جمہوریت کی بنیاد‘ بلدیاتی نظام
عمران خان نے فیصل آباد میں صنعت کاروں سے اپنے خطاب میں ایک دفعہ پھر دعویٰ کیا کہ ہم ایک اچھا بلدیاتی نظام لا رہے ہیں، جس میں میئر کو عوام منتخب کریں گے۔
عمران خان ہر تقریر میں اچھا بلدیاتی نظام لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ حکومت بناتے ہی تحریک انصاف نے پنجاب میں قائم بلدیاتی ادارے ختم کر دیے اور اسلام آباد کے منتخب میئر کو استعفا دینے پر مجبور کر دیا، پنجاب کے بلدیاتی اداروں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ ان اداروں کی میعاد باقی ہے۔
اس لیے ان کو بحال کیا جائے۔ خیبر پختونخوا میں سابقہ بلدیاتی اداروں کو ختم ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا، وہاں پر آئین کے مطابق نئے انتخابات نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے شدید تنقید کی ہے، اب حکومت نے ترامیم کے بعد جو قانون بنایا ہے، اس میں ضلع کونسل کے ادارے کو ختم کر دیا گیا ہے۔
پہلے یونین کونسل کو ختم کر دیا اور اب ضلع ہی ختم کر دیا گیا، اب بھی معلوم نہیں کہ الیکشن کب ہوں گے، ڈھائی سال حکومت کو ہو گئے، پہلے سے قائم بلدیاتی ادارے ختم کر دیے گئے اور نئے قائم نہ ہو سکے اور دعویٰ ہے بہترین بلدیاتی نظام کے قیام کا، ریاست مدینہ کے بجائے ریاست عمرانی کا عجیب و غریب نظام نافذ ہے، جو کام نہیں کرنا اس کا چرچا کرنا ان کی عادت ہے۔
آئین کے مطابق جمہوری نظام کا ڈھانچہ، مرکزی حکومت، صوبائی حکومت اور بلدیاتی نظام کے تین درجات پر مشتمل ہونا چاہیے، پاکستان میں عجیب صورت حال ہے، جب پارلیمنٹ نہیں ہوتی اور غیر جمہوری حکومت ہو تو بلدیاتی نظام خوب مضبوط ہوتا ہے اور جب پارلیمنٹ موجود ہو اور جمہوری حکومت ہو تو پھر بلدیاتی ادارے نہیں ہوتے، یعنی جمہوریت کے کبھی پیر نہیں ہوتے اور کبھی سر نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک کی ضرورت ایک ایسے جمہوری نظام کی ہے جس میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں۔
مرکز سے صوبوں تک تو 18 ویں ترمیم کے ذریعے کچھ نہ کچھ اختیارات منتقل ہو گئے لیکن جو سیاستدان مونچھوں کو تاؤ دے کر 18 ویں ترمیم پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے نہیں تھکتے، وہ بھی جب صوبائی حکومت میں آتے ہیں تو صوبے سے مالی اور انتظامی اختیارات ضلعوں اور یونین کونسل تک منتقل کرنے کے موڈ میں نہیں ہوتے، حالانکہ یہ ایک جمہوری وفاق کا لازمی جز ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بلدیاتی نظام ناکام ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے ہر حکمران اپنے ساتھ نیا بلدیاتی نظام لے آتا ہے۔
اس لیے بھی کوئی نظام بھی قدم نہ جما سکا، جنرل مشرف کے دور میں ضلع حکومت کا ایک بہتر نظام قائم ہوا تھا لیکن وہ بھی ختم کر دیا گیا، اب عمران خان کئی سال سے اچھے بلدیاتی نظام کا لالی پاپ دے رہے ہیں لیکن ابھی تک عوام کو نظر نہیں آیا۔ بلدیاتی نظام اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ذریعے مالیاتی اور انتظامی وسائل کی رسائی معاشرے کے نچلے اور وسیع حصے تک ہوتی ہے، اس لیے یہ نظام عوام کے مسائل بھی حل کر سکتا ہے اور ان کو معاشرے میں اپنے حقوق و فرائض سے بھی آگاہ کر سکتا ہے۔
اچھا بلدیاتی نظام اپنے لیے مالیاتی وسائل بھی پیدا کر سکتا ہے، جدید دور میں تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک تقسیم ایک بہتر حکومت اور نچلی سطح تک ترقی کی ثمرات پہنچانے کی بنیاد بنتی ہے۔ چین میں ایک وحدانی آئینی نظام نافذ ہے جس میں تمام اختیارات مرکز کے پاس ہوتے ہیں، اس کے باوجود لوکل کونسل کا ایک مضبوط نظام قائم کیا گیا ہے اور سرکاری ملازمین کا 90 فی صد بلدیاتی نظام سے متعلق ہے، صوبائی حکومتوں کا کام محدود ہے، ان کا کام صرف مرکز کی طرف سے بلدیاتی اداروں کی نگرانی اور مدد کرنا ہے۔
پاکستان میں معاشرے کی نچلی سطح تک ترقی اور خدمات کے ثمرات نہیں پہنچتے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اختیارات کی مرکزیت کی وجہ سے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کا نچلی سطح تک رسائی نہ ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے عوام حکومت، اداروں اور ریاست دونوں سے بیزار ہو جاتے ہیں اور ہر مسئلے پر احتجاج اور ہڑتالوں کے عادی ہو جاتے ہیں کیونکہ مسائل کے حل کا یہ واحد طریقہ ان کو آتا ہے اور اپنا مسئلہ اوپر تک پہنچانے کا کوئی دوسرا ذریعہ ان کے پاس نہیں ہوتا اس طریقے سے انتظامیہ بھی ان کے مسائل سے آگاہ ہو جاتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد حکومت نے صوبوں اور بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی منتقلی سے تسائل برتا اور مرکزی سطح پر سول اور ملٹری بیوروکریسی کو اختیارات مرتکز کیے، اختیارات کی مرکزیت کی ان غلط پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف ملک میں ترقی یکساں نہ ہو سکی بلکہ ملک کو کئی حادثات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 140-Aکے مطابق، صوبائی حکومتوں پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں بلدیاتی نظام قائم کریں، بدقسمتی سے جمہوری کہلانے والی سول حکومتوں نے کبھی تین درجات کا نظام قائم نہیں کیا، مرکزی، صوبائی اور بلدیاتی نظام کا قیام ایک آئینی ذمے داری ہے لیکن مالی اور انتظامی اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے شوق نے اس نظام کو ترقی کرنے نہیں دی، عوام کے منتخب ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی کی خواہش ہوتی ہے کہ انتظامی اور مالی اختیارات ان کے ہاتھ میں رہیں، ایک تو وہ اس سے مالی فائدے اٹھاتے ہیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے ترقیاتی کاموں کے لیے بھی ٹھیکے اپنے یار دوستوں کو دیتے ہیں اور پھر عوام کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ میں نے گلیوں اور نالیوں کی مرمت کے "کارنامے" سر انجام دیے ہیں۔
حالانکہ نالیوں اور گلیوں کی مرمت وغیرہ بلدیاتی اداروں کی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی وجہ سے ملک ہمیشہ جمہوری حکومتوں کے دور میں بلدیاتی نظام سے محروم رہا، عجیب امر یہ ہے کہ تینوں فوجی حکومتوں نے بلدیاتی نظام کو قائم کیا اور اس کے ذریعے عوام کو کچھ اختیارات دیے اور عالمی سطح پر اپنی جمہوریت پسندی کا پرچار کیا، ہر غیر جمہوری حکومت نے بلدیاتی نظام تو قائم کیا لیکن اپنی خواہشات کے مطابق اس کی تشکیل کی، صدر ایوب خان نے تو اس کو انتخابی حلقے کی شکل بھی دی، اس طرح پاکستان کے حکمران طبقے یعنی آمریت، بیوروکریسی اور سیاستدان اس ملک کو ایک مستحکم، عوامی نظام حکومت دینے میں ناکام رہے۔ جس کا زور ہوتا ہے اس کا نظام چلتا ہے۔
آج بھی عمران خان کے دعوؤں کے باوجود ملک بلد یاتی نظام سے محروم ہے، جو بلدیاتی نظام سابقہ حکومت نے قائم کیا تھا وہ بھی اس حکومت نے ختم کر دیا، اس گناہ میں ملک کے سارے حکمران طبقات شامل ہیں، یہی وجہ ہے پاکستان کو ایک بہتر نظام حکومت نصیب نہ ہو سکا اور ہر صوبہ اور علاقہ محرومیت کا رونا رو رہا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں لوکل گورنمنٹ کا اچھا نظام قائم کیا گیا تھا اور اس سے نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم واضح ہو گئی تھی۔
جنرل مشرف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی حکومتوں نے اس نظام کو ختم کر دیا اور اس طرح ترقی کا وہ عمل جو شروع ہوا تھا کو ختم کر دیا گیا، اصل میں اس نظام کی وجہ سے نوکر شاہی کے بجائے سارے اختیارات منتخب ممبران کو منتقل ہوئے تھے، اس لیے نوکر شاہی اور سیاستدان سب اس کے خلاف تھے، اس نظام کے اندر خرابیوں کی اصلاح کے بجائے اس نظام کو ہی ختم کر دیا گیا، اس طرح ملک ایک اچھے نظام سے محروم ہو گیا۔
سیاستدان بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ انھوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے مرکز سے اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیے، اب تک یہ مسئلہ بھی حل نہ ہو سکا کہ اس ترمیم پر کتنا عمل ہوا ہے کیونکہ صوبے ابھی تک حقوق کے لیے سرگرداں ہیں۔
اس کے علاوہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح NFC ایوارڈ مرکز سے صوبوں کو مالیاتی وسائل دیتی ہے، اسی طرح اب صوبوں میں بھی اسی طرح کا ایوارڈ کا ادارہ بنایا جائے جو ایک فارمولے کے تحت صوبے سے ضلعوں، تحصیلوں اور یونین کونسلوں تک وسائل کی تقسیم کا فارمولا طے کرے اور اس کے مطابق صوبے کے وسائل تقسیم کرے، یہ طریقہ غلط ہے کہ حکمران پارٹی کے اسمبلی کے ممبر کو بیس کروڑ اور حزب اختلاف کے ممبر کو اپنے حلقے کے لیے دو کروڑ روپے پر ٹرخا دیا جائے، یہ پاکستان کے عوام کا پیسہ ہے اور اس پر ہر شہری کا حق ہے۔
اس لیے ترقیاتی فنڈ کسی فارمولے کے تحت تقسیم ہونا چاہیے نہ کہ وزیر اعلیٰ کی مرضی سے۔ اپنی مرضی سے وہ اپنی جیب سے مال تقسیم کرے لیکن عوام کے وسائل کو عوام تک منصفانہ طریقے سے تقسیم ہونا چاہیے، یہ وسائل سیاسی رشوت کے طور پر نہیں بلکہ عوامی دولت کے طور پر تقسیم ہونے چاہیے۔ پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم چیف جسٹس وقار سیٹھ نے بھی حزب اختلاف کے ممبروں کے دائر کردہ فنڈ کی غیر منصفانہ تقسیم کے بارے میں کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ فنڈ کسی کی مرضی سے نہیں بلکہ ایک فارمولے کے تحت تقسیم ہونے چاہیے۔
خیبر پختونخوا کی حکومت نے اپنے ہی 2018 کے بلدیاتی قانون میں ترمیم کر کے ضلع کونسل کو ختم کر دیا، مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے تمام محکمے مثلاً تعلیم، صحت، زراعت اور پبلک ہیلتھ وغیرہ ضلع کی سطح پر منظم ہوتے ہیں، ان کے ہیڈ کوارٹر ضلع سطح پر ہوتے ہیں اور انچارج بھی ضلع سطح پر ہوتے ہیں، اب اگر ضلع نہیں ہو گا تو تحصیل ناظم کیسے ان کے افسران کے ساتھ رابطہ رکھے گا، تحصیل میں تو ان کا کوئی دفتر نہیں ہوتا، اس کے علاوہ ایک ضلع کے چار تحصیل ہوں تو وہ آپس میں کس ذریعے سے رابطہ رکھیں گے۔
حکومت کو یہ غلط فیصلہ واپس لینا چاہیے اور یونین کونسل کو بھی بحال کرنا چاہیے، یونین کونسل کی تقسیم اور پھر ضلع کی تقسیم اس نظام کو اور بھی پیچیدہ بنا دے گی، ان ترامیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بلدیاتی نظام کی بحالی میں دلچسپی نہیں رکھتی، ورنہ یہ سارے کام کم عرصے میں ہو سکتے ہیں۔