تجارت سب کے ساتھ
کافی عرصے کے بعد ایک اچھی خبر آئی کہ۔"وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان کے مال کو ہندوستان لے جانے کے لیے، واہگہ کا راستہ 15جولائی سے کھول دیا جائے گا، وزارت خارجہ کے مطابق یہ فیصلہ افغانستان کی درخواست پر کیا گیا، تاکہ ان کی پاکستان کے راستے ٹرانزٹ تجارت میں آسانی ہو، 2010میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت کے معاہدے کے مطابق، نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان آزادانہ تجارت ہوگی بلکہ پاکستان کے راستے دوسرے ملکوں کو جانے والی افغانستان کی اشیاء کو بھی اجازت ہوگی۔ پچھلے ہفتے پاک افغان کی انگور اڈا سرحدی راستے کو بھی باہمی تجارت کے لیے کھول دیا گیا تھا۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خاص نمائندے محمد صادق کا کہنا ہے کہ جذبہ خیر سگالی کے تحت پاکستان نے افغان تجارت کے لیے سارے راستے کھول دیے ہیں، ان کے مطابق، کورونا بحران کی رکاوٹوں کے باوجود تجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس معاہدے کے مطابق صرف افغانستان کا مال واہگہ بارڈر تک لایا جا سکتا ہے لیکن ہندوستان کا مال اس راستے سے افغانستان نہیں جا سکتا، افغانستان کے ٹرک اپنا مال واہگہ سرحد پر اتاریں گے اور خالی ٹرک واپس لائیں گے، اس معاہدے کے پس منظر اور دیگر پہلوؤں کا ایک مختصر جائزہ۔
عام طور پر ترقی یافتہ ممالک اور خاص کر چین کی ترقی کا راز تجارت اور خارجہ پالیسی کو الگ الگ رکھنے میں ہے، وہ اپنے بدترین دشمن کے ساتھ بھی تجارتی تعلق رکھتا ہے اور آج، جاپان سے لے کر یورپ اور امریکہ تک دنیا بھر کی منڈیاں چینی اشیاء سے بھری ہوئی ہیں، اسی لیے تو ڈونلڈ ٹرمپ شکایت کرتا ہے کہ چین امریکہ کی منڈیوں سے اربوں ڈالر کماتا ہے لیکن ہمارے دشمن شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے منع نہیں کرتا، اسی طرح ہندوستان بھی حالیہ سرحدی جھڑپوں کے باوجود، چین کے ساتھ دشمنی کے باوجود تجارت کرکے اربوں ڈالر کما رہا ہے۔ اب ذرا پاکستان کی معاشی پالیسیوں کا جائزہ بھی لیتے ہیں، حالانکہ بقول کسے، اس ملک خدادادکو ترقی کرنے کے بہت سے مواقع عطا کیے گئے ہیں۔
پاکستان کی جغرافیائی خوش قسمتی ہے کہ ہزاروں سال سے، اس سرزمین کے راستے اور درے، جنوبی ایشیاء اور چین سے یورپ و سینٹرل ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارتی راستوں کی حیثیت سے استعمال ہوتے رہے ہیں، پشاور کا قصہ خوانی بازاراور قدیم شاہراہ ریشم اس دور کی یادگار ہیں، آج پھر ایک موقعہ ہے کہ ہم اس راستے کو استعمال کرکے اپنی معاشی اور سیاسی و سماجی حالات بہتر کر سکتے ہیں۔
اس روٹ کے کھلنے سے خاص کر ڈیور نڈ لائن کے آرپار پختونوں کو بے شمارفوائد حاصل ہوں گے، اس شاہراہ کو استعمال میں لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری خارجہ پالیسی ہے، اگر ایک طرف ہم چین کو گوادر کے راستے دنیا تک رسائی دے رہے ہیں، اور اس طرح شمال سے جنوب کے راستے سے فائدہ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں تو اسی طرح مغرب سے مشرق تک کے راستے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے، انڈیا اور افغانستان کو راہداری کی سہولت نہ دے کر اپنا نقصان کر رہے ہیں، مغرب سے مشرق جانے والی شاہراہ کو نہ کھولنے سے پاکستان کی مستقبل میں اہمیت ختم ہوجائے گی۔
عالمی بینک کے مطابق اس خطے کے ملکوں کے اندر، جہاں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے، جنوبی ایشیاء کی کل تجارت کا حجم صرف 5فی صد ہے، اس کے مقابلے میں ASEAN(جنوبی مشرقی ایشیاء کے ممالک کی تنظیم)کے ممبر ممالک کے درمیان کل تجارت کا حجم 25فی صد ہے، یہ کوئی عجیب امر نہیں ہے، جنوبی ایشیاء کے ممالک اور خاص کر ہندوستان اور پاکستان میں ابتداء ہی سے تنازعات اور عدم اعتماد کی فضاء موجود ہے’ جو اس خطے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان کو اپنی برآمدات پاکستان کے راستے لے جانے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن ہندوستان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ تجارت کے لیے پاکستان کی سر زمین استعما ل کرے۔
اس پالیسی نے افغانستان کی ہندوستان کے ساتھ تجارت کومحدود کردیا ہے، کابل کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی ہندوستان کو برآمدات میں 227 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن ہندوستان سے افغانستان آنے والی درآمدات میں صرف 47فی صد اضافہ ہوا ہے، ہندوستان سے افغانستان کو د رآمدات پر رکاوٹوں کا مطلب ہے کہ افغانستان سے براستہ واہگہ سامان لانے والے ٹرکوں کو سرحد سے واپس خالی آنا ہوگا، ہندوستان کو پاکستان کے راستے اپنا سامان افغانستان لے جانے پر پابندی ہے، ہندوستان کے تاجروں کو افغانستان تک سامان پہنچانے پر زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں، اسی طرح اس پابندی کی وجہ سے افغانستان کو ہندوستان کا ارزاں مال مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات بڑھتے ہیں۔
اگر پاکستان انڈیا کو واہگہ کے راستے افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک راستہ نہیں دے گا تو خطرہ ہے کہ پاکستان بھی CPECکے راستے سینٹرل ایشیاء تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گا، کیونکہ یہ راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا ہے، افغانستان کے صدر اشرف غنی نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ اگر پاکستان ہمارے ملک کو ہندوستان تک خشکی کے راستے رسائی نہیں دے گا تو افغانستان بھی پاکستان کو CPEC کے راستے سے سینٹرل ایشیاء تک رسائی نہیں دے گا اور نہ ہی افغانستان CPECکا حصہ بنے گا، جب تک دونوں ملکوں میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوجاتا، پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے اربوں ڈالر کے رقم سے محروم رہے گا، جوCPECکی قرضوں کی واپسی کے لیے بہت ضروری ہیں۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ چین پاکستان کا بہترین دوست ہے اور وہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کرے گا کیونکہ ہندوستان تو "OBOR"کے منصوبے کا مخالف ہے، شاید یہ ٹھیک ہو لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چائیے کہ چین ہر حالت میں اپنے مفاد کو دیکھتا ہے، اس کی ترقی کا راز تجارت اور خارجہ پالیسی کو الگ الگ رکھنے میں ہے۔
آج بھی ہندوستان چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 70ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ دنوں میں سرحدی علاقے ڈوکلام اور لداخ میں جھڑپیں ہوئی ہیں اور کافی فوجی مارے گئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعات بھی ہیں، اس کے باوجود، دونوں کے درمیان تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بھارت چین کے سرمائے سے بننے والے (Asian Infrastructure Investment Bank) بینک کا بانی ممبر ہے اور برکس(BRICS)کے علاوہ دونوں ممالک مختلف تنظیموں کے ممبر ہیں۔
چین کا سب سے بڑا مقصد، علاقائی تجارت کو بڑھانے کے لیے ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر ہے، ہندوستان اس خطے کی بڑی معاشی طاقت ہے اور چین کو معلوم ہے کہ اس خطے میں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے میں ہندوستان کا اہم کردار ہے، یہ سارے تجارتی راستے پاکستان سے ہوکر گزرتے ہیں جس سے ٹرانزٹ کے مد میں پاکستان کو بڑی آمدنی ہوگی۔
ورنہ دوسرا متبادل ایران ہے اگر پاکستان ترقی کرنا چاہتا ہے اور جنوبی ایشیاء اور سینٹرل ایشیاء سے تجارت بڑھانا چاہتا ہے تو اس کو چائیے کہ ہندوستان کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرے اور اس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان زمینی راستے سے رابطے ناگزیر ہیں۔ یہ کیا سیاست ہے کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات بھی ہیں، ان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے منتیں کر رہے ہیں۔
سلامتی کونسل کی ممبرشپ کے لیے ووٹ ہندوستان کو دیتے ہیں، کرتا پورکا راستہ کھولتے ہیں لیکن تجارت نہیں کرنی اور انڈونیشیاء تک ملکوں کے لیے سینٹرل ایشیاء اور یورپ کا راستہ بند کرکے اربوں کا نقصان اپنے ملک کو پہنچا رہے ہیں۔ یہ راستہ جو شاہراہ ریشم کہلاتا تھا، انڈونیشیاء، فلپائن، ملائشیا، تھائی لینڈ، برما، سری لنکا، بنگلہ دیش اوربرصغیر کے ملکوں کا سینٹرل ایشیاء اور یورپ تک خشکی کا راستہ تھا جو صرف واہگہ بارڈر بند کرنے سے تمام ملکوں کے لیے بند ہوگیا اور ان ملکوں نے متبادل راستے بنالیے۔
ہمارے راستوں کو استعمال کرکے، بھارت کے فائدے ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہوں گے اگر اسے یہ فائدے حاصل کرنے کی سہولت مل جائے، تو وہ کسی بھی طرح کی کشیدگی پیدا ہونے سے قبل اسے ختم کرنے کی طرف توجہ دے گا اور ایسی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کرے گا، جس میں وہ بڑے فوائد سے محروم ہوجائے، شمال مغرب میں تجارتی رسائی کے دیگر ذرائع پیدا کرنے سے ہم بھارت کو زیادہ عرصے تک نہیں روک سکیں گے، ایک دوسرے کو سہولتیں پہنچانے کی ہماری طاقت، ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتی، ویسے بھارت ہمارے لیے شجر ممنوعہ بھی نہیں ہے، تاپی (TAPI) کی گیس پائپ لائن بھی توتاجکستان سے افغانستان اورپاکستان سے گزرکروہاں جائے گی، کشمیر سمیت دیگر تنازعات جنگ اور جہاد سے تو حل نہیں ہوسکے، اب امن اور تجارت کی حکمت عملی شاید کارآمد ثابت ہو۔