بورژوا جمہوریت رو بہ زوال ہے
ایک سوال بہت دنوں سے میرے ذہن میں اٹھ رہا ہے کہ کیا امریکا، پاکستان اور انڈیا کے نظام حکومت کمزور ہیں یا عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے کہ مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔؟
کیا ڈونلڈٹرمپ، عمران خان اور نریندر مودی، بورژوا جمہوریت کے خاتمے کی نشانیاں ہیں، کیا واقعی سرمایہ داری اور سیاسی بورژوا جمہوریت اب عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں؟ اس لیے اب ایک نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔ کیا کارل مارکس اور اینگلز کی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ریاستوں کے خاتمے کی پیشن گوئیاں صحیح ثابت ہو رہی ہیں؟ ۔ جمہوری ریاستوں کی ناکامی صرف ان تین ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری جمہوری دنیا بحران سے دوچار ہے۔
امریکا بری حالت میں ہے، اس مثالی جمہوریت کا یہ حشر ہوگا یہ کس کے گمان میں تھا؟ ہم پاکستان کے انتخابی نتائج کو رو رہے تھے کہ اوپر سے امریکی صدر نے نتائج ماننے سے انکار کردیا اور پارلیمنٹ پر حملہ؟ صدر ٹرمپ سفید فام نسلی بالادستی کے قوم پرستانہ فسطائی نظریے کا پرچارک ہے، نیو لبرل ورلڈ آرڈر کو تو اس نے تہس نس کردیا ہے، جس کی جگہ وہ ایک فاشسٹ ورلڈ آرڈر مسلط کرنا چاہتا تھا، اس نے امریکا کو فاشزم، نسل پرستی اور نیو لبرل ازم کے "جمہوری نظریے" کے ماننے والوں میں تقسیم کردیا ہے۔
اب صدر جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی پرانے نظام کی بحالی کی کوشش کرے گی، یوں امریکی جمہوری نظام آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن جائے گا۔ امریکا کا موجودہ سیاسی اور معاشی بحران دراصل اس کی خوفناک سرمایہ داری، ماحولیاتی تباہ کاری، حیاتیاتی و جینیاتی بحران اور کورونا وبا کا لا ینحل بحران ہے، کر ونا نے سرمایہ دار ملکوں کی ترقی کا بھانڈا پھوڑ دیا، صحت کی سہولیات کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے امیر ترین ممالک اپنے لوگو ںکی صحت اور زندگیوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہے۔
دوسری طرف معاشی ابتلاء کے زمانے میں بھی اس کے ارب پتیوں کی دولت میں کھربوں ڈالر زکا اضافہ ہوا ہے، جب کہ ایک فی صد امیر لوگ امریکا کی تقریباً دوتہائی دولت پر قابض ہیں اور کروڑوں محتاج اور بے روزگار، اس بحران میں جب منڈی کی معیشت کا پہیہ رک گیا تو پھر ریاست کو ڈالر چھاپ کر بڑی مالیاتی اور صنعتی کارپوریشنوں کا شکم بھرنا پڑا اور لوگوں کو سوشل ویلفیئر فنڈ دینا پڑا، تاکہ وہ اشیاء کی طلب کو برقرار رکھ سکیں۔
اس نظام کے خلاف اگر برنی سینڈرز سامنے آیا تو اس کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے مقتدرہ نے اس کا گلا گھونٹ دیا، اب بائیڈن کو نیو لبرل ایجنڈے یعنی آزاد منڈی کی معیشت کو برقرار رکھنے میں کافی مشکات کا سامنا ہوگا۔ دولت کی عالمی اور مقامی غیر منصفانہ تقسیم، بڑھتی طبقاتی خلیج اور جدید ٹیکنالوجی اور ابلاغی انقلاب کے بعد دنیا کا نقشہ بدلنے جا رہا ہے، اب پرانے اجارہ دارانہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام کو پرانے، سامراجی طریقوں سے برقرار رکھنا مشکل ہوگا جو بائیڈن کے حلف وفاداری کے لیے ہزاروں نیشنل گارڈ ز کا تعین کیا گیا ہے کیونکہ ٹرمپ کے انتہا پسند ساتھیوں کی طرف سے حملوں کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ بے چاری امریکی جمہوریت؟
دنیا میں جمہوری نظام رکھنے والے ممالک میں ہندوستان کی آبادی سب سے زیادہ ہے، اسی لیے ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، جمہوریت اور سیکولر ازم لازم و ملزوم ہیں، اس لیے یہ ملک ایک سیکولر ملک بھی تھا۔ بھارتی جنتا پارٹی کی حکومتیں بھی آئیں لیکن ہندوستان کی سیکولر شناخت باقی رہی، اب نریندر مودی کی حکومت میں سیکولرزم، مذہبی آزادی اور رواداری کا وہ حال کیا گیا، کہ تمام مذہبی اقلیتوں کی حالت قابل رحم ہے، خاص کر مسلمانوں کی۔ صرف گائے ذبح کرنے کے الزام پر لوگ قتل کیے جاتے ہیں، ہندو انتہا پسندوں اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے انتہا پسندوں نے دیگر مذاہب کے علاوہ ہندو لبرل طبقے کی زندگی بھی حرام کردی ہے۔
پاکستان کا بحیثیت ریاست عجیب حال ہے، ملک کیوں بنا؟ اس کے قیام کے مقاصد کیا تھے، 74سال گزرنے کے بعد بھی یہ سوالات پوچھے جاتے ہیں اور بڑے بڑے دانشور اس پر بحث کرتے ہیں اور بعض حضرات تو اب بھی بضد ہیں کہ پاکستان اسلامی خلافت قائم کرنے کے لیے بنا تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی وہی اس کے حامی بن گئے ہیں۔ قائد اعظم کی سیاسی سوچ11اگست 1947 کی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے واضع ہے۔ آج ریاست نے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری عوام پر ڈال دی ہے اگر کسی کے پاس طاقت ہے تو وہ محفوظ ہے ورنہ قاتلوں کے اس ملک میں پولیس کا کوئی کام نہیں ہے، تعلیم کی حالت بری ہے، سرکاری اسکول اور تعلیمی ادارے تباہی کے کنارے پر کھڑے ہیں، حالیہ حکومت نے تو بدنظمی، بد انتظامی اور بدحالی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، مذہبی طبقات بھی ہر وقت حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں۔
آج کی جمہوریت اصل میں بورژوا جمہوریت ہے، سرمایہ دار طبقے نے جمہوریت کے لیے بھی کچھ اصول مقرر کیے ہیں، پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اتنا بے بس اورنا اہل ہے کہ اپنے نظام حکومت کو بھی صحیح بورژوا جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں چلا سکتا، بدقسمتی سے ہمارا سرمایہ دار طبقہ بھی تاریخی اور روایتی بورواژی نہیں ہے بلکہ مصنوعی طریقوں سے سرمایہ دار بنا ہے، اس لیے اپاہج ہے اور ہمیشہ دو بیساکھیوں کے سہارے چلنے کا عادی ہے، ہمیشہ اس طبقے کے ایک بغل میں ملا اور دوسرے میں مارشل لاء رہا ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظام اب آخری دم پر ہے۔
تین چار صدیوں کے راج کے بعد اب بورژوا جمہوریت بوڑھی ہو چکی ہے اور متبادل کے انتظار میں ہے، سوشلزم ایک بہتر متبادل ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے نہ حالات تیار ہیں اور نہ ابھی تک، عالمی سطح پر اس نظام کی کوئی متفقہ شکل سامنے آئی ہے لیکن انسانیت کب تک انتظار کرے گی؟ اس نظام کا متبادل ڈھونڈنا ترقی پسند قوتوں کا فرض ہے۔