Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Hai Koi Sacha Aashiq e Rasool

Hai Koi Sacha Aashiq e Rasool

ہے کوئی سچا عاشق رسولؐ

نام تھا ولیم بیل، ڈاکٹر ولیم جیمز بیل، وہ نباتات کا ماہر تھا، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا، وہ گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ چلتا تھا، وہ یونیورسٹی جاتا تھا، طالب علموں کو لیکچر دیتا تھا اور شام کو گھر واپس آجاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے خصوصی ذہانت سے نواز رکھا تھا، وہ بیج کو دیکھ کر بتا دیتا تھا اس کا سٹہ کتنا بڑا ہوگا اور اس میں کتنے دانے ہوں گے، وہ پودوں کے حسب نسب کا حافظ بھی تھا، لوگ اس کے سامنے پودے کا نام لیتے تھے اور وہ اس کی پوری تاریخ بیان کر دیتا تھا۔

اس کے طالب علم بھی اس کا بے انتہا احترام کرتے تھے، وہ وقت کا پابند تھا، عاجز تھا، لوگوں کی غلطیاں کھلے دل سے معاف کر دیتا تھا، فیملی مین تھا، خاندان کو بھرپور وقت دیتا تھا، یار باش تھا، دوستوں کو مکمل کمپنی دیتا تھا اور ریسرچ کا شیدائی تھا، اسے جب بھی وقت ملتا تھا وہ لیبارٹری یا لائبریری کی طرف نکل جاتا تھا گویا ڈاکٹر ولیم جیمز بیل ایک بھرپور مطمئن زندگی گزار رہا تھا لیکن پھر ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اور اس کی زندگی کا دھارا بدل گیا۔

یہ 1870ء کی بات تھی، وہ ایک نباتاتی تجربے کے لیے مشی گن کے کسی گاؤں میں گیا، اس کے طالب علم بھی اس کے ساتھ تھے، یہ لوگ کھیت میں کام کر رہے تھے، گاؤں کا ایک کسان انھیں دیکھ رہا تھا، کسان نے اچانک ان لوگوں سے پوچھا "آپ کیا کر رہے ہیں" طالب علموں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ کرایا اور پھر بتایا "تم نہیں جانتے یہ کون ہیں"۔ کسان نے احمقوں کی طرح گردن ہلا کر جواب دیا "نہیں، میں نہیں جانتا یہ کون ہیں" طالب علموں نے بتایا "یہ ڈاکٹر ولیم بیل ہیں۔

نباتات کے ایکسپرٹ" کسان نے ڈاکٹر کا نام پہلی بار سنا تھا لیکن وہ طالب علموں کے احترام اور پروفیسر کی شخصیت سے متاثر ہوگیا، وہ آگے بڑھا، پروفیسر کے قریب پہنچا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا "پروفیسر صاحب پھر آپ میرا ایک مسئلہ حل کر دیں" پروفیسر نے مسکراتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور کہا "جی فرمائیے" کسان نے عرض کیا "میں جو بھی فصل بوتا ہوں اس میں غیر ضروری جڑی بوٹیاں اور گھاس اگ آتی ہے، یہ گھاس اور یہ بوٹیاں میری فصل کو تباہ کر دیتی ہیں، ان بوٹیوں کو تلف کرنے میں میرا بہت وقت اور سرمایہ ضایع ہو جاتا ہے۔

کیا آپ مجھے ان سے بچاؤ کا کوئی طریقہ بتا سکتے ہیں؟ اگر یہ ممکن نہیں تو کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں، میں انھیں کتنی بار اکھاڑوں جن کے بعد یہ دوبارہ نہ اگ سکیں" یہ سوال بہت مشکل تھا، دنیا میں انسان نے جب سے کھیتی باڑی شروع کی، یہ اس وقت سے فالتو جڑی بوٹیوں سے لڑ رہا ہے، آپ اپنے لان میں پھول اگاتے ہیں لیکن پھول کے ساتھ گھاس اور جڑی بوٹیاں بھی آگ آتی ہیں، آپ کھیت میں مکئی، گندم یا جو بوتے ہیں مگر ان کے ساتھ کانٹے دار ڈھیٹ جڑی بوٹیاں بھی نکل آتی ہیں اور آپ اپنے فارم ہاؤس میں سبزیاں لگاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ کڑوی اور زہریلی کھمبیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔

یہ کھمبیاں، یہ جڑی بوٹیاں اور یہ گھاس فصل کی خوراک، پانی اور کھاد چوس لیتی ہیں اور یوں کسان کو توقع سے کم فصل ملتی ہے، یہ ایک دائمی مسئلہ ہے اور انسان روز اول سے اس مسئلے سے نبرد آزما ہے، انسان نے جس دن اس مسئلے پر قابو پا لیا اس دن زمین کی پیداوار میں تیس فیصد اضافہ ہو جائے گا یعنی ہم آج کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ اناج، سبزیاں اور پھل بھی حاصل کریں گے اور کسانوں کی کاسٹ اور اناج کی قیمت بھی تیس فیصد کم ہو جائے گی اور یہ اتنا ہی بڑا زرعی انقلاب ہوگا جتنا بڑا انقلاب "شیل گیس" ثابت ہوئی، آپ اندازہ کیجیے۔

امریکا دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا لیکن شیل گیس کی ایک ٹیکنالوجی نے دنیا کے سب سے بڑے آئل امپورٹر کو دنیا کا سب سے بڑا آئل ایکسپورٹر بنا دیا، یہ اس ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ دنیا میں 115 ڈالر فی بیرل بکنے والا پٹرول چھ ماہ میں 30 ڈالر فی بیرل پر آ گیا، پٹرول کی قیمت 85 ڈالر کم ہوگئی، کیا یہ انقلاب نہیں؟ سائنس دان اگر اسی طرح فصلوں کی جڑی بوٹیاں اور گھاس کو تلف کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کر لیتے ہیں تو دنیا کے وہ تمام ملک جو اس وقت خوراک درآمد کرنے پر مجبور ہیں وہ چھ ماہ میں خوراک برآمد کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور اگر یہ ممکن نہ ہوا تو بھی خوراک کی کمی کے شکار ملک خود کفیل ضرور ہو جائیں گے چنانچہ کسان کا سوال بروقت بھی تھا اور ضروری بھی۔

ڈاکٹر ولیم بیل نے سوال سنا، مسکرایا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر بولا "میں معافی چاہتا ہوں، میرے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں" کسان نے یہ جواب سن کر قہقہہ لگایا اور بولا " پھر تم خود کو کس چیز کا ایکسپرٹ کہتے ہو، تم کم از کم پروفیسر کہلانا بند کر دو" کسان یہ کہہ کر چلا گیا لیکن اس کے لفظ ڈاکٹر ولیم جیمز بیل کے دل میں ترازو ہو گئے، اس نے جیب سے رومال نکالا، ہاتھ صاف کیے، طالب علموں کو ساتھ لیا اور یونیورسٹی میں واپس آگیا۔

پروفیسر اس کے بعد سات سال تک سوچتا رہا یہاں تک کہ اس نے انسانی تاریخ کا طویل ترین تجربہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، یہ تجربہ 1879ء میں شروع ہوا اور یہ 2100ء میں 237 برس بعد مکمل ہوگا، ڈاکٹر ولیم جیمز بیل نے 23 قسم کی جڑی بوٹیاں اور گھاس منتخب کی، ان کے پچاس پچاس صحت مند بیج لیے، ان بیجوں کو 20 بوتلوں میں ڈالا، بوتلوں میں نم دار مٹی ڈالی، ان کے منہ کھلے رکھے، ان میں سے چند بوتلیں سیدھی اور چند الٹی رکھ دیں، ان میں سے چند مٹی میں دبا دی گئیں، چند کھلے آسمان کے نیچے رکھ دی گئیں اور چند تنگ و تاریک کمروں میں بند کر دی گئیں اور ان میں سے چند گرم جگہوں اور چند ٹھنڈے مقامات پر رکھ دی گئیں، یہ بوتلیں ڈھائی سو سال کے لیے رکھی گئی ہیں۔

ان میں سے ہر بوتل پانچ سال بعد کھولی جاتی ہے، اس کا کیمیائی اور نباتاتی جائزہ لیا جاتا ہے اور اس میں آنے والی تبدیلیاں نوٹ کی جاتی ہیں، ڈاکٹر ولیم جیمز بیل 1920ء تک ان بوتلوں کا جائزہ لیتے رہے، یہ اس دوران اپنے جیسا ایک اور پاگل بھی تلاش کرتے رہے، انھیں یہ پاگل ڈاکٹر ہنری ڈارلنگٹن کی شکل میں مل گیا، ڈاکٹر ہنری پروفیسر ولیم کا شاگرد تھا، پروفیسر کو اس میں وہ مستقل مزاجی اور ایمانداری نظر آئی جو ایسے تجربات کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

پروفیسر ولیم نے مرنے سے پہلے یہ 20 بوتلیں اور اپنی رپورٹ پروفیسر ڈارلنگٹن کے حوالے کر دی، پروفیسر ڈارلنگٹن نے مرنے سے قبل اپنے دو شاگردوں رابرٹ نبڈورسکی اور جین زیوارٹ کو اعتماد میں لے لیا، یہ دونوں بھی مرنے تک ان بوتلوں کی حفاظت کرتے رہے، یہ بوتلیں آج کل ڈاکٹر فرینک ٹیلوسکی کی تحویل میں ہیں اور یہ ان میں آنے والی تبدیلیاں نوٹ کر رہے ہیں، یہ بھی تین شاگرد تیار کر رہے ہیں، یہ تینوں شاگرد ٹیلوسکی کے مرنے سے پہلے یہ منصوبہ اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور یہ لوگ تجربے کی اس مشعل کو موت سے پہلے اگلی نسل کو سونپ جائیں گے۔

یہ 20 بوتلیں 137 برس سے محفوظ چلی آ رہی ہیں، ان 137 برسوں میں دنیا میں زلزلے بھی آئے، طوفان بھی، سیلاب بھی، سونامی بھی اور سیاسی انقلاب بھی، دنیا میں دو عالمی جنگیں بھی ہوئیں اور تین بڑے اقتصادی بحران بھی آئے لیکن سائنس دانوں کی چار نسلوں نے اس تجربے اور ان 20 بوتلوں پر آنچ نہیں آنے دی، یہ جان کی طرح ان کی حفاظت کرتے رہے، ان 137 برسوں میں 23 قسم کے پودوں میں سے صرف دو انواع کے پودے پیدا ہوئے، ان میں سے ایک پودے کا نام "موتھ بوٹی" ہے، موتھ بوٹی کے 50 بیج بوتل میں رکھے گئے تھے، ان میں سے 23 بیج نہ صرف پھوٹ پڑے بلکہ یہ جوان بھی ہو گئے جب کہ دوسری قسم کی بوٹی کا صرف ایک بیج پھوٹا، آج تک پندرہ بوتلیں کھولی جا چکی ہیں، پانچ بوتلیں باقی ہیں۔

یہ بوتلیں بیس بیس سال کے وقفے سے کھولی جائیں گی، آخری بوتل 2100ء میں کھلے گی جس کے بعد یہ تجربہ مکمل ہو جائے گا، اس تجربے کے ذریعے یہ اندازہ کیا جا رہا ہے، کس بوٹی میں کتنی دیر تک افزائش کی صلاحیت زندہ رہتی ہے، اس سے ان جڑی بوٹیوں کے فیز کی عمر کا حساب لگایا جائے گا، یہ تخمینہ جب مکمل ہو جائے گا تو سائنس دان اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے، کسان کس بوٹی کو کتنی بار اکھاڑے تو یہ ختم ہو جائے گی، کون سی بوٹی کتنے عرصے تک کس کھیت میں زندہ رہے گی اور کس بوٹی کو مارنے کے لیے کون سا بیج کتنا عرصہ بویا جائے اور کس فصل سے پرہیز کیا جائے، یہ بھی معلوم ہو جائے گا کون سا بیج کس موسم اور کس درجہ حرارت میں فنا ہوتا ہے اور کون کس درجہ حرارت میں زیادہ افزائش پاتا ہے۔

یہ تاریخ انسانی کا طویل ترین تجربہ ہے، آپ اس تجربے میں شریک ہونے والے سائنس دانوں کا ظرف اور اخلاص ملاحظہ کیجیے، ان میں سے ہر شخص یہ جانتا ہے میں اس تجربے کے اگلے فیز تک زندہ نہیں رہوں گا لیکن یہ اس کے باوجود اپنی پوری زندگی اس میں جھونک دیتا ہے اور دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو جاتا ہے، آپ ان لوگوں کا کمال دیکھئے، ڈاکٹر ولیم جیمز بیل سے لے کر ڈاکٹر فرینک ٹیلوسکی تک ان میں سے ہر سائنس دان یہ جانتا تھا، یہ دنیا کی قیمتی ترین تحقیق ہے اور سائنس دانوں کی آخری ٹیم اس سے اربوں ڈالر کمائے گی لیکن یہ لوگ اس کے باوجود ریسرچ کی یہ مشعل اگلی سے اگلی نسل کو منتقل کرتے چلے آ رہے ہیں۔

یہ خود بھوکے رہتے ہیں، یہ خود پیسے پیسے کو ترستے رہتے ہیں لیکن یہ نسل انسانی کو خوش حالی اور مطمئن بنانے کا سلسلہ جوڑتے چلے آ رہے ہیں، یہ کیا کمال لوگ ہیں، یہ جان دیتے جا رہے ہیں لیکن یہ مشعل تحقیق آگے بڑھاتے جا رہے ہیں مگر ہم ان لوگوں کو کافر سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو مومن، ہم خود کش حملوں کے باوجود شہید ہیں اور علم اور ایثار کے یہ پیکر لیبارٹریوں میں جان دینے کے بعد بھی جہنمی ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے۔

یہ کہاں کا قانون ہے، ہم اگر مومن ہیں تو پھر ہماری میراث کہاں ہے؟ اور اگر یہ علم ہماری کھوئی ہوئی میراث ہے جس کی حفاظت ڈاکٹر ولیم بیل جیسے لوگ 137 برس سے کر رہے ہیں تو پھر ہم مومن ابن مومن کیوں کہلاتے ہیں؟ ڈاکٹر ولیم بیل کی یہ بوتلیں یہ سوال اگلے 85 برسوں تک نبی اکرمؐ کی امت سے پوچھتی رہیں گی، ہے کوئی سچا عاشق رسولؐ جس کے پاس اس کا جواب ہو؟

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Aman Ka Paigham Koi Nayi Jang Nahi Hogi

By Javed Ayaz Khan