امریکا اورملٹی پولر دنیا
1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے پر مغربی سامراجی خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے، ایک مارکسسٹ دانشور نے 1991 کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "آج یہ سامراجی بیہودہ جشن کے نشے میں دھت ہیں، یہ نہیں جانتے کہ روس اور چین میں سوشلزم کے خاتمے کے بعد سرمایہ داری پروان چڑھے گی، سرمایہ دارانہ روس ایک قوم پرست اور جارحانہ طاقت کے طور پر ان کے لیے وبال جان بن جائے گا "وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
سامراجی ممالک کو سوشلزم کے خاتمے کے بعد بھی سکون نصیب نہیں ہورہا۔ مغرب کے تھنک ٹینکس نے تقریباً ایک عشرہ قبل ہی یہ پیشن گوئی کی تھی کہ "یونی پولر ورلڈ" کا خاتمہ ہو رہا ہے اور سرد جنگ کے عہد کی طرح دنیا پھر دو بڑے بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے، دنیا کا سب سے طاقتور بلاک، روس، چین، ایران، شام اور لاطینی امریکی ممالک کا بن رہا ہے۔
حالیہ G7 کانفرنس اس امر کا ثبوت ہے، گزشتہ دنوں جی سیون(G-7)کہلانے والے دنیا کے طاقتور اقتصادی اور جمہوریت کے علمبردار ممالک کا سربراہی اجلاس برطانیہ کے ساحلی شہر کارن وال میں منعقد ہوا، عالمی معاشی قوت کے حامل ان ممالک میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی اٹلی، فرانس اور جاپان شامل ہیں، بتایا گیا تھا کہ اس اجلاس کا مقصد کورونا کے تناظر میں عالمی دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنا اورنئے امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ امریکا اور دوسرے ممالک کے تعلقات کی بحالی تھی جوسابقہ صدر ٹرمپ کے دور میں خراب ہو گئے تھے۔
اب تک ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ ممالک اپنے آپ کو دنیا بھر کے حکمران سمجھتے ہیں، ان کو کسی کا خوف نہیں اور جو پالیسی یہ اختیار کریں دنیا کے تمام ممالک کو ان پر چلنا ہوگا، ورنہ سب کا انجام عراق اور لیبیا جیسے ہوگا اور یہ کہ ان کو کسی سے خطرہ نہیں کسی سے ڈرتے نہیں بلکہ دوسرے ممالک ان سے خوفزدہ ہیں۔ سوشلسٹ کیمپ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ تھا لیکن ان کی سازشوں نے اس کو ختم کردیا، سوویت یونین کے انہدام کے بعد اب دنیا میں امن ہی امن ہے اور ان کی بدمعاشی ہے لیکن وہ پرانی کہاوت سچ نکلی کہ ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ پیدا ہوتا ہے۔
اجلاس کے بیانات اور نتائج سے معلوم ہواکہ یار لوگوں کو چین کی فکر کھا رہی ہے اور اس اجلاس کا مقصد چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کے سامنے بند باندھنا تھا، امریکا نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر چین کی عالمی معیشت پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے مختلف پالیسیوں پر تبادلہ خیال کیا، ادھر ناٹو نے ایک بیان میں چین کی بڑھتی ہوئی مسلح طاقت اور سمندروں میں اس کی بحری بیڑے کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور چین کے بڑے منصوبوں مثلًا بیلٹ اینڈ روڈ اور دفاعی منصوبوں کو ختم کرنے کے لیے مختلف تجاویز دیں، امریکا نے ایک متبادل کھربوں ڈالر کے لاگت کا (3W) کے منصوبے کا اعلان کیا اور چین کی تجارتی فتوحات کو ختم کرنے کا ارادہ بھی ظاہرکیا اور یقین ہے کہ ان منصوبوں میں شمولیت کے لیے ترقی پذیر ملکوں پر دباؤ بھی ڈالا جائے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے چین اور روس کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔
اس اعلان کے مقابلے میں چین نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ "وہ دن چلے گئے جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کے فیصلے کرتے تھے، عالمی سطح پر چھوٹے بڑے، غریب اور امیر ممالک سب برابر ہیں اور عالمی امور میں تمام ملکوں کی مشاورت سے فیصلے ہونے چاہیے"۔ ایک بات ثابت ہوچکی ہے امریکا میں نئے صدر نے ٹرمپ کی بہت سی پالیسیوں کو تبدیل کیا لیکن چین کے بارے میں پالیسی تبدیل نہیں کی، اس سے ثابت ہوا کہ امریکا چین کو اپنے مقابل سپر پاورمانتا ہے اور روس اور چین کے اتحاد کو اپنے لیے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں روس اور چین کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور دفاعی پالیسیوں نے سامراجی کیمپ کو خوف میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ ہر سامراجی منصوبے کے سامنے یہ دونوں مزاحمت کرتے ہیں۔ شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس کے دوران بھی روس اور چین کے صدور ماحول پر چھائے رہے، اس سے قبل روس میں حال ہی میں ایک بہت بڑا معاشی میلہ سجایا گیا۔
یہ سالانہ سینٹ پیٹرز برگ اکنامک فورم کا میلہ تھا اور شرکاکے لحاظ سے یہ فورم سوئیٹزر لینڈ کے "ورلڈ اکنامک فورم" سے بڑا تھا، اس فورم میں چین کے صدر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی، اگر چہ اس فورم کا مقصد تاجروں اور صنعت کاروں کو روس میں سرمایہ کاری کے لیے ترغیبات دینا تھا، لیکن اس موقعہ پر روس اور چین کے رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں یہ باور کرا دیا ہے کہ ان دونوں ملکوں کا تعاون دنیا کے استحکام کے لیے لازمی ہے، کیونکہ امریکا نے دنیا میں ہر طرف گند پھیلایا ہوا ہے، اس میلے میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اورچین کے صدر شی جن پنگ نے جو لہجہ اور بیانیہ اختیار کیا، وہ اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، بلکہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ دنیا میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں ایک نیا بلاک بن رہا ہے۔
چین کے صدر نے روس کو اپنا اسٹرٹیجک شراکت دار قرار دیا، انھوں نے یہ کہہ کر دنیا کو حیران کردیا کہ گزشتہ6برسوں میں ان دونوں نے30مرتبہ ملاقات کی ہے، دوسری طرف یہ رپورٹیں بھی ہیں کہ چین نے اعلان کیا ہے کہ امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے چین کا بینک ایران کے ساتھ کام کرے گا۔
یوکرائن میں ہونے والے واقعات اور کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق مغربی سرمایہ داری کے زوال اور بے بسی کی عکاسی کرتا ہے، روس کے عوام اپنی عظمت رفتہ کو یاد کرکے غصے میں تلملاتے ہیں اور اس حالت میں جب سامراجی قوتیں روس یا اس کے سابقہ اتحادیوں کے خلاف حرکت میں آتی ہیں تو حکومت اور عوام دونوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔
بہت عرصے سے سامراجی طاقتیں روس کو آخری حد تک دیوار سے لگانے کی سازشیں کر رہی ہیں، ان کو اس بات پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ روس میں دوبارہ زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ پروشیا کے جنگی بادشاہ فریڈرک دی گریٹ کی مشہور کہاوت ہے کہ " جو لوگ سب کچھ بچانے کی کوشش کرتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں بچا پاتے"۔ ہر نوجوان افسر کو فریڈرک کی یہ بات اپنے پلے باندھنی چاہیے۔ 1991میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب مغربی طاقتیں اور ناٹو طاقت کے نشے میں سرشار تھیں اور پورے سوویت یونین کو ہڑپ کرنے کے منصوبے بنا رہی تھیں تو اس وقت بعض جنگی اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے ناٹو کو مشورہ دیا تھا کہ "مشرق کی طرف روسی سرحدوں کی طرف زیادہ نہ بڑھیں، یہ پل بہت خطرناک ہے"۔
سوویت یونین کے سیکریٹری جنرل میخائیل گورباچوف نے اس بات سے تو اتفاق کرلیا تھا کہ باغی مشرقی جرمنی کو سوشلسٹ بلاک سے نکلنے کی اجازت دے دے لیکن ساتھ ہی ناٹو نے یہ وعدہ بھی کر لیا کہ ناٹو افواج مشرق کی طرف سوویت یونین کے اتحادی مشرقی یورپ کے ممالک اور کاکیشیا کے علاقوں میں مداخلت نہیں کریں گی، امریکا اور ناٹو نے اس امر سے اتفاق کیا تھا لیکن روس کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے جلد ہی اپنے وعدوں سے پھر گئے۔ پچھلے کچھ سالوں کے واقعات اس امر کے گواہ ہیں کہ امریکی سامراج نے روس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ان سازشوں اور اقدامات نے واقعی روسی قوم پرستی کو جگا دیا اور روسی ریچھ کو خواب غفلت سے بیدار کر دیا، سوویت یونین کے انہدام نے روس، وسطی ایشیاء اور مشرقی یورپ کے عوام کو برباد کرکے رکھ دیا ہے، تاریخی طور پر یہ آگے کے بجائے پیچھے کی طرف قدم تھا، منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کے بعد ان ملکوں میں جرائم اور کرپشن پر مبنی سرمایہ داری استوار ہوئی ہے، سوویت دور میں تعلیم، علاج، رہائش اور بجلی کی مفت سہولیات اب ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔
دوسری طرف معاشی میدان میں ڈالر کے مقابلے میں (BRICS)کا معاشی اتحاد بھی مضبوط ہو رہا ہے، ناٹو کا ممبر ترکی بھی، امریکی مخالفت کے باوجود روسی میزائیل خریدنے میں سنجیدہ نظر آرہا ہے، روسی مداخلت نے وینزویلا میں بھی امریکی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے، شام میں بشارا لاسد حکومت کا استحکام امریکا کے سینے پر بوجھ بنا ہوا ہے، شام اور وینزویلا میں امریکی سازشوں کی ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا اب یونی پولر یا "یک قطبی"نہیں رہی بلکہ ملٹی پولر ہے۔