غلامی سے بڑی کوئی حماقت نہیں ہوتی
عرفان صدیقی کی گرفتاری کے مزید دو پہلو بھی ہیں، یہ پہلو بھی ڈسکس ہونے چاہیے تھے لیکن بدقسمتی سے نہیں ہو سکے، پہلا پہلو صحافت تھا، عرفان صدیقی ایک جزوقتی صحافی تھے، ان کی زندگی کے 35 سال درس و تدریس میں گزرے، یہ سرسید کالج راولپنڈی میں اردو پڑھاتے رہے، یہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن سے جڑ گئے، پہلے صدر رفیق احمد تارڑ کے پریس سیکریٹری بنے اور پھر مکمل طور پر پارٹی سے جڑ گئے، یہ 2014 میں وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ بھی بن گئے، ان کا اسٹیٹس فیڈرل منسٹر کے برابر تھا، 2016 میں انھیں ایڈوائزر ٹو پی ایم بنا دیا گیا۔
یہ سیاست میں داخل ہونے سے پہلے تدریس سے صحافت میں آ گئے تھے، ہفت روزہ زندگی اور قومی ڈائجسٹ سے لکھنے کا آغاز کیا، بعد ازاں تکبیر سے وابستہ ہو گئے، 1997 میں جنگ جوائن کیا اور 1998 میں رفیق احمد تارڑ کے پریس سیکریٹری بننے تک جنگ میں کالم لکھتے رہے، جون 2001 میں ایوان صدر چھوڑنے کے بعد ڈیلی پاکستان کو بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر جوائن کیا لیکن یہ وہاں زیادہ دیر تک نہ چل سکے اور ستمبر 2001 میں نوائے وقت سے بطور کالم نویس وابستہ ہو گئے، اگست 2008 میں یہ دوبارہ روزنامہ جنگ کے ہو گئے۔
پاکستانی صحافت نے کسی دور میں کالم نگاروں کو باقاعدہ صحافی نہیں سمجھا، یہ لوگ انھیں ہمیشہ چھاتہ بردار کہتے رہے، صحافی باقاعدہ صحافی اس شخص کو سمجھتے ہیں جو رپورٹنگ، نیوز ڈیسک یا پھر میگزین میں کام کرتا ہے اور یہ اخبار کا باقاعدہ ملازم ہوتا ہے، صحافی کامران خان، حامد میر، مظہر عباس، مجاہد بریلوی اور میرے ساتھ تھوڑی سی رعایت کر دیتے ہیں، اس کی وجہ بھی ہمارا بیک گراؤنڈ ہے، ہم لوگوں نے اخبارات میں باقاعدہ ملازمت کی تھی، ہم گھاس کی طرح زمین سے اگے تھے اور ہم آہستہ آہستہ دھکے کھا کر کالم نگار اور اینکر بنے، صحافی ہمارے اس بیک گراؤنڈ سے واقف ہیں چناں چہ یہ ہمیں جیسے تیسے برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ کالم نگاروں اور صحافت کے بینی فشریز کو صحافی نہیں مانتے۔
یہ انھیں پریس کلب کی ممبر شپ بھی نہیں دیتے اور انھیں اپنے فنکشنز میں بھی نہیں بلواتے چناں چہ میں کہہ سکتا ہوں عرفان صدیقی کا صحافت کے ساتھ مکمل تعلق نہیں تھا، یہ جزوقتی صحافی رہے، یہ پیشے کے لحاظ سے استاد اور بعد ازاں سیاست دان تھے لیکن آپ صحافت کا کمال اور ظرف ملاحظہ کیجیے، صدیقی صاحب چند دن اہل صحافت میں شامل رہے لیکن جب ان پر مشکل وقت آیا تو وہ استاد ان کے لیے باہر نکلے جن کے ساتھ ان کا 35 سال کا تعلق رہا اور نہ وہ سیاستدان کندھے کے ساتھ کندھا جوڑ کر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے جن کے لیے یہ صحافت کو قربان کر گئے تھے۔
یہ صرف اہل صحافت تھے جنھوں نے کھل کر صدیقی صاحب کا ساتھ دیا، آپ پچھلے ہفتے سے آج جمعے تک کے اخبارات، ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا کھول کر دیکھ لیں، آپ کو جتنی خبریں، جتنے کالمز اور جتنے تبصرے عرفان صدیقی کے حق میں ملیں گے یہ آپ پچھلے دو برسوں میں کسی گرفتار شدہ شخص کے لیے نہیں پائیں گے، پاکستان کے تمام اینکر پرسنز، کالم نگار، مبصرین اور رپورٹرز عرفان صدیقی کے ساتھ کھڑے ہو گئے، سوشل میڈیا پر بھی طوفان آ گیا اور یہ اس طوفان اور ساتھ کا نتیجہ تھا حکومت عرفان صدیقی کو اگلے دن عدالت میں پیش کرنے پر بھی مجبور ہو ئی اور پھر مجسٹریٹ نے اتوار کے دن عدالت لگا کر اپنا پرانا فیصلہ بھی واپس لیا اور یوں عرفان صدیقی دو راتوں اور ایک دن بعد اپنے گھر واپس پہنچ گئے، آپ صحافت کی فراخ دلی اور کریکٹر ملاحظہ کیجیے۔
صحافت مشکل وقت میں اس شخص کے ساتھ بھی کھڑی ہو گئی جس کا اس شعبے کے ساتھ جزوی سا تعلق تھا چناں چہ میرا عرفان صدیقی صاحب کو مشورہ ہے یہ مریم نواز کا کم اور افضل بٹ کا زیادہ شکریہ ادا کریں، یہ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز میں جا کر ان بے بس اور کمزور صحافیوں کا شکریہ ادا کریں جو ہر دور میں مار کھاتے ہیں، جو پاکستان مسلم لیگ ن کے اس دور جس میں عرفان صدیقی حکومت کی قیمتی مونچھ کے قیمتی ترین بال ہوتے تھے یہ اس میں بھی معتوب رہے اور یہ آج بھی جوتے کھا رہے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود ان لوگوں کو بھی "اون" کرتے ہیں جو آئے، دیکھا اور میڈیا کو فتح کر کے چلے گئے، عرفان صدیقی کو نیشنل پریس کلب جا کر پوری صحافی برادری کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
آپ اب عرفان صدیقی کی گرفتاری اور رہائی کا دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے، یہ پہلو سیاست کی بے وفائی پر مبنی ہے، عرفان صدیقی کالم نگاری کے دور میں ملک کے مقبول ترین کالم نگاروں میں شمار ہوتے تھے، آپ ان کے جنرل پرویز مشرف کے دور کے کالم نکال کر پڑھ لیں، یہ اس دور میں سیدھے سادے چھکے لگا رہے تھے، صحافت ایک درویشی پیشہ ہے، آپ اگر اس میں جرأت، ایمان داری اور کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں تو لوگ پیروں اور قطبوں کی طرح آپ کا احترام کرتے ہیں، یہ آپ کے ہاتھ بلکہ پاؤں تک چومتے ہیں لیکن آپ جب اسے چھوڑ جاتے ہیں تو پھر یہی لوگ آپ کو مردہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں، میں نے اپنے گناہ گار کانوں سے لوگوں کو ڈاکٹر شاہد مسعود کو بہت بڑا اسکالر کہتے سنا۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی پاپولیرٹی بھی عروج پر پہنچ گئی تھی، عرفان صدیقی نے بھی مقبولیت کی معراج کو چھو لیا تھا لیکن پھر یہ بھی غلطی کر بیٹھے، یہ بھی سیاست اور حکومت کا حصہ بن گئے اور سیاست اور حکومت ہمیشہ مقبول صحافیوں کے لیے قبرستان ثابت ہوتی ہے، صحافی سیاست جوائن کرنے کے بعد اس طرح قبروں میں گرتے ہیں کہ لوگوں کو ان پر ترس آنے لگتا ہے، بزرگ کہتے ہیں گائے ہمیشہ اپنے کھونٹے اور شیر ہمیشہ جنگل میں اچھا لگتا ہے۔
جس دن شیر کھونٹے سے بندھ جائے اور گائے جنگل میں چلی جائے یہ اس دن اہمیت کھو بیٹھتی ہے، عرفان صدیقی صاحب نے بھی یہی غلطی کی، یہ صحافت کی عزت سادات چھوڑ کر اقتدار کی بے مروت گلیوں میں اتر گئے لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ یہ جمعہ 26 جولائی کی رات گرفتار ہوئے تو وہ پارٹی جس کے لیے عرفان صدیقی صاحب نے اپنی عزت، مقبولیت اور آزادی قربان کر دی تھی وہ چند ٹویٹس کر کے خاموش بیٹھ گئی جب کہ وہ صحافت جس کو صدیقی صاحب ٹھوکر مار کر چلے گئے تھے وہ ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی، مجھے یقین ہے عطاء الحق قاسمی صاحب کی طرح عرفان صدیقی نے بھی اپنا وکیل خود کیا ہو گا، پارٹی نے انھیں وکیل کی سہولت بھی فراہم نہیں کی ہو گی۔
ضمانت کے مچلکے بھی ان کے خاندان کے کسی فرد نے جمع کرائے ہوں گے اور یہ نام نہاد کیس جب تک چلتا رہے گا وکیلوں اور گواہوں کے اخراجات بھی یہ اپنی جیب سے ادا کریں گے، یہ ایمان دار انسان ہیں، یہ حکومت کے خاتمے کے بعد مشکل معاشی دور سے گزر رہے ہوں گے، یہ یقینا اپنے بچوں سے اخراجات لیتے ہوں گے اور باقی زندگی ان کے بچے ہی انھیں پالیں گے چناں چہ پھر انھیں اس اسکوبا ڈائیونگ کا کیا فائدہ ہوا؟ میرا خیال ہے یہ اب اگر صحافت میں واپس بھی آتے ہیں تو یہ اپنے قارئین کو واپس نہیں لا سکیں گے، لوگ اب ان کے ہاتھ نہیں چومیں گے، صحافت کی یہ روایت بھی بڑی دلچسپ ہے۔
آپ جب تک آزاد اور غیر جانب دار رہتے ہیں قارئین اور ناظرین آپ کے ہاتھ چومتے ہیں، یہ آپ کی ایک جھلک کے لیے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں لیکن آپ جس دن کسی عہدے کے لیے قارئین کی عقیدت قربان کر دیتے ہیں قارئین پھر آپ سے اس طرح منہ موڑتے ہیں جس طرح بکا ہوا گھوڑا اپنے پرانے مالک کو نہیں پہچانتا، قارئین ناراض کبوتر اور خوف زدہ کوے ہوتے ہیں، یہ اگر ایک بار چلے جائیں تو یہ پھر واپس نہیں آتے، عرفان صدیقی صاحب بھی اب صحافت میں واپس نہیں آ سکیں گے، یہ آئے تو یہ اخبارات بدل بدل کر اپنے قارئین کو واپس بلاتے بلاتے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔
عطاء الحق قاسمی اور عرفان صدیقی سیاست کے تازہ ترین شہید ہیں، میں نے زندگی میں قاسمی صاحب جیسا زبردست ادیب، کالم نگار اور انسان نہیں دیکھا، یہ سر سے پاؤں تک کمال انسان ہیں لیکن یہ بھی آخر میں وہ ہاتھی ثابت ہوئے جس نے سونڈ کے ذریعے زمین سے مٹر کے دانے سمیٹنا شروع کر دیے تھے اور آخر میں اس کی سونڈ میں گرد کے علاوہ کچھ نہیں تھا، عرفان صدیقی نے بھی یہ غلطی کی اور یہ بھی آج ان لوگوں کا وضو ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جن کے لیے انھوں نے شہادت کا رتبہ پایا تھا۔
عرفان صدیقی آج ٹھنڈے دماغ سے سوچیں یہ جن لوگوں کے لیے صحافت کی پرخلوص گلیاں چھوڑ کر اقتدار کی بے مروت وادی میں اترے تھے ان میں سے کتنے لوگ ان کے لیے تھانے پہنچے، ان میں سے کتنے لوگ عدالت آئے، کتنے جیل میں ملاقات کے لیے آئے اور کتنے لوگ ان کے بچوں کے ساتھ کھڑے ہوئے؟ میرا خیال ہے یہ لوگ ایک انگلی پر گنے جا سکتے ہیں اور یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے اگر میڈیا ان کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا، یہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور نہ کرتا اور اگر خدانخواستہ عرفان صدیقی کا کیس طول پکڑ جاتا تو کیا یہ ایک انگلی پر گنے جانے والے لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے رہتے؟
جی نہیں! یہ بھی رخصت ہو جاتے، یہ اس معاشرے کی وہ حقیقتیں ہیں جنھیں ہم اکثر فراموش کر دیتے ہیں، اقتدار کی گلیاں بے وفائی کی مٹی سے بنی ہیں، یہ وقت پڑنے پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے بھی وفا نہیں کرتیں، یہ لوگ بھی مسند اقتدار سے اترنے کے بعد اپنا پتہ پوچھتے رہ جاتے ہیں، عرفان صدیقی تو محض عرفان صدیقی ہیں، یہ گلیاں، یہ چوبارے ان کا کیا ساتھ دیں گے؟ کسی دانا کا قول ہے کام وہ کریں جس میں عزت اور آسانی ہو اور رہیں ان لوگوں کے ساتھ جو آپ کی قدر کرتے ہوں، آزاد اور عزت دار زندگی کے ہوتے ہوئے غلامی سے بڑی کوئی حماقت نہیں ہوتی۔