پاکستان کا مقصد کیا؟
دنیا میں شاید ہمارا واحد ملک ہے جو اب تک اپنی پیدائش کے مقصد کی تلاش میں ہے، پیدائش کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں دو ملک بنے اور انھیں انگریزسامراج سے آزادی ملی تھی، ہندوستان نے تو اپنی صدیوں پرانی شناخت کے ساتھ آزادی حاصل کی جب کہ پاکستان کی پیدائش ہوئی تھی کیونکہ 14اگست سے قبل یہ ملک موجود نہیں تھا، اس لیے غلامی اور آزادی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ خدا کے فضل سے پاکستان اب ستر سال کا ہو گیا ہے لیکن ہمارے بعض دانشور اب بھی اس کی پیدائش یا قیام کا مقصد ڈھونڈ رہے ہیں۔
قائد اعظم نے کیا کہا اور اس کا مفہوم کیا ہے؟ ایک پروفیسر صاحب کالم لکھتے ہیں، یہ صاحب قائد اعظم پر اپنے آپ کو آخری اتھارٹی سمجھتے ہیں اور قائد اعظم کو ایک مولانا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایک حالیہ کالم میں انھوں نے لکھا ہے کہ لبرل، سیکولراور دین سے بے زار لوگ قائد اعظم کی 11اگست 1947 والی تقریر کے چند سطور یاد کرتے ہیں، وہ سطور جن میں قائد نے کہا تھا کہ "اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں، آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں "۔
پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ "بظاہر یہ حضرات اقلیتوں کے حقوق اور غیر مسلموں کی برابری کی بات کرتے ہیں، لیکن دراصل اس کی آڑ میں وہ اسلامی حوالے سے ممنوع عیاشیوں کی آزادی چاہتے ہیں "۔ پروفیسر صاحب کے متعلق صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ "اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو"۔ اب اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں۔
پاکستان کے دانشور جس الجھن میں پھنسے ہوئے، اس کا نام "نظریہ پاکستان" ہے، حکمرانوں اور ان کے جاگیرداراتحادی طبقوں نے اس ملک کو تنگ گلی میں پہنچا دیا ہے جہاں سے آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے، آئیے اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ "پاکستان نظریہ پاکستان کی بنیاد پر قائم ہوا" اس کا واضح مطلب کوئی نہیں بتا سکتا صرف کہتے ہیں کہ مطلب اسلامی نظام کا قیام ہے۔
اگر ہم قیام پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے کبھی سرکاری طور پر "نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریے" کی نہ تشریح کی ہے اورنہ اس کو اپنا نظریہ قرار دیا ہے، یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کے سوا ہندوستان کے تقریباً سارے نامور علماء کرام نے مسلم لیگ کا ساتھ نہیں دیا، یہاں تک کہ جمیعت علمائے ہند بھی اتفاق نہیں کرتی تھی حالانکہ مسلم لیگ نے ہی مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا، یہ واقعہ خالد بن سعید نے اپنی کتاب(Pakistan، The Formative Phase.) کے صفحہ 216پر تحریر کیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک دستاویز جو بہت اہمیت کی حامل ہے وہ1940 کی قراداد ہے، جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی اس میں بھی "نظریہ پاکستان" کی طرف کوئی اشارہ ہے اور نہ ہی ان الفاظ کا کوئی ذکر موجود ہے، اس قرار داد میں پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے بارے میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے، قائد اعظم نے کئی مواقع پر تھیوکریسی واضح طور پر نفی کی ہے اور کسی نے ان سے اختلاف نہیں کیا۔
فلپس اور وین رائٹ نے اپنی کتاب "Partition of India;Policies and Prospective 1935-47″ء میں ایک باب راجہ صاحب محمود آباد کے بارے میں لکھا ہے، صفحہ 388-389 پر وہ لکھتے ہیں کہ راجہ صاحب محمود آبادامیر احمد خان قائد اعظم کے بہت ہی قریبی ساتھیوں میں تھے، ان کا کہنا تھا کہ "میں جوانی میں اس بارے میں کافی پر جوش تھاکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگی۔
میں اپنی تقاریر میں بات کیا کرتا تھا، پھر قائد اعظم نے مجھے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تقاریر میں مذہبی ریاست کہنے سے منع کیا، ان کا خیا ل تھا کہ چونکہ میں ان کے بہت قریب ہوں، اس لیے لوگ سمجھیں گے کہ یہ ان کے خیالات کی ترجمانی ہے، اپریل 1946 میں دہلی میں مسلمان ممبران اسمبلی کی کانفرنس ہوئی اس کانفرنس میں قائد اعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ "ہماری جدوجہد کا مقصد ملا ازم (Theocracy) لانانہیں اور نہ ہی ایک مذہبی ریاست کا قیام چاہتے ہیں "۔
شاید اسی لیے مولانا مودودی نے اپنی مشہور کتاب "مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش۔ حصہ سوم۔" (دفتر ترجمان القرآن۔ پٹھان کوٹ۔ صفحہ 92 108-)میں تحریر کیا ہے کہ " میرے لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا آپ کے اس پاکستان میں حکومت کی بنیاد" خدا کی حاکمیت "پر ہوگی یا مغربی جمہوریت کے اصولوں کے مطابق۔ اگر پہلی والی صورت حال ہو تو یقیناً یہ پاکستان ہوگا ورنہ یہ علاقہ اسی طرح کا ہوگا جیسے وہ علاقے جہاں پر تمہاری اسکیم کے مطابق غیر مسلم حکمران ہوں گے "۔
جب پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 1954 میں آئین بنایا تو یہ جمہوری اصولوں پر مبنی تھا، اس وقت ایک اسلامی اسکالر اور ایک مذہبی جماعت کے سربراہ نے کہا تھا کہ "آئین کا کردار بڑی حد تک اسلامی ہے، اس لیے اس کو نافذ کیا جائے"اسی جنرل یحیی کے تیار کردہ عبوری آئینی خاکے(LFO) کو بھی اسلامی قرار دیا گیا تھا۔
معلوم نہیں پاکستان کے ایک مخصوص طبقے کا اسلامی نظام سے کیا مراد ہے؟ کیا پاکستان کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل نہیں ہے، کیا پاکستان کے لوگوں کو مزید مسلمان بنانے کی ضرورت ہے؟ اگر اختیار پارلیمنٹ کا ہو تو ٹھیک ورنہ پھر ان حضرات کو کرسی اقتدار پر بٹھانا ہوگا تاکہ وہ نظام کو اسلامی بنا سکیں۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ ایم ایم اے کی مذہبی پارٹیوں نے جنرل مشرف کی ساتویں ترمیم کو ووٹ دیتے وقت ان کے سامنے یہ شرط نہیں رکھی کہ نظام کو اسلامی بنایا جائے، اگر انسانوں کو اچھا مسلمان بنانا مقصود ہو تو اس کے لیے تالیف قلب کا اصول اپنانا چائیے نہ کہ ریاستی جبر کا اصول۔
اگر یہی مباحث مزید شدت اختیار کرگئے تو پھر ہمارا بھی وہی حشر ہوگا جو طالبان کے ہاتھوں افغانستان اور ہمارے ملک میں سوات میں ہوا۔ ہم نے مصلحت جاری رکھی تو ڈر ہے کہ ہم اپنے ملک کو کہیں یورپ کے تاریک عہد میں رومن کیتھولک چرچ کی مذہبی عدالتوں (Inquisition) کی طرح نہ بنا دیں، ان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے رومن کلیسا نے چار سو سال کے بعد برونو اور گلیلیو کی روحوں سے معافی مانگی۔
نظریہ پاکستان کیا ہے؟ جنرل یحیی خان کے وزیر جنرل شیر علی کا ایجاد کردہ لفظ جس کو حکمران طبقوں نے اپنا اور نصاب کا حصہ بنا دیا، جہاں تک ایک ریاست کا تعلق ہے تو بحیثیت ریاست اس کی کوئی مخصوص آئیڈیالوجی یا نظریہ حیات نہیں ہوتا، نظریات وہ سیاسی اور ریاستی قوتیں بناتی ہیں، جو اس ریاست پر حکومت کرتی اور فرمانروا ہوتی ہیں۔
زار شاہی کے روس کی کوئی آئیڈیالوجی نہیں تھی، جب زار شاہی کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ کمیونسٹ برسر اقتدار آئے تو وہ ایک مخصوص نظریاتی ریاست بن گئی، چیانگ کائی شیک کا چین اس چین سے بالکل مختلف تھا جو ماؤزے تنگ اور چو این ائی کا تھا۔ گاندھی اور نہرو کے نظریات کے مطابق ہندوستان ایک سیکولر ملک تھا لیکن آج مودی نے اس کی شکل تبدیل کردی، اتاترک کے سیکولر ترکی کو آج طیب اردگان خلافت اسلامیہ میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے، عوام ہی پاکستان کے نظریے کی تشکیل کریں گے۔ اگرکبھی یہاں کمیونسٹ حکومت میں آئے تو ریاست کا نظریہ بھی بد ل جائے گا، اس لیے مذہبی طبقوں کو جمہوری طریقے سے عوام کی حمایت حاصل کرنا چاہیے۔