میثاق جمہوریت
چارٹر آف ڈیموکریسی کی داستان غم اور جمہوری پارٹیوں کی نا اہلیوں کی داستان جاری ہے۔
اس دستاویز پر دستخط کر نے والے فریقین نے ابتدایے میں اس کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے پاکستان میں جس جمہوری نظام کا خاکہ پیش کیا تھا، ان کا حصول کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کے لیے بہت سے عملی اقدامات کرنے تھے، ان عملی اقدامات کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا، کوشش کی گئی کہ ریاست، حکومت اور فرد کی سطح پر وہ تمام خرابیاں اور نا انصافیاں دور کی جائیں جس نے پچھلے ساٹھ سالوں سے عوام کی زندگی کو عذاب بنایا ہوا تھا، ایک بورژوا جمہوری نظام کے تمام لوازمات کو اس فہرست میں سمو دیا گیا۔
اس تاریخی دستاویز کے پیچھے جمہوری حقوق غصب ہونے والے واقعات کی ان کہی کہا نیاں موجود تھیں، اس دستاویز کو پاکستان کا "میگنا کارٹا" بھی کہا جا سکتا ہے۔ دستاویز کی زبان بہت جامع اور خوبصورت ہے، دونوں طرف سے کمیٹی کے ارکان نے سخت محنت کے بعد اس خوبصورت اور جامع دستاویز کی تدوین کی، دستاویز کے مندرجہ ذیل چار حصے ہیں۔
(A) اس حصے میں ان مجوزہ ا ٓئینی ترامیم کی تفصیل بیان کی گئی ہے جو میثاق جمہوریت کے مطابق ایک جمہوری نظام لانے کے لیے ضروری تھیں کیونکہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے مختلف آئینی ترامیم کے ذریعے 1973ء کے آئین کاحلیہ بگاڑ کر رکھ دیاتھا، اب یہ آئین پارلیمانی نہیں بلکہ صدارتی بن چکا تھا، اس میں ایک آزاد عدلیہ کے قیام کے لیے عدلیہ کے جج صاحبان کی تقرر ی کے لیے اس میں ایک شفاف نظام بھی دیا گیا ہے۔
(B)اس حصے کو (code of conduct) یا "ضابطہ اخلاق" کا نام دیا گیا ہے، اس حصے میں حکومت کے مختلف اداروں کی کمزوریاں اور ان کو ٹھیک طریقے سے چلانے کے طریقے تجویز کیے گئے ہیں، ایک اچھی حکومت کی خوبیاں اس حصے میں بیان کی گئی ہیں۔
(C) اس حصے کو (Free and fair election) (آزادانہ اور شفاف انتخابات)کا عنوان دیا گیا ہے اور اس میں ایک آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور اس کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا طریقہ کار تجویز کیا گیا ہے۔
(D) اس حصے کا عنوان ہے (civil and military relation) سول اور فوج کے تعلقات)، اس حصے میں ان اقدامات کی تجاویز دی گئی ہیں جن کے ذریعے سول بالا دستی قائم ہو اور کرپشن جیسی خرابیوں کا خاتمہ شامل ہیں۔
اب ان نکات کی تفصیل ملاحظہ ہو۔ (یہاں سے میثاق جمہوریت کا اصلی متن شروع ہوتا ہے)۔
(A)آئینی ترامیم(Constitutional Amendments)۔ (1) 1973ء کے آئین کو 12اکتوبر 1999ء والی صورت میں بحال کیا جائے گا، مخلوط انتخابات، پارلیمنٹ میں پارٹیوں کی دی ہوئی لسٹوں کے مطابق اقلیتوں اور خواتین کی نشستوں کی الاٹمنٹ، ووٹر کی عمر میں کمی اورپارلیمنٹ کی نشستوں میں اضافہ، ان شقوں کے علاوہ باقی LFO-2000اور آئین میں 17ویں ترمیم کو منسوخ کر دیا جائے گا۔
(2) صوبائی گورنروں، دیگر اہم تقرریاں وزیر اعظم کرے گا جو 1973ء کے آئین کے مطابق چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ (3) (a) اعلی عد لیہ کے جج صاحبان کی تقرری کے لیے ایک کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا، یہ کمیشن مندرجہ ذیل ممبران پر مشتمل ہوگا۔
(i) چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان ہو گا، بشرطیکہ اس نے کبھی PCO کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو۔ (ii) دیگر ممبران میں صوبائی ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان ہوں گے، جنھوں نے کبھی بھی PCO کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو، اگر انھوں نے حلف اٹھایا ہو تو اس صورت میں اس ہائی کورٹ کا کوئی سینئر جج اس کمیشن کا ممبر ہوگا جس نے PCO کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو۔ (iii) پاکستان بار کونسل کا وائس چیئرمین، صوبوں کے ہائی کورٹس میں ججوں کی تعیناتی کے وقت متعلقہ صوبائی بار کونسلوں کے وائس چیئرمین۔ (iv) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر۔ (v) صوبائی ہائی کورٹوں میں ججوں کی تقرری کے وقت متعلقہ (کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ) ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر۔ (vi)مرکزی وزیر قانون و انصاف۔) (viiاٹارنی جنرل آف پاکستان۔
(a-i)کمیشن ہر عہد ے پر تعیناتی کے لیے وزیر اعظم کو تین نام بھیجے گا، وزیر اعظم ان میں سے ایک نام مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گا، کمیٹی اپنے کھلے اجلاس میں شفاف طریقے سے عوامی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے public hearing (transparent) اس نام کی منظوری پر بحث کرے گی اور اس کی منظوری دے گی۔
(a-ii) مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں 50 فی صد ممبر سرکاری بنچوں سے ہونگے، باقی 50 فی صد ممبرحزب اختلاف سے لیے جائیں گے، حزب اختلاف کی پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈر اپنی تعداد کے حساب سے اس کمیٹی کے لیے اپنی پارٹیوں کے ممبران منتخب کریں گے۔
(b) کوئی بھی جج 1973کے آئین میں دیے گئے، الفاظ کے علاوہ کسی PCO کے تحت یا کوئی اور حلف نہیں اٹھائے گا۔
(c) مس کنڈکٹ روکنے، ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد اور ججوں کی برطرفی کے لیے ایک میکینزم بنایا جائے گا، کوئی بھی شہری کسی بھی جج کے خلاف مجوزہ کمیشن کے ذریعے شکایت لا سکے گا۔
تمام خصوصی عدالتیں ختم کر دی جائیں گی، ہر قسم کے مقدمات کی سماعت عام عدالتوں میں ہو گی، مختلف ججوں کے پاس مقدمات بھجوانے اورمختلف بنچوں میں جج صاحبان کی ٹرانسفر کے بارے میں چیف جسٹس صاحبان کو حاصل اختیارات ایک کمیٹی کو منتقل کر دیے جائیں گے، جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔
(4)آئینی معاملات کے حل کے لیے ایک آئینی وفاقی عدالت قائم کی جائے گی، اس عدالت میں تمام وفاقی اکائیوں کو مساوی نمائندگی دی جائے گی، اس عدالت کے جج سپریم کورٹ کے جج صاحبان یا ایسے افراد ہوں گے جو سپریم کورٹ کے جج بننے کے اہل ہوں، یہ عدالت چھ سال کے لیے قائم کی جائے گی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس عام سول اور فوجداری مقدمات کی سماعت کریں گی، آئینی عدالت میں ججوں کی تقرری کے لیے وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا جو اعلی عدلیہ کے جج صاحبان کی تقرری کے لیے اختیار کیا جائے گا۔
(5)آئین میں دیے گئے کنکرنٹ لسٹ (concurrent list)کو ختم کر دیا جائے گا، صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے لیے نئے NFC ایوارڈ کا اعلان کیا جائے گا۔
(6) پارٹیوں کو عام انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں گی۔
(7) اقلیتوں کو نمائندگی دینے کی غرض سے سینیٹ کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا۔
(8) فاٹا (FATA) کے قبائلی علاقوں کو وہاں کے عوام کے صلاح مشورے سے صوبہ سرحد میں شامل کیا جائے گا۔
(9)شمالی علاقہ جات کی ترقی کے لیے ان کو ایک خاص حیثیت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات میں قائم "قانون ساز کونسل" کو زیادہ با اختیار بنایا جائے گا تاکہ وہاں کے عوام کو انصاف تک رسائی اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں آسانی ہو۔
(10) لوکل کونسلوں کے انتخابات سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر کرائے جائیں گے، یہ انتخابات ہر صوبے میں صوبائی الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی ہوں گے، ان بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دیا جائے گا اوران کو خود مختار بنایا جائے گا، یہ ادارے اپنی صوبائی اسمبلیوں کو جواب دہ ہوں گے، عوام بھی عام عدالتوں کے ذریعے ان کا احتساب کر سکیں گے۔