ترقی پسند سیاست پر پہلا وار
پاکستان میں موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ترقی پسند، جمہوری اور روشن خیال حلقے فرنٹ فٹ پر آکر اپنا کردار ادا کر یں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آمرانہ قوتوں اور انتہا پسندوں کے خلاف موجودہ جنگ میں بورژوا سیاسی پارٹیاں تو میدان میں کھڑی ہیں لیکن معلوم نہیں کہ ترقی پسند میدان سے کیوں غائب ہوگئے ہیں؟
ماضی کا جائزہ لے کر موجودہ حالات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اس ملک میں ترقی پسند قوتوں پر کیا گزری، حالانکہ کمیونسٹ پارٹی نے قیام پاکستان کی حمایت کی تھی اورجن مذہبی جماعتوں نے پاکستان کی مخالفت کی، وہ محب وطن ٹہریں۔
پاکستان اپنے وجود میں آنے کے فوراً بعد امریکی کیمپ میں چلا گیا۔ اس وقت لیاقت علی خان وزیر اعظم تھے اور جنرل ایوب خان کمانڈر انچیف تھے۔ پھر پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسندوں کو دبانے کا آغاز ہوگیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہر دور میں ترقی پسند تحریک کو پنپنے نہ دیا گیا، اس امرپر تمام حکمرانوں اور مذہبی و سرمایہ دارپارٹیوں کا اتفاق تھا اور ہے۔
ترقی پسند تحریک کو ختم کرنے کا نتیجہ آج ہم انتہا پسندی اور آمریت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں ترقی پسند جمہوری تحریک پر پہلا حملہ "راولپنڈی سازش کیس" کے نام سے ہوا، اس نام نہاد سازش کے بہانے سیکڑوں سیاسی کارکن گرفتار ہوئے، کمیونسٹ پارٹی اور مزدور یونینوں کو ختم کردیا گیا۔ ترقی پسند تحریک پر اس خوفناک وار کے بعد یہ تحریک دوبارہ نہ سنبھل سکی، راولپنڈی سازش کیس کا قصہ جمنا داس اختر نے اپنی انگریزی کتاب "پاکستان میں سیاسی سازشیں " میں کیا ہے، اس کا متعلقہ باب قارئین کی نظر ہے۔
"9مارچ1951کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت کے خلاف ایک فوجی سازش ناکام بنادی گئی ہے اور فوج کے اعلیٰ افسر میجر جنرل اکبر خان اور ان کے بہت سے ساتھی گرفتار کر لیے گئے ہیں، ریڈیو پاکستان نے وزیر اعظم کی طرف سے یہ اعلان نشر کیا۔"دشمنان پاکستان کی طرف سے ایک سازش کا پتہ لگایا گیا ہے، اس سازش کا مقصد ملک میں بحران پیدا کرنااورمسلح انقلاب کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلح افواج کی وفاداریوں کوتبدیل کرنا تھا، اس منصوبے کے بارے میں حکومت کو بر وقت اطلاع مل گئی اور آج حکومت نے اس منصوبے کے رہنمائوں کو گرفتار کرلیا۔"
لیاقت علی خان نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 9مارچ1951کو انھوں نے لاہور میں جس سازش کا ذکر کیا تھا، اس کا مقصد ملک میں فوجی آمریت کے ذریعے کمیونسٹ طرز کا انقلاب لانا تھا، اس انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے ایک خاص پڑوسی ملک سے اقتصادی اور آئینی ماہرین بلانے کا منصوبہ بھی تھا۔
سازشیوں کو یقین تھا کہ وہ اچانک انقلاب برپا کرکے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
قبل ازیں سپیشل فورسز کے 12افراد نے فیض احمد فیض کے گھر کی چھ گھنٹے تک تلاشی لی اور ان کو ملک کے خلاف سازش میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، وہ لاہور میں ایمپریس روڈ پر ایک عالی شان محل نما کوٹھی میں رہتے تھے، کراچی سے ایک اور دانشور سید سبط حسن کو بھی گرفتار کر لیا گیا، اس سازش کے الزام میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیرکے علاوہ محمد حسین عطا سمیت بہت سے مزدور رہنمائوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا، یہ اعلان بھی کیا گیا کہ سیاسی بیانات جاری کرنے والی مزدور یونینوں پر پابندی لگا دی جائے گی، بہت سی مزدور تنظیموں کو زبردستی سیاست سے لاتعلقی کے بیانات دینے پر مجبور کیا گیا۔
کمیونسٹ پارٹی، انقلابی طلباء اور مزدور تنظیموں پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ گرفتار رہنمائوں کو کئی سال تک جیل میں رکھا گیا، مقدمہ چلا اور اکثریت کو عدم ثبوت کی وجہ سے رہا کردیا گیا، اس طریقے سے پاکستان کو سامراجی ایجنڈے کے مطابق چلانے کے لیے راستہ صاف کر دیا گیا۔ اس جھوٹے سازش کیس کا مقصد پاکستان میں ترقی پسند سیاست کا گلہ گھونٹنا تھا، حکمران طبقوں نے کسی حد تک وہ مقصد حاصل کر لیا۔ یہ پاکستان کی ترقی پسند سیاست کرنے والوں پر پہلا کاری وار تھا، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔