ازبکستان سے سیکھنے کی چند مزید باتیں
ہم اگر دنیا میں کسی ملک کے قریب ہیں تو وہ ملک ازبکستان ہے، ہماری زبان اردو میں چار ہزار ازبک الفاظ ہیں، ہمارا ہر تیسرا لفظ ازبک ہوتا ہے، ہمارے پاس پلاؤ، نان، گوشت، کباب، سالاد، شوربہ اور پیالہ ازبکستان سے آیا، تربوز بھی ازبک ہندوستان لے کر آئے، پنجابی ظہر کی نماز کو پیشی اور عشاء کی نماز کو کفتاں کہتے ہیں، یہ دونوں نام ازبکستان سے پنجاب آئے، یہ لوگ آج بھی ظہر کو پیشی اور عشاء کو کفتاں کہتے ہیں۔
شہتوت بھی ازبکستان سے پاکستان آیا، یہ لوگ سبز شہتوت کو توت اور سیاہ اور سرخ کو شہتوت کہتے ہیں، شاہ دراصل سیاہ تھا، ہم نے سیاہ کو بگاڑ کر شاہ بنا دیا، پاکستانی علاقوں کے 80 فیصد لوگ ازبک صوفیاء، علماء، شعراء اور جرنیلوں کی وجہ سے مسلمان ہوئے، پاکستان میں کروڑوں کی تعداد میں"نقش بندی" موجود ہیں۔
تصوف کا یہ سلسلہ بخارہ سے شروع ہوا، حضرت بہاؤالدین نقش بندؒ کا مزار بخارہ کے مضافات میں ہے، مجھے دوبار مزار پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، میں دونوں بار حضرت بہاؤالدین نقش بندؒ کا مہمان تھا، مجھے ایک بار لاہور کے ایک نقش بندی بزرگ نے فون کرکے فرمایا "حضرت کا حکم ہے تم فوراً ان کے پاس آؤ" میں نے عرض کیا "حضرت میں کیسے جاؤں" وہ خاموش ہو گئے۔
مجھے چند دن بعد ازبکستان سے دعوت آ گئی، میں سیدھا بخارہ گیا، حضرت کے مزار پر حاضری دی اور دیر تک وہاں بیٹھا رہا، دوسری بار ازبکستان گیا، تاشقند میں تھا، رات کا پچھلا پہر تھا، مجھے خواب میں حضرت کی زیارت ہوئی، فرمایا "تم یہاں آ کر بھی نہیں ملو گے" میری آنکھ کھل گئی، کمرے میں موتیے کی ہلکی ہلکی خوشبو تھی، میں صدارتی الیکشن کے لیے انٹرنیشنل آبزرور بن کر گیا تھا، مجھے ناشتے کی میز پر بتایا گیا الیکشن کمیشن نے میری ڈیوٹی بخارہ میں لگا دی ہے۔
میں خصوصی طیارے پر بخارہ گیا، مزار پر حاضری دی اور اس بار بھی دیر تک وہاں بیٹھا رہا، حضرت اس رات دوبارہ خواب میں تشریف لائے اور فرمایا "اللہ تعالیٰ کو استغفار بہت پسند ہے" میں نے گزشتہ روز استغفراللہ کی تسبیح بڑھا دی، حضرت بہاؤالدین نقش بندؒ بھی پاکستان اور ازبکستان کا مشترکہ اثاثہ ہیں، حضرت امام بخاریؒ اور حضرت امام ترمذیؒ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دھاگہ ہیں، میں نے امام بخاریؒ کے مزار پر تین بار حاضری دی۔
میں دیر تک آپ کے پاؤں میں بیٹھا رہا، ترک بادشاہ ظہیر الدین بابر بھی دونوں ملکوں کا رشتہ ہیں، بابر1500ء میں فرغانہ سے نکلا اور 1526ء میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی، دہلی جاتے ہوئے سون سکیسر میں رکا، خوش آب (خوشاب) کے نام سے شہر آباد کیا، کلر کہار میں باغ اور تخت بابری تعمیر کیا، یہ تخت آج بھی بابر کی یاد بن کر پاکستان میں موجود ہے۔
ازبک بادشاہ پوری زندگی ہندوستان (دریائے سندھ سے جمنا کے کناروں تک) کو ازبکستان بنانے کی کوشش کرتے رہے مگر ہندوستان نے بدلنا تھا اور نہ ہی یہ بدلا تاہم یہ لوگ ہندوستان میں چھوٹے چھوٹے ازبکستان بنا گئے، دہلی کا لال قلعہ ہو، ایودھیاکی بابری مسجد ہو، آگرہ کا تاج محل ہو اور لاہور کی بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، شیش محل، جہانگیر کا مزار یا پھر اکبری منڈی ہو، آپ کو پاکستان میں آج بھی جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے درجنوں ازبکستان ملتے ہیں، لاہور کو لہور بھی ازبکوں نے کہا تھا، یہ ہ پر زور دے کر بولتے ہیں۔
ازبکستان میں بابر بابور اور لاہور لا۔ ہور کہلاتا ہے، پنجابی زبان ازبک زبان سے زیادہ متاثر ہوئی، پنجاب کے دیہات میں آج بھی چمچ کو کاشک اور لوٹے کو کوزہ کہا جاتا ہے، یہ دونوں ازبک لفظ ہیں، پنجاب اور ازبکستان کی دھنیں بھی ملتی جلتی ہیں، پاکستان کا نام بھی ازبکستان سے آیا تھا، ازبکستان کے ایک ریجن کا نام "کراکل پاکستان" (Karakal Pakistan) ہے، یہ ریجن ازبکستان کے شمال مغرب میں واقع ہے، وہاں پانچ سوقبل مسیح سے لوگ آباد ہیں، ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کا نام کراکل پاکستان سے لیا تھا چنانچہ آپ جس طرف سے بھی دیکھیں آپ کو پاکستان اور ازبکستان میں مماثلت ملے گی۔
ازبک قوم اور حکومت دونوں پاکستان کے "بیسٹ فرینڈ" بننا چاہتے ہیں، ازبکستان 31 اگست 1991ء کو آزاد ہوا، آزادی کے فوراً بعد اس نے اپنا اسٹینڈرڈ ٹائم اور ڈالر کا "ایکس چینج ریٹ" پاکستان کے برابر رکھ لیا، پاکستانیوں کے لیے شروع میں ویزہ بھی نہیں تھا لیکن پھر جہادی تنظیموں اور تبلیغی جماعتوں کی وجہ سے ویزہ لازم قرار دے دیا گیا۔
ازبک پاکستان تعلقات میں ماضی میں بے شمار مدو جزر آئے، ہم نے ازبکوں کو سردمہری بھی دکھائی لیکن یہ اس کے باوجود آج بھی پاکستان سے مایوس نہیں ہیں، میں گیارہ مرتبہ ازبکستان جا چکا ہوں، میں تقریباً پورا ملک دیکھ چکا ہوں، میں دل سے سمجھتا ہوں ازبکستان اور پاکستان مل کربہت کچھ کر سکتے ہیں، مثلاً ازبکستان کپاس، آبپاشی اور بجلی میں پاکستان کی بے تحاشہ مدد کر سکتا ہے اور ہم ازبکستان کو ادویات، گارمنٹس، سبزیوں، پھلوں اور تعلیم میں مدد دے سکتے ہیں۔
یہ لوگ فطرتاً مہمان نواز ہیں، ان کی کرنسی بہت کمزور ہے، ایک ڈالر کے آٹھ سے دس ہزار سم آتے ہیں، آپ سو ڈالر تبدیل کرائیں تو آپ کو آٹھ سے دس لاکھ سم ملیں گے، آپ یہ نوٹ تھیلے میں ڈال کر پھریں گے لیکن آپ کو اس "انفلیشن" کے باوجود غریب سے غریب ازبک کا دسترخوان بھی وسیع ملے گا، آپ کسی کے گھر چلے جائیں وہ گھر میں موجود کھانے کی ہر چیز میز پر رکھ دے گا، یہ سالاد، پھل اور دہی زیادہ کھاتے ہیں، آپ کو ہر گھر میں ڈرائی فروٹ بھی ملتا ہے، یہ جوس بھی پیتے ہیں اور یہ بے تحاشہ گوشت بھی کھاتے ہیں، خواتین بہت خدمت گزار اور ان تھک ہیں، یہ سارا دن جاب اور پڑھائی کریں گی اور شام کو پورے گھر کے لیے کھانا بنائیں گی۔
صفائی ان لوگوں کے مزاج کا حصہ ہے، لوگ گلیاں تک صاف کرتے ہیں، آپ ان کے شہر، قصبے اور دیہات دیکھیں، آپ ان کے گھر، گلیاں اور بازار دیکھیں، آپ کو صفائی حیران کر دے گی، یہ لباس بھی صاف ستھرا پہنتے ہیں، یہ لوگ سال میں ایک بار کپڑے اور جوتے خریدیں گے لیکن یہ دونوں اعلیٰ اور خوبصورت ہوں گے، یہ لوگ پالش کے بغیر جوتے نہیں پہنتے، پلاؤ ان کا قومی کھانا ہے، ہر گھر میں روزپلاؤ بنتا ہے۔
آپ اگر خصوصی مہمان ہیں تو آپ کے لیے مرد پلاؤ پکائیں گے، یہ میزبانی اور عزت افزائی کی انتہا سمجھی جاتی ہے، حلیم بھی ازبکستان سے ہندوستان آئی، آپ کو یہ بھی یہاں ہرجگہ ملتی ہے، ہم پاکستانی ازبکوں کے ساتھ "انٹریکشن" سے میزبانی اور صفائی کا یہ آرٹ سیکھ سکتے ہیں، ازبک کاٹن، پاور پلانٹس اور آبپاشی میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں، سوویت یونین کے دور میں روس نے اس علاقے کو کاٹن اور الیکٹرک سٹی ایریا بنا دیا تھا۔
ازبکستان کے دو دریا بہت مشہور ہیں، دریاآمو اورسیردریا، یہ دریا "ارل سی" میں گرتے تھے، روسی نے 1960ء میں دونوں دریاؤں کے رخ موڑے، آبپاشی کا نظام وضع کیا اور ازبکستان کو کپاس کا کھیت بنا دیا، آزادی کے وقت ملک کا 85 فیصد ریونیو کپاس سے آتا تھا، روس نے یہاں کپاس کا ایک ایسا بیج بھی بنایا جو 40 فیصد کم پانی کے ساتھ دگنی کپاس دیتا ہے، ازبک کپاس پاکستانی کپاس سے کوالٹی میں بہت بہتر ہے، روس، چین اور یورپ ازبک کپاس کے بڑے خریدار ہیں، یہ لوگ ہمیں یہ تکنیک بھی دینا چاہتے ہیں اور بیج بھی، ہماری وزارت زراعت ازبک حکومت کے ساتھ رابطہ کرکے یہ ٹیکنالوجی حاصل کر سکتی ہے۔
یہ لوگ آبپاشی کے جدید ذرایع بھی استعمال کرتے ہیں، یہ کم پانی سے زیادہ فصلیں حاصل کرتے ہیں، ہم ان سے یہ بھی سیکھ سکتے ہیں، سوویت یونین کے دور میں ازبکستان میں پاور پلانٹس کی ٹیکنالوجی آئی، یہاں بجلی کی خصوصی مہارت پیدا کی گئی، آج بھی ازبکستان میں پاور پلانٹس کے ہزاروں انجینئر موجود ہیں، یہ 2005 ئسے افغانستان کو بجلی بیچ رہے ہیں، ہم ان سے یہ ٹیکنالوجی بھی حاصل کر سکتے ہیں اور سستی بجلی بھی، ہم اپنے طالب علم یہاں بھجوا کر پاور پلانٹس کی مہارت بھی سیکھ سکتے ہیں۔
ازبک حکومت نے اپنے تمام مدارس، مساجد، پرانے محلوں اور شہروں کے قدیم حصوں کی ازسر نو آرائش کی، یہ نئے دور کے قدیم علاقے بن چکے ہیں، دنیا سے ہر سال لاکھوں سیاح خیوا، بخارہ، سمرقند، شہر سبز، قرشی اور تاشقند کے قدیم مدارس، مقبرے اور مساجد دیکھنے یہاں آتے ہیں، ہم ان سے یہ مہارت بھی سیکھ سکتے ہیں۔
پنجاب حکومت کامران لاشاری کے ذریعے لاہور کے قدیم علاقے بحال کرا رہی ہے، کامران لاشاری کو پوری ٹیم کے ساتھ ازبکستان جانا چاہیے، بحالی کا ازبک کام دیکھنا چاہیے اور پھر ان معماروں کے ذریعے پاکستان میں ازبک عمارتوں کو بحال کرانا چاہیے، ازبک سی پیک اور ردالفساد کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں، یہ سمجھتے ہیں ردالفساد پورے خطے کی سلامتی کے لیے اہم ہے، یہ ردالفساد کو کاپی بھی کرنا چاہتے ہیں اور سیکھنا بھی، یہ سمجھتے ہیں"سی پیک" پورے سینٹرل ایشیا کو جدید دنیا سے جوڑ دے گا، یہ اس میں بھی خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں، احسن اقبال کو ازبک حکومت کوسی پیک پر بریفنگ بھی دینی چاہیے اور ازبک وفدکو گوادر کا دورہ بھی کرانا چاہیے۔
ازبکستان اور پاکستان کے درمیان صرف 26 ملین ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے، ہم صرف آلو، پھل اور ادویات میں اضافہ کرکے اس تجارت کو ایک بلین ڈالر تک لے جا سکتے ہیں، ازبکستان نے ادویات سازی کے لیے تین انڈسٹریل زون مختص کر رکھے ہیں، ہماری فارما سوٹیکل کمپنیاں ازبکستان میں فیکٹریاں لگا کر پورے سینٹرل ایشیا میں مناپلی قائم کر سکتی ہیں، یہ لوگ ادویات سازی کے لیے زمین اور قرضے بھی دیتے ہیں اور یہ انڈسٹری ازبکستان میں ٹیکس فری بھی ہے۔
میں ازبکستان میں وزارت خارجہ کا مہمان تھا، مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی یہاں کا ایک لوکل بینک میرا سپانسر تھا، میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا حکومت اپنے مہمان مختلف کمپنیوں، اداروں اور مقامی لوگوں میں تقسیم کر دیتی ہے یوں مہمان نوازی بھی ہو جاتی ہے اور سرکاری خزانے پر بوجھ بھی نہیں پڑتا، یہ ایک اچھا طریقہ ہے، ہماری وزارت خارجہ بھی یہ کر سکتی ہے، سرکاری خزانے پر بوجھ بھی کم ہو جائے گا اور میزبانی کا فرض بھی بہتر انداز سے ادا ہوگا، مجھے عوام نئے صدر شوکت میرزائی اور حکومت کی نئی پالیسیوں پر بھی خوش نظر آئے، شوکت میرزائی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انٹرنیشنل فگر بن کر ابھر رہے ہیں، یہ ازبکستان کی بہت بڑی سیاسی اچیومنٹ ہے، ہماری لیڈر شپ بھی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔