خدا کے لہجوں میں بات کرنے والے لوگ
سلطان راہی اور مصطفی قریشی پاکستان فلم انڈسٹری کے دو طلسماتی نام تھے، ملک میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب فلم ساز کہانی سے پہلے ان دونوں کو بک کرتے تھے اور فلم بننے سے پہلے ہی ہٹ ہو جاتی تھی، یہ دونوں فلم کی کام یابی کی ضمانت ہوتے تھے، فلموں کے اس زمانے میں مصطفی قریشی ولن ہوتے تھے اور سلطان راہی ہیرو، یہ دونوں مستقل ہوتے تھے۔
تاہم ہیروئن اور کہانی بدلتی رہتی تھی، یہ سلسلہ ٹھیک چل رہا تھا لیکن پھر 9 جنوری 1996کی رات آئی اورسلطان راہی اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے گوجرانوالہ کے قریب ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہو گئے، میں اس وقت روزنامہ پاکستان میں معمولی سا سب ایڈیٹر تھا، مظہر بخاری شفٹ انچارج ہوتے تھے، انھوں نے بہت خوب صورت سرخی بنا کر صحافت کی ٹرافی جیت لی، سرخی تھی "فن کا سلطان راہ میں مارا گیا" عباس اطہر اردو صحافت میں سرخیوں کے سچن ٹنڈولکر تھے، وہ یہ سرخی دیکھ کر مظہر بخاری کو سو روپے کا دستخط شدہ نوٹ دینے پر مجبور ہو گئے۔
بخاری صاحب نے بعدازاں صحافت ترک کر دی اور آسٹریلیا نقل مکانی کر گئے، میں سلطان راہی کی طرف واپس آتا ہوں، 9 جنوری 1996 کی رات صرف سلطان راہی قتل نہیں ہواتھا مصطفی قریشی کا کیریئر بھی فوت ہو گیا تھا، مصطفی قریشی کی عمر اس وقت 81 برس ہے، یہ 1996 تک ستارہ بن کر چمک رہے تھے لیکن جوں ہی سلطان راہی غروب ہواسکرین مصطفی قریشی کو بھی بھول گئی۔
ہم زندگی میں لوگوں سے نفرت کرتے ہیں، ہمارا لوگوں کے ساتھ مقابلہ بھی ہوتا ہے، یہ ایک قدرتی عمل ہے، انسان ایک ایسا جانور ہے جسے ہر لمحہ دشمن چاہیے ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے ہمارے مخالف اکثر اوقات ہماری بقا بن جاتے ہیں، ہم ان کی وجہ سے بڑے ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک بڑے رہتے ہیں جب تک ہمارے دشمن سلامت رہتے ہیں، شاید اسی لیے صوفی شاعر میاں محمد بخش نے کہا تھا، دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مرجاناں اور سجن ہم ہوتے ہیں اور ہم اکثر اوقات دشمن کے ساتھ ہی مر جاتے ہیں، یہ یاد رکھیں دنیا کی کوئی بھی اسپورٹس ہو یہ ہمیشہ دو ٹیموں کے درمیان کھیلی جاتی ہے، میدان میں اگر ایک ٹیم نہیں آئے گی تو دوسری بھی نہیں کھیل سکے گی۔
کھیل میں جب تک ہارنے والا نہیں ہوتا جیتنے والا بھی نہیں ہوتا لہٰذا آپ اگر جیتنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے مخالف کا وجود بھی ماننا پڑتا ہے اور اس کی عزت بھی کرنا پڑتی ہے کیوں کہ اگر وہ میدان چھوڑ جائے گا یا آپ کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دے گا تو پھر آپ بھی جیت نہیں سکیں گے اور اگر فرض محال ریفری آپ کو فاتح قرار دے بھی دے تو بھی آپ کی فتح، فتح نہیں ہوگی اورہم اگر آج کی پاکستان تحریک انصاف کا تجزیہ کریں تو ہمیں یہ سمجھتے دیر نہیں لگے گی حکومت میچ کھیلنے کی بجائے مخالفین کو اسٹیڈیم سے باہر پھینکنے میں مصروف ہے، یہ لوگ ایسے مصطفی قریشی بن چکے ہیں جو کسی سلطان راہی کا وجود ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ کوئی شخص ہو یا ادارہ۔
تحریک انصاف اس وقت تین قسم کے لوگوں میں بٹی ہوئی ہے، پی ٹی آئی کے پرانے اور جینوئن ورکرز، یہ لوگ شروع دن سے پارٹی کے ساتھ ہیں، یہ ماضی میں ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں مار کھاتا تھا اور یہ آج اقتدار کی گلیوں میں اپنی پارٹی سے کوڑے کھا رہا ہے لیکن یہ لوگ ا س کے باوجود آج پارٹی کی تصویر کے کسی بھی ڈاٹ میں شامل نہیں ہیں لہٰذا ان کے دل دکھی اور جذبات زخمی ہیں، دوسرے لوگ ان پارٹیوں کا جلا ہوا سالن ہیں جن کو عمران خان روز ملک کی تباہی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، حکومت کی ساٹھ فیصد کابینہ آج ان لوگوں پر مشتمل ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو کل تک عمران خان کو معمولی کھلاڑی، تانگہ پارٹی اور فیس بک لیڈر کہتے تھے اور عمران خان انھیں اپنا چپڑاسی رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے، آپ جس دن تحقیق کریں گے آپ کو آج کے ہر سیاسی فساد کے پیچھے یہ لوگ ملیں گے۔
یہ اپنی پرانی پارٹیوں سے شرمندہ بھی ہیں اور اپنے ماضی کے اسیر بھی ہیں چناں چہ یہ نہیں چاہتے عمران خان کبھی آصف علی زرداری، میاں شہباز شریف یا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بیٹھیں، آپ خود سوچیے عمران خان جس دن بلاول بھٹو یا آصف علی زرداری سے ملاقات کے لیے جائیں گے تو وہ فواد چوہدری جو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے پولیٹیکل افیئرز اور انفارمیشن کے معاون خصوصی تھے، وہ شاہ محمود قریشی جو آصف علی زرداری کو اپنا لیڈر اور بلاول بھٹو کو جناب چیئرمین کہتے تھے، وہ فہمیدہ مرزا جو آصف علی زرداری کی بہن ہوتی تھیں، وہ فخر امام جن کی اہلیہ عابدہ حسین محترمہ بے نظیر بھٹو کے ٹرک میں سوار ہوتی تھیں اور جن کے مشورے پر محترمہ نے بلاول کے ساتھ زرداری اور بھٹو دونوں لگائے تھے۔
وہ بابر اعوان جنھوں نے اپنا وکالتی لائسنس داؤپر لگا لیا تھا لیکن آصف علی زرداری کے خلاف سوئس کورٹ کو خط نہیں لکھا تھااور وہ اعظم سواتی جو مولانا فضل الرحمن کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے اور یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے اور اسی طرح جب عمران خان اور شبہاز شریف اکٹھے بیٹھیں گے تو عمر ایوب سمیت وہ تمام لوگ جو شریف برادران کو قائد محترم، فخر پاکستان اور شیر پنجاب کہا کرتے تھے وہ ایک دوسرے اور اپنی پرانی پارٹیوں کے قائدین سے کیسے آنکھیں ملائیں گے؟
لہٰذا ان کی بقا اسی میں ہے یہ وزیراعظم کو اپوزیشن اور اپوزیشن کو وزیراعظم کے قریب نہ آنے دیں اور یہ آج تک اس میں کام یاب ہیں، میں آج دعوے سے کہتا ہوں یہ ملک اگر خدانخواستہ ٹوٹ بھی گیا تو بھی یہ لوگ عمران خان کو اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھنے دیں گے اور تیسرے لوگ چھاتہ بردار ہیں، یہ کمال لوگ ہیں، یہ ہر پارٹی کو نصیب ہو جاتے ہیں، یہ یورپ، امریکا، کینیڈا اور عرب ملکوں کے باسی ہوتے ہیں، یہ جب وہاں کوئی کمال نہیں کر پاتے تو یہ مختلف سیاسی قائدین کے خدمت گزاربن جاتے ہیں اور جب یہ قائدین حکومت میں آ جاتے ہیں تو یہ اپنی خدمات کا جی بھر کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت بھی اس وقت بری طرح ان چھاتہ برداروں کے نرغے میں ہے، یہ لوگ پتا نہیں کیسے اور کہاں سے آئے اور سیدھا وزیراعظم کے کان تک پہنچ گئے اور ان میں زہر گھولنا شروع کر دیا، وزیراعظم کے یہ مشیر تین کام کر رہے ہیں، یہ ان کی میڈیا سے جنگ کرارہے ہیں، ان مشیروں نے پہلے وزیراعظم کے ذریعے سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی کوشش کی، پھر پاکستان میڈیاڈویلپمنٹ اتھارٹی کا بل متعارف کرایا اور یہ آج کل وزیراعظم کو بتا رہے ہیں کس اینکر کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے، ہمیں لائیو شوز میں کیا کرنا چاہیے اور ہمیں کس شخص کو کس شو میں بھجوانا چاہیے اوراسے کس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ دوسرا یہ وزیراعظم کی عدلیہ سے لڑائی کرانا چاہتے ہیں۔
یہ انھیں بار بار بتا رہے ہیں عدالتیں سیاسی مجرموں کی ضمانت لے لیتی ہیں لہٰذا ہمیں انھیں پابند کرنا ہوگا اور تیسرا یہ حکومت کی الیکشن کمیشن سے لڑائی کرانا چاہتے ہیں اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب افغانستان سے امریکی فوج واپس جا رہی ہے، طالبان افغانستان کے 407اضلاع میں سے 142اضلاع پر قابض ہو چکے ہیں اور یہ تین لاکھ مجاہدین پر مشتمل فوج بھی بنا چکے ہیں، بھارت تاجکستان کی درخواست پر اپنی فوج افغان تاجک سرحد پر لگا رہا ہے، نریندر مودی مسلمان کشمیری قیادت سے مذاکرات کر رہا ہے۔
پاکستان کا نام 27 میں سے 26شرائط پوری ہونے کے باوجود ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں نکل رہا، آئی ایم ایف نے قرض کی قسط روک دی ہے اور امریکی صدر جوبائیڈن افغانستان سے افواج کے انخلاء کے وقت بھی ہمارے وزیراعظم کو "کر ٹسی کال" کے قابل نہیں سمجھ رہا اور اس نازک وقت میں ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ حکومت کو میڈیا، عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے لڑایا جا رہا ہے، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن تک موجود نہیں، یہ ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھتی اور اس عالم میں اگر ادارے بھی لڑ پڑے تو پھر کیا ہوگا؟ آپ خود سمجھ دار ہیں اور اس کا کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہو گا، آپ خودفیصلہ کر لیجیے۔
میں 1992میں صحافت میں آیا تھا، میں نے اس دوران 12حکومتوں کی رعونت دیکھی اور پھراس رعونت کو خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتے بھی دیکھا لیکن آپ یقین کریں میں جتنا ان لوگوں کو خدا کے لہجے میں بولتا ہوا دیکھ رہا ہوں اتنا غرورمیں نے آج تک کسی حکومت میں نہیں دیکھا تھا، پرفارمنس دیکھیں تو انسان سر پکڑ لیتا ہے۔
دعوے سنیں تو ہنسی نکل جاتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں یہ لوگ جب تخت سے اتریں گے تو اس وقت ان کی انا، تکبر اور رعونت لوگوں کا سامناکیسے کرے گی؟ اور یہ لوگ جب جائیں گے تو ملک اس وقت کہاں ہو گا؟ اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم کرے لیکن آپ یقین کریں ہم بڑی تیزی سے کسی بڑے حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں، کیوں؟ کیوں کہ قدرت انسانوں اور قوموں کے سارے جرائم معاف کر دیتی ہے لیکن یہ تکبر معاف نہیں کرتی اور پورا ملک اس وقت اکڑی ہوئی گردنوں کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے، قدرت آخر یہ میچ کب تک برداشت کرے گی؟ کبھی تو سیٹی بجنی ہے اور کبھی تو کراؤڈ نے حدیں پھلانگ کر میدان میں آنا ہے، ذرا تصور کیجیے اس وقت کیا ہوگا؟