سبط حسن ایک عظیم انقلابی دانشور
پاکستان کی ترقی پسند اور سامراج دشمن تحریک کا ذکر سید سبط حسن کے ذکر کے بغیر ادھورا ہوتا ہے، میں نے اور بہت سے دیگر دوستوں نے زیادہ تر سیاسی شعور سبط حسن کو پڑھ کر حاصل کیا۔
20 اپریل عظیم انقلابی دانشور سید سبط حسن کی برسی تھی، شاید ہی کوئی با شعورسیاسی کارکن ہو گا جس نے ما ضی کے مزار، موسی سے ما رکس تک، نوید فکر، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، شہر نگاراں، انقلاب ایران، افکار تازہ، ادب اور روشن خیالی، سخن در سخن، مغنی آتش نفس، The Battle of ideas in pakistan، جیسے علمی اور انقلابی کتابوں کو نہ پڑھا ہو، ان کتابوں نے کروڑوں دلوں کو روشنیوں اور انقلابی امنگوں سے منّور کر دیا۔
روشن خیالی، اعتدال پسندی، لبرل ازم، سیکولر ازم، اور سوشلزم ان سب کے متعلق معلومات، تاریخی پس منظر اور دلائل کے ساتھ ان کتابوں میں موجود ہیں، اس عظیم علمی خزانے کا مصنف سیّد سبط حسن 20اپریل 1986کو دہلی میں حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے، جہاں وہ "انجمن ترقی پسند مصنفین" کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ سبط حسن صرف نظریاتی مصنف نہ تھے بلکہ عملی طور پر انھوں نے کمیونسٹ پا رٹی آ ف انڈیا کے پلیٹ فارم سے سامراج مخالف تحریک میں حصہ لیا تھا۔
31 جولائی 1916کو یو پی کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے اس شخص کا ذہن ابتداء ہی سے ترقی پسند رحجانات اور تحقیق کی طرف مائل تھا اور انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بہت جلد ہی ترقی پسند تحریک کے سرخیل سجاد ظہیر (بنے بھائی) کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی، انھوں نے سبط حسن کو " انجمن ترقی پسند مصنفین" کو منظم کرنے کا کام سونپا، اس تحریک نے بر صغیر کے ترقی پسند اورسامراج دشمن ادیبوں اور شاعروں کو منظم کرکے قومی آ زادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔
ایک زمیندار گھرانے سے تعلق کی بناء پر انھوں نے اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کی، انھوں نے علی گڑھ یو نیور سٹی سے تاریخ میں گریجویشن کیا، پھر انھوں نے نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس آ گئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے، انھوں نے لکھنو سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے رسالے " نیا ادب" کا اجراء کیا۔ وہ روزنامہ National Heraldکے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔
انقلابی نظریے کے ساتھ ان کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب کامریڈسجاد ظہیر نے ان کو دعوت دی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی کارکن کی حیثیت سے پارٹی کے رسالے "قومی جنگ " کے عملہ ادارت میں شامل ہو جائیں تو انھوں نے فوراً ان کے حکم کی تعمیل کی، کل وقتی کارکن کی حیثیت سے ان کا ماہانہ معاوضہ تیس روپے تھا، ان کی رہائش پارٹی کے ہیڈ کوارٹرمیں تھی، ماہانہ سترہ روپے کھانے کے اور پانچ روپے کرایہ کی کٹوتی کے بعد ان کے پاس ماہانہ اخراجات کے لیے صر ف آٹھ روپے بچ جاتے تھے، ان حالات میں انھوں نے عوام کے حقوق کی جنگ میں اپنا عیش وآرام تیاگ کرکے زندگی گزاری۔
انھوں نے تمام عمر اپنے نظریے کی ترویج کے لیے وقف کرد ی تھی اور موت تک اس پر کار بند رہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے ہیں، وہ پاکستان کمیو نسٹ پارٹی کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کرلی کیونکہ کمیونسٹ پارٹی نے قیام پاکستان کو تسلیم کیا تھا، 1948 میں سبط حسن امریکا سے واپسی پر پارٹی حکم کے مطابق پاکستان آ گئے، پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے اپنی پہلی کانگریس میں سید سجاد ظہیر کو اپنا جنرل سیکریٹری منتخب کیا، وہ لاہور میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں قیام پذیر تھے، سبط حسن بھی ان کے پاس آ گئے۔
بانی پاکستان نے قیام پاکستان کی بنیاد ایک جمہوری، سیکولرملک کے طور پر رکھی تھی، بدقسمتی سے ان کی موت کے بعد مسلم لیگ کے جاگیر دار طبقے نے انگریز کی پروردہ بیوروکریسی اورآمریت کے ساتھ مل کر ملک کو یرغمال بنا لیا، دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سامراجی کیمپ اور سوشلسٹ کیمپ کے درمیان سرد جنگ کے دوران حکمران طبقوں نے ملک کو سامراجی اڈہ بنا دیا، یہاں پر جمہوریت کو کبھی پنپنے کا موقعہ نہیں دیا گیا۔
1951میں "راول پنڈی سازش کیس " کے نام سے ایک نام نہاد سازش کا تانا بانا بنا گیا، اس نام نہاد کیس کے نام پر بہت سے ترقی پسندافراد کو گرفتار کیاگیا، گرفتار شدگان میں سید سبط حسن، سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، مرزا ابراہیم، دادا فیروز الدین منصور، ایرک سپرین، محمد افضل، کامریڈ حسن ناصر، میجر جنرل اکبر خان، میجر محمد اسحاق، کیپٹن ظفراللہ پوشنی، حسن عابدی سمیت بہت سے دیگر سیاسی کارکن شامل تھے، بہت سے کارکن مفرور ہوگئے۔
1954 میں حکومت پاکستان نے امریکی سامراج کی ایماء پر کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی لگا دی، اس وقت پاکستان امریکی سامراج کے ساتھ سیٹو اور سینٹو جیسے کمیونسٹ مخالف دفاعی معاہدوں پر دستخط کرکے امریکا کے کیمپ میں جا چکا تھا، 1955 میں حکومت نے سبط حسن، سجاد ظہیر، فیض احمد فیض سمیت بہت سے کارکنوں کو رہا کر دیا، بدقسمتی سے اس دھچکے اور مسلسل ریاستی جبر کی وجہ سے ترقی پسند تحریک دوبارہ پوری طاقت سے آج تک منظم نہ ہو سکی۔
قید وبند کی یہ صعو بتیں سبط حسن کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو ئیں، انھوں نے باقی زند گی تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دی، اس دوران انھوں نے بہت سی قیمتی کتابیں لکھیں، جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے، وہ ہفت روزہ "لیل و نہار" کے ایڈیٹر بھی رہے، 970 1 میں انھوں نے ترقی پسند ادب کا رسالہ "پاکستانی ادب" بھی نکالا، اس رسالے میں مشہور افسانہ نگار سعیدہ گزدر بھی ان کی ساتھی تھیں۔
آج پاکستان مسلسل آمریتوں اور حکمران طبقوں کی سازشوں کی بدولت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں سے مڑنا اس کے مشکل ہوچکا ہے، ایک ایسا ملک جہاں پر اب تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ اس کا نظام کیسیہوگا؟ رومن ایمپائر کے گلیڈی ایٹر ز (Gladiators)، یا ہندوستانی فلم "شعلے" کے گھبر سنگھ کی طرح ہاتھوں میں تلواریں اور بندوقیں لیے لوگ آکرآ ئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے ہیں، سب کچھ لوٹ کر چلے جاتے ہیں اور چند سال بعد پھر آکر یہ عمل دہراتے ہیں، اب تو بم بردار اور ڈنڈا بردار قوتوں نے بزور شریعت نافذ کرنا شروع کر دیا ہے، جن کے سامنے گھبر سنگھ بھی بے بس دکھائی دیتا ہے۔
ان حالات میں ہر ذی شعور انسان کو سبط حسن کی کتابیں پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ کتابیں ہی موجودہ تا ریکی کے دور میں روشنی کا مینار ہیں، سرمایہ داروں کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک ناکام ہے لیکن میرا یقین ہے کہ آج اگر ملک میں تھوڑا بہت سیاسی شعور موجود ہے اور اس تاریکی میں روشنی کی تھوڑی سی کرن بھی نظر آتی ہے تو یہ سبط حسن اور ترقی پسند تحریک کا احسان ہے، آج کے حالات میں سبط حسن جیسے روشن خیال، عوام دوست دانشوروں کی اس قوم کو سخت ضرورت ہے، ترقی پسند جہاں بھی ہیں وہ تاریکی کے نمایندوں سے بر سر پیکار رہیں گے اور شکست قبول نہیں کریں گے، یہ سبط حسن کا پیغام ہے۔ بقول شاعر۔
؎
یہ شوق سفر ایسا، ایک عہد سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا