انصاف کا ستون گر گیا
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کو صدارت کے الیکشن میں لطیف لالا کی کامیابی کی خوشی تھی کہ اچانک عدلیہ کی ایک عظیم شخصیت کی ناگہانی موت سے وکلاء برادری سمیت پوری عدلیہ میں غم کی لہر دوڑ گئی، ان کی موت اتنی اچانک ہوئی کہ پوری وکلاء برادری حیران رہ گئی، ان کی بیماری کی کسی کو خبر ہوئی اور نہ ہی ان کی صحت کی خراب صورت حال کی، بس اچانک کورونا سے ان کی موت کی خبر آئی۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محترم وقار سیٹھ، قانون، آئین اور آزاد عدلیہ کی بالا دستی کے لیے لڑتے لڑتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔ ان کی ناگہانی موت سے انصاف کے میدان کو بہت بڑا نقصان ہوا، ان کی سانسیں تو رک گئیں لیکن ان کی عظمت، ان کی سچائی اور بے لوث کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، وہ مرکر بھی اپنے فیصلوں کی وجہ سے زندہ رہیں گے۔
مرکزی حکومت نے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت تشکیل دی اور جسٹس وقار احمد سیٹھ کو اس کا چیئرمین مقرر کیا، اس خصوصی عدالت میں مقدمہ سابق صدر جنرل مشرف کے خلاف تھا، عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے اس کیس کا دلیرانہ فیصلہ کر دیا۔
جس طرح اس حکومت کا ہر کام مضحکہ خیز ہوتا ہے اسی طرح ان کا یہ اعلان کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے بھی عجیب تھا کیونکہ "اس کیس میں حکومت خود مدعی تھی۔ یہ شاید دنیا کا پہلا کیس تھا، جس میں مدعی اپنے حق میں فیصلہ آنے پر ناراض تھا۔ اس کیس کے فیصلے نے جسٹس صاحب کو غیر ضروری طور پر سیاست کا موضوع بحث بنا دیا، ورنہ ان کی عدالتی تاریخ بہت شاندار رہی ہے، جناب جسٹس وقار احمد سیٹھ کے والد بھی سیشن جج تھے۔
ان کو پشاور ہائی کورٹ میں 2 اگست 2011 کو بطور ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور 28 جون 2018 کو ان کی بطور چیف جسٹس تعیناتی ہوئی، موجودہ فیصلوں سے قبل بھی ان کے بہت سے اہم فیصلے منظر عام پر آئے تھے۔ محترم جسٹس وقار بہت دلیری اور بغیر کسی خوف یا ہمدردی کے میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں۔
جناب جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ڈبل بنچ نے ایک اور تاریخی فیصلہ 17 اکتوبر 2019 کو دیا، مرکزی حکومت نے ایک قانون جاری کیا، جسٹس وقار سیٹھ نے اس قانون اور اس کے ساتھ پانچ دوسرے قوانین کو غیر جمہوری اور آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا۔ مرکزی اور صوبائی حکومت نے ان فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جو وہاں زیر سماعت ہیں۔
صوبائی حکومت نے سابقہ فاٹا کے اضلاع میں، انضمام کے بعد انتظامیہ کے افسران کو عدالتی اختیارات بھی دیے تھے، اس بنچ نے 30 اکتوبر کواس قانون کو بھی غیر آئینی قرار دیا اور قرار دیا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد فاٹا صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور اب یہاں پر بھی آئین کے مطابق عدلیہ اور انتظامیہ کا الگ نظام قائم ہو گا، انھوں نے سابقہ فاٹا میں ایک ماہ کے اندر عدلیہ کا باقاعدہ نظام قائم کرنے کا حکم دیا، عدالت عظمیٰ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا لیکن فاٹا میں عدالتی نظام قائم کرنے کے لیے ایک ماہ کی مدت بڑھا کر چھ ماہ کر دی۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اپنے ممبران کو ترقیاتی فنڈز سے نواز رہی تھی اور اپوزیشن ارکان محروم رکھ رہی تھی، اپوزیشن کے 30 ممبران نے ہائی کورٹ میں کیس کر دیا، 11 ستمبر کو چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے حکم دیا کہ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا یہ طریقہ کار غلط ہے اور حکم دیا کہ صوبائی حکومت فنڈز تقسیم کے بارے میں ایک ہفتہ کے اندر باقاعدہ رولز بنائے اور رولز کے بغیرکوئی بھی فنڈ امبریلا اسکیم کے تحت (Block Allocation) کے نام پر جاری نہ کیا جائے۔
پچھلے سال جسٹس وقار احمد سیٹھ نے نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ BRT کی تعمیر اور بے ضابطگیوں کے خلاف تحقیقات کرے لیکن صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ اس حکم امتناعی کے خلاف پچھلے ایک سال سے نیب نے کوئی درخواست دائر نہیں کی چیف جسٹس جناب وقار احمد سیٹھ کا نام پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ جوآئین اور قانون کی پاسداری اور بالا دستی کے لیے کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاکرے۔