تعلیم کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے
بھارت میں منموہن سنگھ کی حکومت نے ایک دلچسپ کام کیا، حکومت نے پرائیویٹ اسکولوں میں انتہائی غریب بچوں کا کوٹہ طے کر دیا، یہ کوٹہ25فیصد ہے جس کے بعد بھارت کے تمام پرائیویٹ اسکول غریب بچوں کو امیر بچوں کے ساتھ کوالٹی ایجوکیشن دینے پر مجبور ہوگئے، یہ ایک قدم بھارت کے لاکھوں غریب خاندانوں کو جہالت اور غربت سے باہر لے آیا، اگر بھارت یہ انقلاب لا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں لا سکتے چنانچہ میں سمجھتا ہوں ہم اگر کوشش کریں تو ہم پاکستان کے نظام تعلیم میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔
روزگار کے بعد تعلیم ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ہے، ہمیں اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہو گا حکومت اب سرکاری اسکول اور کالج نہیں چلا سکتی، ہمارا سرکاری سلیبس، سرکاری استاد، اسکولوں کی سرکاری عمارتیں اور سرکاری سوچ پرانی ہو چکی ہے، حکومت اگر آج اسکولوں کی عمارتوں کی مرمت کرنا چاہے، یہ اسکولوں میں واش رومز، پلے گرائونڈز، لائبریریاں، لیبارٹریاں اور کلاس رومز بنانا چاہے توہمیں دو سال کا پوراقومی بجٹ چاہیے، ہمیں صرف عمارتوں کی مرمت کے لیے فوجی بجٹ کے برابر رقم درکار ہے اور یہ ظاہر ہے ممکن نہیں۔
دوسرا، ہمارے سرکاری اسکول روایتی لحاظ سے 1960ء کی دہائی سے آگے نہیں نکل سکے جب کہ زمانہ بل گیٹس اور سیٹو جابز کے دور میں داخل ہو چکا ہے، آج کمپیوٹر، آئی پیڈ اور آئی فون، ڈیجیٹل لائبریری، ملٹی میڈیااور ای لائبریری کے بغیرتعلیم ممکن نہیں اور ہمارے قصباتی اور دیہاتی اسکول ان سہولتوں سے صدیوں دور ہیں، ہم دنیا بھر سے سالانہ پانچ ارب ڈالر لے لیں تو بھی ہم ملک کے تمام سرکاری اسکولوں کو یہ سہولتیں فراہم نہیں کر سکتے۔
تیسرا، سرکاری اسکولوں سے جنم لینے والے بچوں اور پرائیویٹ اداروں سے فارغ ہونے والے اسٹوڈنٹس میں کلچر، سوچ، اعتماد اور علم کا دس ہزار کلومیٹر طویل فرق ہے، یہ دونوں صدیوں کی دوری پر ہیں، اس دوری کے دو نقصان ہو رہے ہیں، ہمارے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے نوجوان ڈگریوں کے باوجود بیروزگار رہتے ہیں جب کہ پرائیوٹ اداروں سے جدید تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو یورپ، امریکا اور عرب ریاستیں بھاری تنخواہوں پر لے جاتی ہیں اور یوں ملک میں خلا پیدا ہو رہا ہے۔
دو، یہ نام نہاد پڑھے لکھے، مایوس غریب نوجوان نوکریاں چاہتے ہیں لیکن ان میں جدید زمانے کی نوکریوں کی اہلیت نہیں ہوتی اور ان کی یہ مایوسی ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جا رہی ہے چنانچہ ہمیں کھلے سے دل سے ماننا پڑے گا ہمارے ملک میں اب کوئی حکومت سرکاری اسکول نہیں چلا سکے گی اور کوئی حکومت پرائیویٹ ادارے بھی بند نہیں کر سکے گی مگر اب سوال یہ ہے اس صورتحال کا حل کیا ہے، اس کا حل بہت سیدھا اور آسان ہے۔
حکومت کو چاہیے یہ فوری طور پر پرائمری سے یونیورسٹی تک تمام تعلیم پرائیویٹائز کر دے، ملک میں پانچ ہزار تعلیمی کمپنیاں بنائی جائیں، یہ کمپنیاں سرمایہ جمع کریں اور پورے ملک میں اسکول اور کالج کھولیں، حکومت پورے ملک یا پورے صوبے کے لیے جدید ترین یکساں تعلیمی سلیبس بنوائے اور پورے ملک یا پورے صوبے کے تمام پرائیویٹ اسکولوں میں صرف اور صرف یہ سلیبس پڑھایا جائے، تعلیمی کمپنیاں ہر محلے میں، ہر گائوں میں یا پھرہر اس علاقے میں جہاں پانچ سو بچے موجود ہیں وہاں اسکول کھولیں، اسکول کی عمارت اور سہولتیں پورے ملک میں ایک جیسی ہوں اور محلے اور گائوں کے بچے صرف اپنے محلے کے اسکول میں داخلہ لے سکیں، یہ دوسرے محلے یا گائوں کے دوسرے اسکول میں داخل نہ ہو سکیں۔
یہ اسکول پچاس فیصد طالب علموں سے پوری فیس لیں، پچیس فیصد طالب علموں سے آدھی فیس لی جائے اور پچیس فیصد ایسے طالب علم جو فیس ادا نہیں کر سکتے، ان کی تعلیم مفت ہو۔ اس اقدام سے پورے ملک کے بچے ایک ہی قسم کی تعلیم حاصل کریں گے جس سے طبقاتی نظام تعلیم ختم ہو جائے گا، بچے محلے کے اسکول میں پیدل جائیں گے جس سے والدین بچوں کو اسکول چھوڑنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے اور ٹریفک اور پٹرول کا خرچ بھی کم ہو جائے گا اور غریب طالب علم بھی جدید تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ حکومت سرکاری اساتذہ کو پرائیویٹ اسکولوں میں شفٹ کر سکتی ہے جس سے اساتذہ کی نوکریاں بھی بچ جائیں گی۔
ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے حکومت تعلیمی بجٹ کا کیا کرے؟ حکومت فوری طور پر تعلیم اور اسپورٹس کا بجٹ ایک جگہ اکٹھا کرے، اس بجٹ سے انڈومنٹ فنڈ قائم کر لے، اس فنڈ میں ہر سال تعلیم اور اسپورٹس کا بجٹ ڈال دیا جائے یوں اس فنڈ میں ہر سال اضافہ ہوتا رہے گا، حکومت اس فنڈ سے سلیبس پر ریسرچ کرائے، پورے صوبے کے ٹیچرز کو جدید ٹریننگ دے، مفت تعلیم پانے والے بچوں کو یونیفارم، جوتے اور کتابیں فراہم کرے، ملک میں سستے آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، ڈیجیٹل لائبریریاں اور ای لائبریریاں تیار کروائے اور طالب علموں کو فراہم کرے.
دنیا کی مشہور کتابیں بڑے پیمانے پر شائع کروا کر طالب علموں میں تقسیم کرے، پانچ سو گھروں کے درمیان ایک چھوٹا اسپورٹس اسٹیڈیم، چھوٹا سا پارک اور چھوٹی سی لائبریری بنوائے، حکومت امتحانات کا سسٹم اپنے ہاتھ میں رکھے، پورے ملک یا پورے صوبے میں ایک مضمون کا امتحان ایک ہی دن ہو اور یہ دن کسی بھی صورتحال میں تبدیل نہ کیا جائے، اس سے ملک یا صوبے بھر کے والدین کو بھی اپنا شیڈول تیار کرنے میں سہولت ہو جائے گی اور بچے بھی داخلے سے قبل امتحان کے دنوں سے واقف ہوں گے۔
حکومت اس فنڈ سے دیہاتی علاقوں میں کام کرنے والے اساتذہ کو مکان بنوا کر دے اور انھیں دو، دو ایکڑ مفت زمین بھی دے یوں استاد خوشی سے شہروں سے دیہات میں چلے جائیں گے، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کو لیپ ٹاپ پر شفٹ کر دیا جائے، کوئی طالب علم اس وقت تک کالج میں داخل نہ ہو سکے جب تک اس کے پاس لیپ ٹاپ نہ ہو، اس اقدام سے ملک میں تعلیم کے معیار میں بھی اضافہ ہو گا اور ملک میں لیپ ٹاپ انڈسٹری بھی ڈویلپ ہو گی اور اس سے نئی جابز کھلیں گی۔
میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں جاتا رہتا ہوں، میں وہاں طالب علموں کی ذہنی اور علمی صورتحال دیکھ کر شدید افسوس کا شکار ہوتا ہوں، ہمیں یہ ماننا پڑے گا ہمارا یونیورسٹی طالب علم نالج، ٹیکنالوجی اور اعتماد میں یورپ کے پرائمری نوجوان تک کا مقابلہ نہیں کر سکتا، میں ہر کلاس سے پوچھتا ہوں "آپ میں کتنے لوگ کتاب اور اخبار پڑھتے ہیں" پوری کلا س سے بمشکل ایک آدھ ہاتھ اٹھتا ہے اور اس کا مطالعہ بھی چند سطحی ناولوں تک محدود ہوتا ہے، یہ لوگ کورس میں شامل کتابیں تک نہیں پڑھتے، ان کا کورس نالج نوٹس تک محدود ہوتا ہے اور یہ نوٹس بھی یونیورسٹیوں میں دس دس، پندرہ پندرہ سال سے فوٹو اسٹیٹ ہو رہے ہیں.
حکومت کو فوری طور پر گریجوایشن اور پوسٹ گریجوایشن کا معیار بڑھا دینا چاہیے، گریجوایشن کے کورس اور امتحانات اتنے سخت ہونے چاہئیں کہ کالج میں داخل ہونے والے صرف تیس فیصد طالب علم گریجوایشن کر سکیں باقی طالب علم ایف اے یا ایف ایس سی کے بعد کام یا کاروبار کریں، یونیورسٹیوں کا پورا سلیبس ریسرچ پر شفٹ کر دیا جائے، یونیورسٹی میں کسی طالب علم کا امتحان نہ ہو، یہ پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس کی طرح کسی ایک موضوع پر ریسرچ کریں، ملک کے اعلیٰ ترین دماغ ان کا طویل انٹرویو لیں، ان کی ریسرچ کی پڑتال کریں اور جس کی محنت اور کام سے مطمئن ہوں صرف اسے ڈگری دی جائے، یونیورسٹی کو یونیورسٹی ہونا چاہیے ڈگریاں تقسیم کرنے اور بیروزگاری پھیلانے کی فیکٹری نہیں۔
ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے انڈومنٹ فنڈز ہونے چاہئیںاور یونیورسٹیوںکو اپنے اخراجات ان فنڈز سے پورے کرنے چاہئیں۔ یونیورسٹیوں کی تعلیم مہنگی بھی ہونی چاہیے تاہم جو طالب علم اپنی ذہانت اور محنت ثابت کرتا جائے اس کی فیس معاف ہوتی جائے اور آخر میں اسے حکومت یا یونیورسٹی کی طرف سے رول ماڈل اسکالر شپ دیا جائے۔ یونیورسٹی میں بھی اسکولوں اور کالجوں کی طرح پچاس فیصد طالبعلم بھاری فیس ادا کریں، پچیس فیصد کی فیس آدھی ہو جب کہ باقی پچیس فیصد غریب مگر ذہین طالب علموں کی فیس معاف کر دی جائے۔
یونیورسٹیوں میں کسی ڈیپارٹمنٹ کے کسی سیشن میں تیس سے زائد طالب علم نہ لیے جائیں اور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے عمر کی حد بھی ختم کر دی جائے، کوئی بھی شخص مرنے تک یونیورسٹی میں داخل ہو سکے، اس سے بھی صرف اہل لوگ یونیورسٹی آ سکیں گے، حکومت پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک ہر کلاس کے لیے لٹریچر، نان فکشن، آٹو بائیو گرافی اور سائنس کی دس کتابیں لازم قرار دے دے، پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک دنیا کا قدیم لٹریچر پڑھایا جائے اور دسویں کے بعد یونیورسٹی تک جدید ترین بیسٹ سیلر کتابیں پڑھائی جائیں، ان کتابوں کا بے شک امتحان نہ ہو لیکن طالب علموں کے لیے یہ کتابیں پڑھنا ضروری ہوں.
اسکولوں میں اسپورٹس لازم ہو، تمام طالب علم کوئی نہ کوئی کھیل کھیلیں اور ہر سال کھیلوں کے میلے ضرور ہوں اور ان میں تمام تعلیمی ادارے حصہ لیں، تمام سرکاری اسکولوں کو ووکیشنل اداروں میں تبدیل کر دیا جائے، یہ اسکول چیمبر آف کامرس، شہر کے تاجروں اور انڈسٹریل زونز کے حوالے کر دیے جائیں، حکومت جدید ترین ووکیشنل سلیبس بنوائے اور شہروں کے تاجر اسکولوں کی عمارت میں بے کار نوجوانوں کو ووکیشنل تعلیم دلوانا شروع کر دیں۔
ہائی اسکول کے طالب علموں کے لیے بھی ان اداروں میں دو گھنٹے ٹریننگ لازمی ہو، طالب علم ان اداروں میں صرف سائیکل پر آ سکیں، اس سے کلاس ڈیفرنس بھی ختم ہو گا، طالب علموں کی ورزش بھی ہو جائے گی، ملک میں سائیکل کی انڈسٹری بھی فروغ پائے گی اور پٹرول کی بچت بھی ہو گی، ہر ووکیشنل سینٹر کوئی ایک انڈسٹری بھی پروان چڑھائے، اس سے طالب علموں کو ٹیکنیکل نالج بھی ملے گا، اسپیشلائزیشن بھی ہو گی اور انڈسٹری بھی ترقی کرے گی۔