طبقاتی جنگ جاری ہے
سابقہ کالم میں اس موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ عالمی سطح پر سامراج کی "تہذیبوں کی لڑائی" کا نظریہ ناکام ہوگیا ہے اور حقیقت میں اب بھی طبقاتی لڑائی جاری ہے، اب آگے صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔
چند سال قبل تین عالمی معاشی ماہرین نے ایک رپورٹ شایع کی، اس میں مالدار اور غریب ممالک کے درمیان فرق کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا، رپورٹ کا نام "The Marketing of Nations" ہے، بہت زیادہ محنت سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مصنفین کے نام "Philip Kotler۔ Somkid jatuspripitak" اور "Suvit Maesincee"ہیں۔
اس رپورٹ میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ عالمی طور پر اگر ایک طرف ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں خلیج بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف انفرادی ممالک میں بھی غریب اور امیر طبقات کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے، طبقاتی فرق امیر ممالک کی بہ نسبت غریب ملکوں میں زیادہ ہے۔
جنوبی کوریا، کینیڈا، جاپان اور سویڈن جیسے ممالک میں یہ فرق کم ہے، ملائیشیا، تنزانیہ، چلی، کواسٹا ریکا اور لیبیاء میں یہ فرق درمیانہ درجے کا ہے، مگربرازیل، ایکویڈور، کولمبیا، جمیکا، میکسیکو، پاکستان، وینزویلا، کینیا، سیری لون، جنوبی افریقہ اور گوئٹے مالا جیسے ممالک میں امیر اور غریب طبقات کے درمیان آمدنی کے لحاظ سے فرق بہت زیادہ ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں اگر ایک طرف غریب کو غربت کے خلاف لڑنا پڑتا ہے تو دوسری طرف ان کو کم اور نامناسب خوراک، بیماریوں اور خراب صحت کے مسائل بھی درپیش ہیں، ایک سروے کے مطابق غریب ممالک میں ہر ایک لاکھ افراد کے لیے 5ڈاکٹر ہیں، اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے ڈاکٹروں کی تعداد 220 ہے، غریب ممالک میں ہرسال تقریباً دوکروڑ افراد معمولی بیماریوں کے ہاتھوں موت کا شکار ہو جاتے ہیں، غریب ممالک میں 1000نو زائیدہ بچوں میں 99 بچے پیدائش کے دوران موت کا شکار ہو جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں ان اموات کی تعداد 74 اور صنعتی ممالک میں 11ہے۔
غیرترقی یافتہ ممالک میں عام آدمی کی اوسط عمر52 سال ہے، جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں 61سال اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں اوسط عمر 75سال ہے، غریب ممالک میں نامناسب خوراک ایک اور اہم مسئلہ ہے، ان ممالک میں آج بھی ایک ارب انسانوں کو مناسب اور کافی خوراک نہیں ملتی۔
غریب ممالک میں تعلیم کی صورت حال بھی انتہائی خراب ہے، غریب ممالک میں شرح خواندگی 45فی صد سے بھی کم، امیر ممالک میں یہ شرح کل آبادی کا 64فی صد ہے، ان کے مقابلے میں ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں شرح خواندگی 99فی صد تک پہنچ چکی ہے، شاید یہ ایک فی صد وہ بچے ہیں جو ابھی اسکول جانے کی عمر کو نہیں پہنچے، آزادانہ ذرایع کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 50فی صد سے کم ہے، سابقہ فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں میں یہ شرح اور بھی کم ہو جاتی ہے، کم ترقی یافتہ علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی کل آبادی کی 8 فی صد سے بھی کم ہے۔
پاکستان میں آبادی کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے، جب تک تعلیم عام نہیں ہوگی خصوصاً خواتین میں، اس وقت تک شرح پیدائش میں کمی نہیں ہوسکتی، جہالت، ناکافی تعلیم، ناکافی خوراک، بیماریاں، ناکافی علاج، یہ سب عوامل مل کر اوسط عمراور انسانی کارکرگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
اکتوبر 1999میں دنیا کی آبادی 6 ارب تھی، یہ تعداد 1960کے مقابلے میں دگنی تھی، 2009 میں یہ آبادی بڑھ کر 6 ارب 60کروڑ ہو گئی، اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب 50 کروڑ ہے، ان میں سے 5ارب 90 کروڑ لوگ غریب ممالک کے باشندے ہوں گے، موجودہ پاکستان (سابقہ مغربی پاکستان) کی آبادی قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلی مردم شماری منعقدہ 1951ء کے مطابق 3 کروڑ 70 لاکھ تھی، آج یہ آبادی 20/22 کروڑ ہے، 1951کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی میں تقریباً 7 گنا اضافہ ہو گیا ہے، آبادی میں یہ بے تحاشہ اضافہ بھی پاکستان کے اقتصادی مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، پیدائش میں اضافے کی یہ شرح ایک اور مسئلے کو جنم دیتی ہے، غریب ممالک کے لوگوں کو 15 سال سے کم عمر کے لاکھوں بچوں کے پالنے کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت کل آبادی کا 40 فی صد 15سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے، غریب ممالک میں لاکھوں کروڑوں بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، یہ بچے زرعی زمینوں، کارخانوں، ورکشاپوں اور گلی کی دکانوں اور ہوٹلوں میں مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان بچوں کی بڑی تعداد گندگی کے ڈھیروں میں خوراک اور دوسری کارآمد اشیاء ڈھونڈنے میں مشغول رہتی ہے، بڑے ہوٹلوں اور شادی ہالوں کے باہر غریبوں کے جم غفیر دیکھے جا سکتے ہیں، ان بچوں کا ایک علاج ہے کہ ان کے لیے کافی تعداد میں اسکول بنائے جائیں جہاں یہ بچے تعلیم حاصل کرسکیں، سوال یہ ہے کہ سامراجی ممالک کے مقروض، سود کے مارے، دفاعی اخراجات اور گلوبلائزیشن کے نیچے سسکتے ہوئے ممالک اتنے اسکول کیسے تعمیر کریں گے، اگر یہ بچے کسی طرح تعلیم حاصل کر بھی لیں تو یہ غریب ممالک ان کو روزگار کہاں سے دیں گے۔
آج یہ بیکاربچے جو تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں، اکثر بری صحبتوں میں بیٹھ کر جرائم کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں، غریب ممالک کے بچے خاص کر پاکستان میں القاعدہ، طالبان اور دوسری انتہا پسند مذہبی تنظیموں کے لیے ایک بہترین نرسری ہیں، غریب والدین اپنے بچوں کو اسکول کی جگہ دینی مدارس میں تعلیم دینے پر مجبور ہیں، اسکولوں کی بھاری فیسوں کی برداشت نہ رکھنے والے والدین کے لیے مدرسوں کی مفت تعلیم، قیام و طعام ایک نعمت سے کم نہیں ہوتی، یہ بچے باہر آکر جہاد کے لیے بالکل تیار ہوتے ہیں، اس کے باوجود سامراجی ممالک تعلیم کی طرف توجہ دینے کے بجائے مزید مہنگائی لانے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔
لارڈ ولیس ہائوس آف لارڈز برطانیہ میں وزارت خارجہ اور امور دولت مشترکہ کے ترجمان تھے، ریون اسٹریٹ یوتھ سینٹر میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "امریکا میں بنیاد پرست عیسائیت کا عروج دنیا بھر میں امن کے لیے خطرہ ہے، کیونکہ وہ اسلام کے خلاف جنگ چاہتے ہیں، جب کہ برطانیہ میں تمام مذاہب کے لوگ امن و امان سے رہتے ہیں، انھوں نے کہا کہ لبرل ڈیموکریٹس ایک لبرل معاشرے کے لیے کام کر رہے ہیں، ہم قدامت پرستی کے خلاف ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ ہم عراق پر حملے کے شدید مخالف تھے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی"۔ اس سے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے کہ امریکا کے عیسائی انتہا پسند اور پاکستان کے اسلامی انتہا پسند دونوں ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، دونوں ہی سامراج کی لوٹ مار کو مذہبی اور تہذیبوں کی جنگ کا رنگ دے کر سامراجی لوٹ مار طبقاتی جنگ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر تے ہیں۔
سامراج کی اس لوٹ مار کو کتنا ہی پردوں میں چھپایا جائے، اس کے اثرات ظاہر ہوکر رہتے ہیں، پاکستان کو دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا دیا گیا، کل اسی پاکستان کو سوویٹ یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا گیا تھا، اس وقت اس کے ذمے مجاہدین کو تیار کرنا، ان کو ٹریننگ دینا اور ان کو کیمپ اور دوسری سہولیات مہیا کرنا تھا، پھرپاکستان کو ان سابقہ مجاہدین اور نو دریافت شدہ "دہشت گرد وں " کو ختم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا، اس جنگ کے نقصانات بھی پاکستان اٹھا رہا ہے لیکن اس کے باوجود تھوڑے سے قرضے کے لیے پاکستان کو بار بار IMFکی منتیں کرنی پڑتی ہیں، وہ کبھی ٹیکس بڑھانے کی ہدایات جاری کرتا ہے اور کبھی بجلی کو مہنگا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ سامراجی ممالک کے سود میں کوئی کمی نہ ہو جائے۔ ان سامراجی ممالک کو کوئی فکر نہیں کہ پاکستان کے بچے ان کی پالیسیوں کی بدولت غربت اور جہالت کا شکار ہو رہے ہیں، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ طبقاتی جنگ ہے نہ کہ تہذیبوں کی جنگ، سامراجی ممالک پہلے بھی غریب ممالک کے وسائل کو لوٹ رہے تھے اور آج بھی لوٹ رہے ہیں، اس جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ عالمی سرمایہ داری کا خاتمہ اور سوشلسٹ نظام کی کامیابی ہے۔
اس ساری صورت حال میں پاکستان کو عجیب حالات کا سامنا ہے، مشرقی اور مغربی سرحدوں پر مسلسل کشیدگی نے دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ کردیا اور ملک کو ایک سیکیورٹی ریاست بنا دیا، ملک کی معاشی صورت حال دن بدن خراب ہو رہی ہے، مہنگائی اور بیروزگاری کے ساتھ ساتھ، تعلیمیافتہ بیروزگاروں کی فوج میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، ان حالات میں جب تک ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہوں اور ملک کے اندر سیاسی استحکام نہ ہوتو حالات میں تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، ان مسائل کا واحد حل ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے۔