Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Jamil Marghuz
  3. Afghanistan Ka Mustaqbil (2)

Afghanistan Ka Mustaqbil (2)

افغانستان کا مستقبل (2)

کابل میں لڑکیوں کے ایک اسکول پر تین راکٹ داغے گئے، جس کے نتیجے میں 55طالبات شہید اور 52زخمی ہو گئیں، طالبان نے ذمے دا ری لینے سے انکار کر دیا اور الزام داعش پر ڈال دیا، مرنے والوں میں زیادہ تر نو عمر طالبات تھیں، یہ بھی ایک الگ ڈرامہ ہے کہ حملہ کرو اور ذمے داری دوسروں پر ڈال دو، اب تو شروعات ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

اگر داعش اس طرح امن تباہ کر سکتی ہے تو پھر طالبان سے امن معاہدے کے لیے بھاگ دوڑ کیوں؟ اب تک طالبان حملوں سے انکاری تھے لیکن اب وہ عید پر باقاعدہ تین دن کی جنگ بندی کا یکطرفہ اعلان کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ طالبان کی عسکری طاقت کو ختم کیا جائے، زلمے خلیل زاد صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو امریکی فوج دوبارہ آجائے گی، حضور کس کو کہہ رہے ہو؟

اگرآپ اتنے بہادر ہیں تو اتنی افراتفری میں بھاگنے کی کیا ضرورت ہے؟ ، تھوڑی فوج افغانستان میں رہنے دیتے، آپ تو سارا گند پاکستان کی جھولی میں ڈال کر جا رہے ہیں، ہمارے حکمران بھی منہ میں انگلی دبائے ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، اب حالات اور بھی خراب ہو رہے ہیں کیونکہ طالبان کی حکمت عملی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے زبردستی کابل پر قبضے کا فیصلہ کر لیا ہے، ہماری حالت یہ ہے کہ، بقول خشونت سنگھ۔

وہ وقت بھی دیکھے ہیں، تاریخ کی گھڑیوں نے

لمحوں نے خطاکی تھی، صدیوں نے سزا پائی

AFPکی5مئی کی خبرکے مطابق، افغانستان کے جنوبی خطے سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد لڑائی میں شدت آگئی ہے، ہلمند سے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں، امریکی افواج نے اتوار کے روز ہلمند کا فوجی اڈہ افغان فورسز کے حوالے کیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق قندھار ائر فیلڈ کا منظر نامہ اور جنگی ساز و سامان کی منتقلی ایسا منظر پیش کر رہا ہے، جیسے اونے پونے گھر کا کاٹھ کباڑ نکالا جا رہا ہو۔

امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں فوجیوں کی افغانستان سے واپسی، طالبان کو شکست دینے اور 9/11کے ذمے دار دہشت گرد وں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے شروع کیے جانے والا کھربوں ڈالر کے جنگی منصوبے کے اختتام کی منظر کشی کی ہے، جو بہرحال ویت نام کے برعکس ذرا عزت والا فرار ہے یعنی ذرا آرام سے سامان کے ساتھ جا رہے ہیں، وہاں تو سب کچھ چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں بھاگے تھے۔

سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہیری کلنٹن نے CNNسے بات کرتے ہوئے اہم مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، انھوں نے کہا ہے کہ امریکی افواج کی افغانستان سے بغیر کسی سیاسی سمجھوتے کے اخراج میں کئی خطرات پوشیدہ ہیں، طالبان کو امریکہ نے2001 میں اقتدار سے نکال باہر کردیا تھا، اب امکان ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیں گے، CNNکے فرید زکریا نے ان سے صدر بائیڈن کے فیصلے کے بارے میں پوچھا، ہیری کلنٹن کا جواب تھا کہ ہمیں اس فیصلے کے دو اہم نتائج پر سوچنا ہو گا۔

اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ تمام انتہا پسند گروپوں کی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوجائیں اور طالبان اقتدار پر قبضہ کرلیں، جس کے نتیجے میں ایک اور طویل خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے، دوسرے یہ کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے نتیجے میں مہاجرین کا انخلاء شروع ہوجائے گا۔

ہیری کلنٹن کے اس تجزیے سے بہت سے امریکی متفق ہیں، سابقہ وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس نے بھی ان کی حمایت کی ہے، پاکستان میں آج بھی تقریباً چالیس لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجر موجود ہیں جب کہ ایک اور ریلہ ہمارے ملک کو تباہ کردے گا، کیونکہ ہماری اپنی معاشی حالت انتہائی خراب ہے۔

پاک افغان سرحد پر اربوں روپے کی لاگت اور فوج کی جرات کی بدولت جو حفاظتی باڑ لگائی جارہی ہے، اسے افغانستان سے آنے والے نئے مہاجرین نقصان پہنچا سکتے ہیں، افغانستان میں غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے ترجمانوں نے اپیل کی ہے کہ ان کی جانیں خطے میں ہیں، اس لیے ان کے خاندانوں کو بھی یورپ میں پناہ دی جائے، غرض افراتفری کا عالم ہے، ادھر امریکی، پاکستانی اور دوسرے ممالک کے سفارت کار بھی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں، ہر کسی کو اپنی انوسٹمنٹ اور پڑوس میں بدامنی کی فکر ہے۔

امریکی جرنیل صاحبان بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ اگر جنگ بند نہ ہوئی اور طالبان نے امن معاہدہ نہ کیا تو پھر القاعدہ اور داعش کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان ہے، اس کا واضح مطلب کیا ہے؟ یہی کہ اس وقت کم امکان ہے کہ افغانستان میں کوئی ڈیل ہو جائے، بلکہ زیادہ امکان وہاں جنگ اور تباہی کا ہے، جو پاکستان کے لیے بھی زہر قاتل ہے، ایک طرف اس تباہی کے اثرات پاکستان پر پڑیں گے تو دوسری طرف افغان الزام لگائیں گے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ پاکستان کی وجہ سے ہوا، تیسری طرف امریکہ اور ناٹو اپنی ناکامیوں کا ذمے دار پاکستان بنائے گا۔

افغانستان میں جنگ کے طول پکڑنے کی وجہ سے پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بھی تقویت ملتی ہے، پاکستان ابھی تک انتہا پسندوں، طالبان، اور القاعدہ کی باقیات سے نمٹ رہا ہے ۔

افغان طالبان کا مسئلہ کیا ہے؟ حکومتوں کے ساتھ ہمیشہ لوگ اختلاف کرتے ہیں لیکن ریاست کے خلاف جنگ نہیں کرتے، طالبان اگر حکومت کے خلاف ہیں تو ان کے ساتھ لڑنا شاید اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ریاست کے ساتھ کیوں لڑ رہے ہیں۔ یہ چیزیں تو ریاست افغانستان کی ملکیت ہیں، بڑی مشکلوں سے بنائی گئی ہیں، پھر کب بنیں گی؟

جب طالبان نے 1996 کے دوران کابل میں اپنی حکومت قائم کی تو ان کے اقدامات سے یہ امر واضح تھا، طالبان نے ریڈیوکابل کا نام بدل کر" شریعت غگ"(شریعت کی آواز) رکھ دیا، افغانستان کے قومی جھنڈے اور ترانے پر پابندی لگا دی، جشن نوروزپر پابندی لگا دی، جرگوں کو غیر اسلامی قرار دے کر پابندی عائد کردی۔

طالبان نے دوہا میں کہا ہے کہ اگر پلان Aناکام ہو گیا تو ہم پلان Bبھی رکھتے ہیں، اب صورت حال یہ ہے کہ یہ لوگ پاک افغان سرحد کے نزدیکی علاقوں میں جمع ہو رہے ہیں، کیا یہ پلان Bکا حصہ ہے؟ سابقہ فاٹا کے علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک بار پھرشروع ہوتا نظر آرہا ہے، با اثر شخصیات اور سیاسی کارکنوں کا قتل جاری ہے۔

یقین ہے کہ طالبان اپنا پرانا ایجنڈہ مکمل کرنے کے لیے نئے سرے سے اقدامات کریں گے، اب یہ عالمی طاقتوں اور افغانستان کی جمہوری قوتوں کا فرض ہے کہ ان کا ہاتھ روکے، ورنہ صرف افغانستان نہیں بلکہ پورے خطے کو تباہی کا سامنا ہوگا۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad