہمیشہ کیلئے اپنی آنکھیں موند لیں۔ خدا اُنہیں غریق ِ رحمت کرے۔ آمین۔
فتح مکہ کے عظیم الشان واقعہ سے کون مسلمان واقف نہیں ہوگا، مکہ فتح ہوا اور بُت کدے کے تمام بت توڑ کر اسلام کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اسلام کی رُوح ہمیشہ سے بُت شکنی ہے۔ فتح مکہ سے لے کر اب تک کی تاریخ پر نظر دوڑاتے آئیے۔ بڑی بڑی جنگیں اور اتنی ہی بڑی قربانیاں بُت شکنی اور اسلام پرستی کے نظریات کو پروان چڑھانے کیلئے ہی لڑی گئی تھیں۔ عجیب سی حیرت ہے کہ ریاست ِ مدینہ کے دعویداروں نے کسی مسجد کی اینٹ رکھنے کا اعلان نہیں کیا۔ ترکی جیسی عظیم الشان مسجد بنانے کا دعویٰ کسی نے نہیں کیا لیکن اسلام آباد میں مندر کی تعمیرکیلئے کروڑوں روپے مختص کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ نادرا کے مطابق اسلام آباد میں ہندوئوں کی کل تعداد پونے دوسو کے برابر ہے اور اُن کیلئے سید پور جیسے خوبصورت علاقے میں مندر پہلے ہی موجود ہے۔ ایک طرف مساجد کھولنے پر بھی ان دنوں پابندی ہے، کجا کہ نئی مساجد کی تعمیر ہو وہیں دوسری طرف اربوں روپے کے بجٹ سے کہیں عالیشان مندر تعمیر کرنے کے منصوبے تشکیل پارہےہیں، موازنہ ہندوستان سے بھی ملاحظہ کرلیجئے وہاں حکومت کے تعاون سے آخر کتنی مساجدکی تعمیر ہوچکی ہے اور کتنی مساجد کو سالوں سے شہید کیاجارہا ہے۔ اعدادوشمار ضرور اکٹھے کرلیجئے گا۔ وہاں تو مسلمان اقلیت ہوکر بھی اکثریت میں ہیں اور کیا ہم اتنی جلدی بابری مسجد کا سانحہ بھی فراموش کرچکے ہیں؟
موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں بھارت نے بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ آئینی حیثیت ہی ختم کردی جبکہ ہم نے کشمیر پر چناب فارمولے سمیت متبادل حل بھی پیش کردئیے تھے کیا یہ بات اب سچ نظر نہیں آرہی کہ مندروں کا قیام دراصل مودی حکومت کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے اور متحدہ عرب امارات میں مندر کی تعمیر بھی اصل میں اسی منصوبہ کا ایک حصہ ہی ہے، چلیں مان لیا کہ عرب امارات کے بھارت کے ساتھ تجارتی مفادات وابستہ ہیں لیکن کیا ایک مسلمان کو تجارتی مفادات کے حصول کیلئے اس حد تک شرائط کو پورا کرنا زیب دیتا ہے۔ دوسری طرف ہمرے ساتھ تو اب وہ سیاسی و تجارتی تعلقات بھی ناپید ہوچکے ہیں۔ ہماری کیا مجبوریاں ہیں اور آخر کیا وابستگیاں ہیں؟ ایک طرف مظلوم کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے اور دوسری طرف ہمارے ہی دئیے گئے ٹیکس کے پیسوں سے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر ہوکیا یہ انصاف ہے؟ کیا ٹیکس کے پیسے دینے کا یہ مقصد ہے؟ ہم مسلمان ہیں لبرل ازم پر یقین بھی رکھتے ہیں کہنے کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ ہندوئوں سے ہندوئوں کی طرح پر تشدد رویہ رکھا جائے میں اس کے بھی خلاف ہوں ہر شخص کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کی پوری آزادی ہے اور یہ اُن کا حق ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی ذمہ داری ریاست کے علاوہ ہم سب پر بھی عائد ہوتی ہے سندھ میں عمر کورٹ اور دیگر کئی علاقوں میں ہندوئوں کی بڑی تعداد مقیم ہے اور اُن کے کئی مندر بھی موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں اُن کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے عظیم الشان مندر کی تعمیر کا منصبہ کیامقاصد رکھتا ہے؟ ایسا کام نہ کیا جائے جو بعد میں کسی بڑے تنازعے کا باعث بن جائے اور تاریخ میں افسوسناک واقعہ کے طور پر یاد کیا جائے۔