کھوتے بھی
سید احمد شاہ افغان سیاست دان تھے، صدر اشرف غنی کی کابینہ میں 2018 سے2020 تک مواصلات کے وزیر رہے، صدر کے ساتھ اختلافات ہوئے، دسمبر 2020 میں وزارت سے مستعفی ہوئے اور خاندان سمیت جرمنی شفٹ ہو گئے، یہ اس وقت "گیپ زگ" شہر میں رہتے ہیں، چھوٹا سا فلیٹ ہے، خاندان تنگی ترشی کے ساتھ گزارہ کر رہا ہے، سید احمد شاہ سائیکل پر پیزا ڈیلیوری کا کام کرتے ہیں، انھیں دو یورو فی ڈیلیوری ملتی ہے، ٹپ اس کے علاوہ ہوتی ہے، یہ سارے دن کے کام کے بعد تیس یورو کماتے ہیں۔
گیپ زگ کے اخبار ڈیلی پیپلز نے چند دن قبل ان کی پیزا ڈیلیوری کی تصاویر بھی شایع کیں اور انٹرویو بھی، سید احمد شاہ کا کہنا تھا "افغانستان کے حالات خراب ہو رہے تھے، طالبان واپس آتے نظر آ رہے تھے، ہمیں اپنا مقدر دیوار پر لکھا نظر آ رہا تھا، اشرف غنی اور ان کے دوست اس دوران مجھ سے ناراض ہو گئے، مجھے زبردستی استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا، میں جرمنی آیا اور اب سادہ اور لوئر مڈل کلاس زندگی گزار رہا ہوں " سید احمد شاہ ملکوں، اقتدار کی تبدیلی اور عروج وزوال کی تازہ ترین مثال ہے۔
یہ مثال ثابت کرتی ہے ملکوں میں جب انقلاب آتے یا ملک جب ٹوٹ جاتے ہیں تو پھر وہ لوگ یورپی ملکوں میں پیزے ڈیلیور کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے ان کا ملک برباد ہوا تھا، ملکوں کے سیاہ و سفید کے وہ مالک بھی گلی گلی، سڑک سڑک ذلیل ہوتے ہیں جن کی ضد اور انا کی صلیب پر عوام لٹک گئے، سید احمد شاہ ہمارے جیسے ملکوں کے حکمرانوں کے لیے نشان عبرت ہیں۔
ہم پچھلے دو ماہ سے امریکا کو مشورہ دے رہے ہیں یہ اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرے اور تسلیم کرے دنیا کی واحد سپر پاور بھی کسی ملک کو زبردستی کنٹرول میں نہیں رکھ سکتی، امریکا یہ بھی مانے اگرکوئی قوم غلامی قبول نہ کرنا چاہے تو پھر اسے دنیا بھر کی فوجیں، دو ٹریلین ڈالر کے اخراجات، جدید ترین اسلحہ اور 20 سال کا قبضہ بھی زیرنگیں نہیں رکھ سکتا اور امریکا اور روس جیسی طاقتیں بھی پشاوری چپل اور رات کے باسی ٹکڑوں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں، ہم امریکا کو بے شک یہ مشورے دیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے گریبان میں بھی ضرور جھانکنا چاہیے۔
افغانستان صرف امریکا یا نیٹو کے منہ پر طمانچہ ثابت نہیں ہوا بلکہ یہ ہمارے لیے بھی لائف ٹائم لیسن ہے، قدرت نے ہمیں بھی اپنی 40 سال کی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کا موقع دیا ہے، ہمیں بھی چاہیے ہم اپنے پچھلے 40 سالوں کا کھلے دل سے تجزیہ کریں اور یہ مان لیں، یہ ملک ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن جیسی حماقت کے باوجود لبرل، ترقی پذیر اور اقوام عالم میں قابل عزت تھا، ہماری یونیورسٹیوں میں غیرملکی طالب علموں کے لیے الگ ہاسٹل ہوتے تھے، یورپ اور امریکا ہمارے میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے پورے پورے بیچزاٹھا کر لے جاتا تھا اور یہ لوگ دو برس میں کروڑپتی بن جاتے تھے۔
ملک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا لیکن لوگ فوجی اقتدار کو پسند نہیں کر رہے تھے، فوج کے اندر بھی "الیکشن کرائیں اور واپس آئیں " کے خیالات موجود تھے اور اس وقت کے جنرلز ان خیالات سے گھبراتے تھے، شیعہ اورسنی ایک دوسرے کے گھروں میں بھی آتے جاتے تھے اور مذہبی تقریبات میں بھی شریک ہوتے تھے، ملک میں منشیات، اسلحہ کی نمائش، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی روایات نہیں تھیں، لوگ ایئر گنز بھی چھپا کر باہر لے جاتے تھے۔
سول بیورو کریسی تگڑی تھی، جنرل ضیاء الحق بھی حکومت چلانے کے لیے سول بیوروکریسی اور عدلیہ کے محتاج تھے، ملازمتیں زیادہ اور امیدوار کم ہوتے تھے، سرکاری اسکولوں کے بچے انگلش میڈیم بچوں سے زیادہ ترقی کرتے تھے، دہشت گردی کا نام و نشان تک نہیں تھا، سفارت خانوں کی بیرونی دیواریں نہیں ہوتی تھیں۔
لوگ سیدھے سفارت کاروں کے دفتروں تک چلے جاتے تھے اور ملک میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح آتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں رہتے تھے لیکن پھر ہم نے ایک غلطی کی، ہم جنرل ضیاء الحق کے ناجائز اقتدار کو جائزبنانے کے لیے افغانستان کے محاذ میں کود پڑے، امریکا نے جنرل ضیاء الحق کو یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا اور ہم نے اس خوشی میں پورا ملک تنور میں ڈال دیا۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا قوم کو جنرل ضیاء الحق کے یونیفارم اقتدار کی قیمت کلاشنکوف کلچر، ہیروئن، شیعہ سنی فسادات، مہاجر پنجابی نفرت، دہشت گردی، کرپشن، سول بیوروکریسی کے زوال اور پیسے کی دوڑ کی شکل میں ادا کرنا پڑی، آپ 1980کے پاکستان اور 1990کے پاکستان کا تجزیہ کر لیں، آپ کو زمین آسمان کا فرق ملے گا، ملک صرف دس برسوں میں ہر شعبے میں زوال کے گڑھے میں گر گیا، ہم اگر اس قربانی کے بعد بھی افغانوں کا دل جیت لیتے تو بھی غنیمت ہوتا لیکن آپ بدقسمتی دیکھیے، 50 لاکھ مہاجرین کی خدمت اور پرورش کے باوجود افغان ہم سے شدید نفرت کرتے تھے۔ یہ آج بھی کرتے ہیں، ہمارے لیے اچھا ہوتا ہم اگر اس تجربے کے بعد بھی سنبھل جاتے، ہم یہ فیصلہ کر لیتے ہم آیندہ چند لوگوں کے اقتدار کے لیے ملک قربان نہیں کریں گے لیکن ہم نے 2001 میں ایک بار پھر ماضی کی غلطی دہرائی اور اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیں، مجھے جنرل شاہد عزیز نے بتایا تھا نائن الیون کے بعد جب کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف کو فون کر کے سات شرائط پیش کی تھیں تو جنرل مشرف کے ساتھیوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کی تھی۔
ہم نے نصف درجن لوگوں کے اقتدار کے لیے 2001 میں جتنی بڑی اور سنگین غلطیاں کیں ان کی قبریں آج بھی زندہ ہیں۔ 83 ہزار سیکیورٹی اہلکار اورسویلین جانوں سے گزر گئے، تحریک طالبان پاکستان بنی اور اس نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، 200 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، مذہبی منافرت اتنی بڑھ گئی کہ آج ہم موبائل کے سگنل کی بندش اور کرفیو کے بغیر محرم اور بارہ ربیع الاول نہیں گزار سکتے، کراچی خوف اور دہشت کا قبرستان بن گیا، سوات، فاٹا اورنارتھ وزیرستان ہمارے ہاتھوں سے پھسلتے پھسلتے بچے، ہماری پوری انڈسٹری تباہ ہو گئی۔
سیاحت جواب دے گئی اور سفارت خانے مورچے بھی بن گئے اور نفرت کی چراہ گاہیں بھی، ہم اگر زندہ قوم ہوتے تو ہم یہ ضرور سوچتے ہمیں آخر اس قربانی کا کیا فائدہ ہوا؟ ہمیں مالیاتی پابندیوں، 429 ڈرون حملوں، ڈو مور، تجارتی کوٹوں اور "یہ لوگ پیسوں کے لیے ماں بھی بیچ سکتے ہیں " جیسے طعنوں کے سوا کیا ملا؟ ہم یہ ضرور سوچتے ہم نے صرف ایک شخص کے اقتدار کے لیے پورے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا، ہم آج آئی ایم ایف کے جبڑے تلے بھی ہیں اور ایف اے ٹی ایف کی چکی میں بھی پس رہے ہیں۔
ہم اگر ان قربانیوں کے بعد بھی امریکا اورافغانستان کا دل جیت لیتے تو بھی بڑی بات ہوتی لیکن آج امریکا کی "محبت" کا یہ عالم ہے جوبائیڈن نے افغان انخلاء کے دوران بھی ہمارے وزیراعظم کو فون نہیں کیا جب کہ افغانوں نے بھارت اور را کو بلا کر ہماری مغربی سرحدوں پر لا بٹھادیا تھا اور بھارت 15 سال فاٹا اور بلوچستان میں "اینٹی پاکستان" آپریشن کرتا رہا، آج افغانی بھی ہم سے نفرت کرتے ہیں۔
طالبان کے دلوں میں بھی ماضی کی تلخیاں موجود ہیں اور ہم جن ملکوں کی تابعداری میں مرتے رہے وہ بھی ہم سے ناراض ہیں چناں چہ ہم نے پھر کیا پایا؟ ہم اگر زندہ قوم ہیں تو پھر ہمیں 1980اور 2001دونوں خوف ناک غلطیوں کا تجزیہ کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہو گا ہم نے تاریخ کے دونوں اہم موڑ پر اپنے سارے فیصلے چند لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیے تھے اور ان لوگوں نے دونوں مرتبہ قوم کو اپنے ذاتی اقتدار کے عوض فروخت کر دیا تھا اور قوم اس کے بعد قوم نہیں رہی تھی، عبرت کا نشان بن گئی تھی۔
آج اگر طالبان اپنی اصلاح کر رہے ہیں، یہ اگر خواتین، ٹیلی ویژن، بینک، حکمت یار، عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کی گنجائش پیدا کر رہے ہیں اور یہ اگر خود کو وقت کے مطابق ڈھال رہے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم ایک بار بیٹھ کر اداروں کے درمیان موجود عدم اعتماد کا تجزیہ کیوں نہیں کرتے؟ ہم حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اکٹھا کیوں نہیں بٹھاتے اور ہم ایک ہی بار سسٹم کی خرابیاں دور کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا ملک میں رول آف لاء نہیں ہونا چاہیے، کیا الیکٹورل سسٹم فول پروف اور قابل اعتماد نہیں ہونا چاہیے، کیا اہم پوزیشنوں پر اہل لوگوں کو نہیں ہونا چاہیے۔
کیا معاشی پالیسیاں تیس چالیس پچاس سال کے لیے فکس نہیں ہونی چاہییں، کیا بھرتی اور ترقی کا سسٹم میرٹ پر نہیں ہونا چاہیے، کیا پالیسیوں میں استحکام نہیں ہونا چاہیے اور کیا ہمیں ایک ہی بار یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہیے ہم آج سے کسی ملک میں مداخلت نہیں کریں گے اور اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کر لیں گے۔
آخر اس میں حرج کیا ہے؟ ہم 74 برسوں سے ٹھڈے، مکے اور لاتیں کھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انسان نہیں بن رہے، کیوں، آخر کیوں؟ چلیں ہم انسان نہ بنیں شاید ہمارے نصیب ہی میں انسان بننا نہیں لکھا لیکن کیا ہم گدھے بھی نہیں بن سکتے؟ اتنی مار کھا کر تو کھوتے بھی سمجھ دار ہو جاتے ہیں، وقت نے امریکا اور طالبان دونوں کو سمجھا دیا لیکن ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں، کیا ہم جانوروں سے بھی بدتر ہیں؟