Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Liaqat Rajpar/
  3. Pir Ali Muhammad Rashdi Aik Adeeb Aur Zaheen Insan

Pir Ali Muhammad Rashdi Aik Adeeb Aur Zaheen Insan

پیر علی محمد راشدی ایک ادیب اور ذہین انسان

لاڑکانہ ضلع میں دو بھائی راشدی خاندان سے تعلق رکھنے والے تھے جو ایک چھوٹے سے گاؤں بہمن میں پیدا ہوئے اور اپنی محنت اور جدوجہد سے بڑا نام کمایا۔ ان میں علی محمد شاہ راشدی اپنے والد سید محمد حمید شاہ کے بڑے بیٹے تھے جب کہ حسام الدین چھوٹے بیٹے تھے۔ وہ 5 اگست 1905 کو پیدا ہوئے تھے۔

اس کی خدمات سیاست، تاریخ، ادب، صحافت وغیرہ میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم مولوی محمد سومر اور مولوی محمد صدیق میرپور والے سے حاصل کی تھی۔ اس نے 4 اسٹینڈرڈ کے بعد سکندرنامہ فارسی اور عربی کو بڑی حد تک پڑھا اور اس میں کمانڈ حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے استاد محمد رفیق اور نصرت ریلوے اسٹیشن ماسٹر سے انگریزی کی تعلیم اور جانکاری حاصل کرتے رہے۔

علی محمد کو پڑھنے کا بڑا شوق تھا اور وہ اپنے طور پر سندھی، فارسی، عربی اور انگریزی پڑھتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی مہارت حاصل کرلی، اب وہ صحافت کی طرف چل پڑے اور 1924 میں اپنا صحافتی سفر شروع کیا اور وہ روزنامہ الرشید کے ایڈیٹر 1926 میں بن گئے، اس کے بعد روزنامہ الامین کے مدیر بنے جو سکھر سے شایع ہوتا تھا۔ اسی دوران راشدی ملک کے نامور سیاستدان محمد ایوب کھڑو کے سیکریٹری بن گئے جو عرصہ 1927 سے 1932 تک جاری رہا۔ اس کے علاوہ وہ کھڑو کی مدد کرتے ہوئے سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے میں اپنا کردار نبھایا۔ اس زمانے میں جب ایک ہفتہ وار سندھ زمیندار پرچے کے بھی مدیر بن گئے۔ صحافتی دنیا میں ترقی کرتے کرتے اس نے 1934 میں اپنا اخبار ستارہ سندھ سکھر سے جاری کیا، اس کے ساتھ انگریزی میں بھی ہفتہ وار Voice of Muslims جاری کیا جس کا پہلا پرچہ 1940 میں سکھر سے جاری کیا اور پھر اس پرچے کو کراچی سے نکالنے لگے۔

راشدی 1948 میں کراچی سے نکلنے والے انگریزی اخبار سندھ آبزرور (Sindh Observer) کے مدیر بنے اور پھر اپنا انگریزی کا اخبار 1952 میں Statesman قائم کیا۔ وہ صحافت کی دنیا میں بڑے مشہور ہوگئے اور اس کی اہلیت اور ہوشیار کو دیکھتے ہوئے انھیں APNS کا صدر بنایا گیا جو اپنے وقت میں ایک صحافتی وفد کو لے کر ہندوستان، انگلینڈ اور مصر لے گئے۔ وہ بڑے اچھے ادیب بھی تھے جس نے کئی Topics پر بڑے بڑے مقالے لکھے اور اس کی اردو، سندھی اور انگریزی میں لکھی ہوئی تحریریں بین الاقوامی سطح کی ہیں۔ اس کی سندھی میں لکھی ہوئی ایک کتاب "اُہے ڈینھں اُہے شینھں(Uha Deehan Uha Sheehan) اک تاریخ اور سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ کراچی کے ایک بڑے روزنامے کے برسوں نمایندہ خصوصی بھی رہے۔

اس کے ساتھ راشدی سیاست کی دنیا میں بھی کود پڑے اور اس کی ابتدا اس نے 1926 میں ہی سندھ محمدین ایسوسی ایشن میں شمولیت کرکے کی، پھر 1934 میں سر شاہنواز بھٹو کی طرف سے قائم کردہ سندھ پیپلز پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کرلی، اس کے ساتھ 1938 میں قائم ہونے والی سندھ اتحاد پارٹی کے بنیادی ممبر بھی تھے۔ اکتوبر 8 اور 9 کو کراچی میں مسلم لیگ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس کی کامیابی میں بھی اس نے بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔ علی محمد کی جدوجہد اور جذبے کو دیکھتے ہوئے اسے سندھ مسلم لیگ کے سیکریٹری بنائے گئے جب کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ Foreign Committee کے بھی سیکریٹری کے طور پر کام کر رہے تھے۔

پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر وہ 1953 میں ایم پی اے سندھ اسمبلی منتخب ہوگئے اور انھیں عبدالستار پیرزادہ کی کیبنٹ میں ریونیو کا منسٹر بنایا گیا۔ اس نے ایک رپورٹ بنا کر صدر محمد ایوب خان کو بھیجی تھی کہ سندھ سے جاگیرداری نظام کو ختم کیا جائے اور اس رپورٹ پر ایوب خان نے دستخط بھی کردیے تھے۔ جب 1954 میں محمد ایوب کھڑو کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا کہ وہ سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کا بل منظور کروائیں جو پاس ہو گیا جس میں علی محمد راشدی کا بڑا ہاتھ تھا جس کے لیے راشدی کو ایوب کھڑو کی کیبنٹ میں وزیر برائے صحت، اطلاعات اور ریونیو بنایا گیا تھا۔

ون یونٹ والا بل ایوب کھڑو اور راشدی کے ماتھے پر آج تک ایک بدنام داغ ہے جس کی وجہ سے سندھ کے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے تھے۔ یہ بل 1955 میں سندھ اسمبلی سے پاس ہوا تھا۔ اس غداری کے عوض راشدی کو چوہدری محمد علی بوگرا کی کیبنٹ میں اطلاعات و نشریات کا وزیر بنایا گیا مگر اس دوران اس نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد بنانے اور 1956 کا آئین بنانے میں اپنا رول ادا کیا۔ وہ 1957 سے 1961 فلپائن میں اور 1962 میں 10 مہینے تک چائنا میں بطور Ambassador رہ چکے تھے۔ کہتے ہیں وہ جب کچھ عرصے کے لیے ہانگ کانگ میں رہے تو پاکستان کے بزنس کے لیے کام کرتے رہے۔ 1970 کے الیکشن میں وہ روہڑی اور سیہون سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ کے لیے پی پی پی کے سید عبداللہ شاہ صاحب کے اور ایک دوسرے امیدوار سے مقابلہ کیا مگر ہار گئے۔

بھٹو کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ہوشیار اور قابل لوگوں سے ملک کے لیے کام لیتے تھے اور علی محمد راشدی تو بڑے قابل تھے اس لیے اس کی ذہانت اور کام سے فائدہ لینے کے لیے اسے وفاقی حکومت میں بطور ایڈوائزر کے رکھا اور اسے 1972 میں منسٹری آف انفارمیشن میں پاکستان نیشنل سینٹرز کا سربراہ بنایا (چیئرمین بنایا)۔ راشدی کے بارے میں جی ایم سید نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ راشدی ایک قابل اور ہوشیار انسان تھے جسے ادب، صحافت، سیاست میں بڑا تجربہ، جانکاری اور وژن ہے۔ جب وہ اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں کچھ بھی لکھتے تھے تو پڑھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے، ان کی یادداشت بہت مضبوط تھی۔ لکھنے میں روانی تھی۔

اس کی لکھی ہوئی کتابوں میں ایک انگریزی کتاب کے علاوہ، ڈائری آف چائنا، جی ایم سید، فریاد سندھ وغیرہ بھی شامل ہیں اس کے علاوہ اس کے لکھے ہوئے اداریے، کالم اس کے بیٹے حسین شاہ راشدی نے 1988 میں چھپوا کر کتابی صورت میں لائے جس کا نام تھا "ہندہ ائیں رند"" اس نے ممتاز راشدی سے شادی کی تھی جس سے اس کا ایک بیٹا تھا جو اس نے اپنے بھائی حسام الدین کو دیا تھا جس کی پرورش وہیں ہوئی تھی۔ راشدی کی خوبی یہ تھی کہ وہ دوستوں سے کچہری بھی کرتے تھے اور لکھتے بھی تھے مگر کبھی بھی کوئی غلطی نہیں کرتے اور کئی مرتبہ دوستوں نے اس کی غلطیاں پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ لاحاصل عمل تھا۔ اس کی شخصیت میں ایک کشش تھی اسے بات کرنے اور لکھنے کا ڈھنگ آتا تھا اور وہ ایسی گفتگو کرتے یا لکھتے تھے کہ سننے والا اور پڑھنے والا اس کا مداح بن جاتا تھا۔

وہ جس کے بھی ساتھ رہے اس کو بہترین سیاسی صلاح ضرور دیتے تھے مگر ایوب کھڑو کو ون یونٹ والی صلاح نے اس کا اور اپنا کیریئر تباہ کردیا۔ بہرحال وہ کئی اداروں میں کام کرتے رہے جس کی وجہ سے اس کا تجربہ اور مشاہدہ اسے ایک ایسے مقام پر لے آیا کہ وہ اچھے تجزیہ کار بن گئے۔ وہ 14 اپریل 1983 میں انتقال کرگئے۔

Check Also

Barkat Kisay Kehte Hain?

By Qamar Naqeeb Khan