افغانوں کا بے گناہ لہو بول رہا ہے
شہزادہ بندر بن سلطان بن عبدالعزیز سعودی شاہی خاندان کے سینئر رکن ہیں، یہ 22 برس امریکا میں سعودی عرب کے سفیر رہے، یہ سعودی عرب کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری جنرل اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی رہے، شہزادے نے افغان جنگ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، اکتوبر 2006ء میں ان کی آپ بیتی "دی پرنس" کے نام سے مارکیٹ میں آئی۔
یہ آپ بیتی ان کے برطانوی کلاس فیلو ولیم سمپسن نے تحریر کی، اس کتاب نے افغان جنگ کے بارے میں پوری دنیا کے تصورات جڑوں سے ہلا دیے، دنیا کو پہلی بار افغان جنگ انا اور مفادات کی جنگ محسوس ہوئی، شہزادے نے انکشاف کیا، امریکا نے یہ جنگ ڈالروں کے بل بوتے پر لڑی تھی اور ڈالروں کی مددہی سے جیتی تھی۔
امریکا اور سعودی عرب افغان مجاہدین کو اسلحہ، گولہ باروداور ڈالروں سے نوازتے رہے، شہزادے نے کتاب میں"ڈالروں کی برسات" کے لفظ تک استعمال کیے تھے، یہ انکشاف بھی کیا صدر ریگن اور شاہ فہدکے درمیان معاہدہ ہواتھاوہ یہ جنگ ہرقیمت پر جیتیں گے اور دونوں اس معاملے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے، شہزادے کا کہنا تھا افغان جنگ میں امریکا اور روس کا وہی کردار تھا جو مرغ لڑانے والے دو شکاریوں کا ہوتاہے۔
شہزادے نے انکشاف کیا سعودی عرب اور امریکا نے انھیں روسی صدر گورباچوف کو جنگ بندی پر راضی کرنے کا مشن سونپا تھا اور انھوں نے اس سلسلے میں امریکا میں تعینات روسی سفیر انتالولی ڈوبرنین کو استعمال کیا تھا، انتالولی 24 برس سے امریکا میں تعینات تھا اور اسے صدر گوربا چوف تک خصوصی رسائی حاصل تھی، انتالولی ڈوبرنین امریکا، سعودی عرب اور روس کے درمیان بیک ڈور چینل ڈپلومیسی کا ذریعہ بنا۔
روسی سفیر نے شہزادے کی صدر گوربا چوف کے ساتھ ملاقات کا بندوبست بھی کیا، شہزادے نے اعتراف کیا وہ فروری 1985ء میں ماسکو گئے اور انھوں نے صدر گورباچوف کے ساتھ ملاقات کی، اس ملاقات کے شروع میں گوربا چوف نے ان پر برسنا شروع کر دیا تھا، صدرگوربا چوف شاہ فہد کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مجرم قرار دے رہے تھے، گوربا چوف نے امریکا کو بھی جلی کٹی سنائیں اور سعودی عرب کی جنوبی یمن اورایتھوپیا کی پالیسیوں کو بھی ہدف تنقید بنایا۔
شہزادے نے انکشاف کیا ملاقات کے دوسرے دور میں گوربا چوف کا رویہ نسبتاً بہتر تھا لہٰذا انھوں نے روسی صدر کو سمجھایا روس کا ایک مسلمان ملک پر قابض رہنا درست نہیں اور افغانستان میں روس کا وہی انجام ہوگا جو ویتنام میں امریکا کا ہوا تھا، روس یہ جنگ نہیں جیت سکے گا لہٰذابہتر ہے وہ یہ جنگ ترک کرکے امن کے لیے کوشش کریں لیکن گوربا چوف نے جواب دیا "افغانستان میں سعودی عرب کا کوئی مفاد نہیں پھر تم لوگ افغانستان میں 200 ملین ڈالر سالانہ کیوں خرچ کر رہے ہو" شہزادے نے گوربا چوف کو سمجھایا" جناب صدر آپ کی ایجنسیاں آپ کو غلط اطلاعات دے رہی ہیں۔
سعودی عرب افغانستان میں 200 ملین نہیں 500 ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے اور اگر ہمیں افغانستان میں مزید رقم خرچ کرنا پڑی تو بھی ہم کریں گے"شہزادے نے لکھا، میں نے گوربا چوف کو سمجھایا" ہم افغانستان میں صرف سرمایہ خرچ کر رہے ہیں جب کہ سوویت یونین اپنے فوجیوں کی قربانی دے رہا ہے، امریکا مزید ڈالر چھاپ لے گا اور ہم مزید تیل بیچ کر اپنا نقصان پورا کر لیں گے لیکن روس اس جنگ میں اپنے لوگوں، اپنے وقار، اپنے ساز و سامان اوراپنے سرمائے سے محروم ہو جائے گا، روس اپنا سب کچھ کھو بیٹھے گا "۔
شہزادے نے انکشاف کیا، ملاقات کے آخر پر گوربا چوف نے کہا "اگر ہماری تذلیل نہ کی جائے تو ہم افغانستان سے نکلنے کے لیے تیار ہیں" شہزادے نے انکشاف کیا، افغان جنگ کے دوران سعودی عرب اور امریکا پوری دنیا میں خچروں کا سب سے بڑا خریدار تھا، افغانستان کا 90 فیصد علاقہ دشوار گزار پہاڑوں پر مشتمل ہے، وہاں باربرداری کا کوئی ذریعہ کام نہیں آتالہٰذا ہم لوگ خچروں کے ذریعے جنگی سازو سامان افغانوں تک پہنچاتے تھے، ہم نے پوری دنیا سے دھڑا دھڑ خچر خریدے، اس خریداری کے نتیجے میں پوری دنیا میں خچر مہنگے ہوگئے۔
شہزادہ بندر بن سلطان کی کتاب نے ڈیٹرجنٹ پائوڈر کا کام کیا اور افغان جنگ کے بارے میں میری نسل کے تمام تصورات دھو کر رکھ دیے، میری نسل افغان جنگ کے دوران پل کر جوان ہوئی تھی لہٰذا ہم اسے کفر اور اسلام کی جنگ سمجھتے تھے لیکن یہ کتاب پڑھ کر معلوم ہوا افغان جنگ کفر اور اسلام کی جنگ نہیں تھی، وہ امریکا اور سوویت یونین کی انا کا ٹکرائو تھا اور سعودی عرب اس ٹکرائو میں امریکا کا حلیف تھا، میری نسل اس جنگ کو پاکستان کا کارنامہ بھی سمجھتی رہی۔
ہم جنرل ضیاء الحق کو اس جنگ کی بنیاد پر بیسویں صدی کا سلطان صلاح الدین ایوبی سمجھتے تھے لیکن شہزادہ بندر بن سلطان نے امریکی ڈالروں کو اس جنگ کی کامیابی کی وجہ قرار دیا اور جنگ میں شریک لوگوں اور ملکوں کو مہرہ ثابت کردیا، میری نسل جنگ میں پاکستان کے کردار کو کلیدی سمجھتی تھی لیکن شہزادے نے صاف اعلان کر دیا "اگر سعودی عرب اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لیتا تو پاکستان کے لیے افغانستان میں ٹھہرنا مشکل ہو جاتا"لہٰذا اس کتاب نے تمام فکری مغالطے دور کردیے اور ہمیں پہلی بار معلوم ہوا افغان وار کے بعد امریکا نے پاکستان کو تنہا کیوں چھوڑا تھا۔
میری نسل امریکا کوپاکستان کا مجرم سمجھتی آ رہی تھی، ہم امریکا پر الزام لگاتے تھے جنگ کے بعد اس نے ہمیں ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیا لیکن اس کتاب سے معلوم ہوا اس جنگ میں ہمارا کردار ٹشو پیپر سے زیادہ تھا ہی نہیں، ہم جنگ میں امریکا کے حلیف یا دوست نہیں تھے، ہم اس کے ملازم تھے اور ہمیں ہماری ملازمت کا باقاعدہ معاوضہ ملتارہا تھا لہٰذا جونہی ہماری جاب ختم ہوئی۔
ہمارے باس نے ہمیں سلام کیا اور ہمیں چھوڑ کر واپس واشنگٹن چلا گیا، میری نسل کو پہلی بار معلوم ہوا ہمارے ایک آمر نے اپنی آمریت کو تحفظ دینے کے لیے امریکا کا بازو بننے کا فیصلہ کیا تھااور امریکا نے نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف اس کے وجود کو تسلیم کر لیاتھا بلکہ یہ اسے تحفظ بھی دیتا رہا۔
افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلاء شروع ہواتو امریکا کو جنرل ضیاء الحق کی ضرورت نہ رہی چنانچہ انھیں شہادت کے رتبے پر فائز کر دیا گیا یوں امریکا اور اس کے حواری پاکستان میں اپنی تمام ذمے داریوں سے سبکدوش ہو گئے اور ہمیں پہلی بار معلوم ہوا افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلاء شہزادہ بندر بن سلطان اور گوربا چوف کے درمیان ملاقات کی وجہ سے ہوا تھا اور امریکا اور سعودی عرب نے سوویت یونین کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کو اطلاع تک دینا گوارہ نہیں کیاتھا۔
مجھے کل پرنس بندر بن سلطان کی یہ کتاب 12 سال بعد اچانک یاد آ گئی، یادداشت کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کا تازہ ترین انٹرویو ہے، پرنس محمد نے 22 مارچ کوواشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا "سرد جنگ کے دوران مغرب کو اسلامی دنیا میں وہابیت کی ضرورت محسوس ہوئی، ہم نے مغرب کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وہابی مدارس اور مساجد کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی" آپ اگر اس انٹرویو کو پرنس بندر بن سلطان کی کتاب کے ساتھ جوڑ کر پڑھیں تو آپ کے باقی ماندہ مغالطے بھی دور ہو جائیں گے۔
ہم جس جنگ کو کفر اور اسلام کا معرکہ سمجھتے رہے تھے وہ ایک "گلوبل گیم" تھی، ہم اس "گلوبل گیم" کا مہرہ بنے اور ہم نے اپنے آپ کو تباہ کر لیا، ہم آج تک اس جنگ کے اثرات سے باہر نہیں آ سکے اور شاید کبھی نہ آ سکیں، پرنس بندر بن سلطان کی کتاب کو یاد کرنے کی دوسری وجہ افغان وار کے ہیرو جنرل حمید گل کے بچوں کی لڑائی کی خبریں ہیں، جنرل حمید گل کی صاحبزادی عظمیٰ گل نے 28 مارچ کو تھانہ ائیرپورٹ میں اپنے بھائی عبداللہ گل کے خلاف باقاعدہ درخواست دی۔
ان کا کہنا تھا عبداللہ گل نے جائیداد پر قبضہ کر لیاہے، یہ والدہ اور میرا حصہ دینے کے لیے تیار نہیں، یہ ماں اور بہن کے ساتھ بدکلامی بھی کرتا ہے اور دھمکیاں بھی دیتا ہے، عظمیٰ گل نے مجھے فون کرکے بتایا، جنرل صاحب کے بیٹے عبداللہ اور عمر والد کی پنشن تک کھا جاتے ہیں، والدہ علیل ہیں، ان کی حالت بہت خراب ہے، عمر گل آسٹریلیا میں جا بیٹھا ہے، عبداللہ گل والد کے ساتھ بھی گستاخی اور بدتمیزی کرتا تھا اور والد ان بدتمیزیوں کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
کل مجھے عبداللہ گل نے بھی اپنی بہن کے خلاف عدالتی سمنوں اور پولیس درخواستوں کی کاپیاں بھجوا دیں، ان کا کہنا تھا بہن بھائیوں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے، یہ والد کی جائیداد اور زمین ہتھیانا چاہتی ہے، مجھے نہیں پتہ بہن ٹھیک کہہ رہی ہے یا بھائی تاہم میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں شاید، شاید اور شاید جنرل حمید گل مرحوم کی جائیداد میں افغان جنگ کا تھوڑا بہت معاوضہ بھی مل گیا ہو، شاید جنرل صاحب کی جائیداد میں وہ ڈالر بھی شامل ہو گئے ہوں جو پرنس بندر بن سلطان اور صدر ریگن چارلی ولسن کے ذریعے پاکستان پہنچاتے تھے، آج وہ ڈالر اپنا رنگ دکھا رہے ہوں اور بھائی کو بہن اور بہن کو بھائی نظر نہ آ رہے ہوں۔
آپ اس مثال کو ذرا سا پھیلا کر دیکھیں، آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے، روس، امریکا، سعودی عرب، پاکستان اور افغان وار لارڈز نے صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے لاکھوں بے گناہ افغانوں کا خون بہایا تھا چنانچہ آج یہ تمام ملک اور افغان وار میں شامل تمام لوگ اللہ کے انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں، آپ تحقیق کر لیں آپ توبہ پر مجبور ہو جائیں گے۔
افغانوں کا خون بیچنے والے ہر شخص کے بچے دست و گریبان بھی ہوئے اور یہ غیر فطری موت بھی مرے، کاش کوئی شہزادہ افغان وار کے بینی فیشریز کے انجام پر بھی کوئی کتاب لکھے، وہ کتاب دنیا کی سب سے بڑی بیسٹ سیلر ہوگی۔