تبدیلی کیوں نہ آ سکی!
اب خود وزیراعظم عمران خان اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے انتخابی ٹکٹ غلط لوگوں کو دیئے اور وزارتیں بھی غلط لوگوں کے حوالے کر دیں، اگر دیکھا جائے تو اس وقت وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کی ایک فوج خاں صاحب نے اپنے گردجمع کر رکھی ہے، ان کے اقتدار کا آدھا سفر پورا ہوا اور باقی ماندہ سفر اب آنے والے الیکشن کی تیاری اور اسی ضمن میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں ہی گزر جائے گا، اس اقتدار کے عرصے میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنا ضروری ہو گا ورنہ یہ اقتدار کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے یعنی جیساکہ اب عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خاں صاحب اسمبلیاں تحلیل بھی کرسکتے ہیں کیونکہ اس وقت غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ قومی معیشت نہ ماضی میں اچھی تھی اور نہ ہی اب سنبھل رہی ہے آنے والے برسوں میں اگر معیشت سنبھل جاتی ہے تو یہ معجزہ ہی ہوگا، عالمی قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خان صاحب کی نیت صاف تھی اور اب بھی ہے ان کی ایمانداری اور انتھک کام کرنے کے ثبوت موجود ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں سے یہ مختلف ہیں، ان میں قومی خدمت کا جذبہ موجزن ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت ایک تو اپوزیشن ناکارہ ہے تو دوسری طرف حکمران جماعت کے عوامی نمائندے بھی بے کار ہیں۔ ہر طرف مفاد پرست مافیا موجود ہے۔ بیوروکریسی مکمل طور پر حکومت کے قابو میں نہیں ہے۔ یہ وہی بیوروکریسی ہے جوکہ ماضی کے حکمرانوں کی نرسریوں میں پروان چڑھ کر قومی اداروں کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ اب تحریک انصاف اپنے قیام کے پچیس سال پورے کر چکی ہے۔
لندن کے کانوائے ہال میں عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کی بات کی تھی تو انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں کے ایک بڑے اجتماع میں پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جدوجہد کا اعلان کیا تھا۔ سمندر پار پاکستانیوں نے جن میں نوجوانوں اور بزرگوں کی بھاری تعداد نے اس تحریک میں شامل ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ وہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد واپس پاکستان لوٹ جائیں گے ایسا واقعی ہوا عمران خان وزیراعظم بنے تو پاکستانیوں کی کثیر تعداد پاکستان لوٹ گئی، اپنا سرمایہ پاکستان میں رہ کر کاروبار میں لگانا چاہا مگر چند ہی ماہ بعد یہ پاکستانی واپس بیرون ملک آنا شروع ہو گئے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پاکستان میں کسی قسم کی تبدیلی کے آثار نظر نہ آئے۔ اپنا سرمایہ پاکستان میں کس جگہ انویسٹ کرتے ہر جگہ تو کمیشن مافیا کا راج برقرار تھا نتیجہ یہ ہوا کہ تارکین وطن میں مایوسی پھیلتی چلی گئی جیساکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی اپنی پارٹی سے جے رحیم اور مختار رانا جیسے نظریاتی رہنمائوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا بالکل ایسا ہی تحریک انصاف میں بھی ہوا۔ پارٹی کے انتہائی اہم اور بانی ارکان جسٹس وجیہہ الدین، حامد خان اور فوزیہ قصوری کو بھی پارٹی چھوڑنی پڑی کیونکہ اس پارٹی میں بھی جمہوری اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے پارٹی میں متبادل قیادت ابھرنے ہی نہیں دی گئی۔
اصل حقیقت اس وقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اب انتشار کاشکار ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ترین گروپ منظر عام پر آ چکا ہے۔ اصل مسئلہ ہی کرپشن ہے۔ کرپشن جس سطح پر بھی ہو یہ کرپشن ہی ہے۔ مافیا کے خلاف پوری رپورٹ بھی تیار ہو چکی ہے۔ وزیراعظم اس مافیا کے خلاف کیا کرتے ہیں اور جہانگیر ترین کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کی جاتی ہے یہ بہت بڑا امتحان ہو گا۔ عمران خان کا کہ وہ کس طرح اپنے قریبی ساتھی کی کرپشن کا معاملہ حل کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے وزرا، مشیر اور دیگر ممبران پارلیمنٹ کا عالم یہ ہے کہ وہ عام لوگوں سے رابطے میں ہیں ہی نہیں حتیٰ کہ وہ فون تک بھی کسی کا سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ عوام کی ان تک رسائی ہی ممکن نہیں ہے۔ وزرائ، مشیر اور پارلیمنٹ میں قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین اور ممبران سارا دن پریس کانفرنس اور پھر شام کو ٹی وی ٹاک شوز میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ ہے ان کی کارکردگی ان حالات میں کس تبدیلی کی توقع رکھی جائے گی۔ اس حد تک تو یہ بات حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ عمران خان نے ملک میں انڈسٹریز کو چلا دیا ہے۔ پاکستان مخالف قوتوں نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان میں صنعتی میدان میں کام دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔
ٹیکسٹائل کے شعبے میں برق رفتاری سے بیرون ملک سے ڈیمانڈ آنی شروع ہو گئی ہیں تو یورپی یونین نے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کو بنیاد بنا کر پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے جوکہ افسوس ناک ہے۔ یقینا عمران خان کی حکومت کو اندرون اور بیرون دونوں جگہوں پر مشکلات کا سامنا ہے اور ساتھ ہی کورونا جیسی وبا نے بھی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ان تمام حالات کا تقاضاہے کہ ملک میں ہر سطح پر قومی یکجہتی کو برقرار رکھا جائے۔ اصل مسئلہ اس وقت یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عمران حکومت کو ختم کر دیا جائے یا خود عمران خان اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کردیں ہونا یہ چاہیے کہ اب وزیراعظم عمران خان صدر پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے باہمی مشاورت کے بعد اپوزیشن لیڈر، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، آرمی چیف سمیت دیگر سروسز چیفس اور صوبوں کے گورنرز سمیت قومی سطح کا ہنگامی اجلاس بلائیں۔ اس اجلاس میں پاکستان میں نظام کی تبدیلی، بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر آپریشن کے علاوہ سپریم کورٹ سے لے کر نچلی سطح تک تمام عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے ہنگامی اقدامات کے لئے لائحہ عمل وضع کیا جائے۔ ہر سطح پر کرپشن کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر حکمت عملی اپنائی جائے جب تک ان تمام امور پر عملدرآمد نہیں ہو جاتا اس وقت تک قومی انتخابات کروانا بے معنی ہوگا۔ انتخابی اصلاحات اسی صورت میں ہو سکتی ہیں کہ جب ملک کا موجودہ نظام یکسر تبدیل ہو۔
موجودہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں سینٹ آف پاکستان اپنا اعتماد کھو چکی ہیں اور ان فلورز پر اب قومی قانون سازی ناممکن ہے۔ سیاسی جماعتوں کے آپس کے اختلافات اور سابقہ حکمران خاندانوں کی کرپشن کو نظر انداز کر کے ایک بار پھر این آر او کی پالیسی اپنانا کسی طور پر بھی اب قومی مفادات میں نہیں ہے جو سیاستدان بھی پاکستان سے باہر جا کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرے یا بیرون ملک جا کر قومی اداروں کے خلاف عوام کو ابھارے اسی شخصیات کو پاکستان میں عوامی نمائندگی کے حق سے قانونی طور پر محروم کر دیا جائے۔ ان تمام امور پر ڈیفنس آف پاکستان رولز کا اطلاق کر کے قومی پالیسی ہنگامی طور پر واضح ہونی چاہیے تب جا کر پاکستان میں تبدیلی ممکن ہوگی۔