تالیاں بجاتی قوم
یادداشتیں کمزور تکلیف یہ بھی، اخلاقیات کا جنازہ اُٹھ چکا دُکھ اسکا بھی، مگر اصل غم یہ کہ جہنم کے دروازے پر "یہ جنت ہے " کی تختی لگا کر کہا جارہا "یہ جنت تمہاری "اور خوشی سے پھولے نہ سمائی قوم اچھل اچھل کر تالیاں بجارہی !
26 جون 2012، زرداری حکومت، جلسۂ عام سے خطاب کرتے میاں صاحب فرماتے ہیں "کیاتمہیں عوام نے اس لئے ووٹ دیا کہ تم آئے روز سپریم کورٹ سے لڑتے پھرو، تمہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا پڑے گا "، 8 اگست 2012، جب وزیراعظم گیلانی کی نااہلی ہو چکی تومیاں صاحب بولے " یہ کیا بات ہوئی، سپریم کورٹ فیصلہ دے اور آپ اسے ماننے سے انکار کردیں، یہ حیوانوں کی بستی نہیں، انسانوں کی بستی ہے، انسانوں کی بستی، ہم اسے حیوانوں کی بستی نہیں بننے دیں گے "پھر وقت بدلا، فیصلہ اپنے خلاف آگیا تو یہی میاں صاحب کہہ اُٹھے "ججز بغض وعناد سے بھرے بیٹھے، کروڑوں لوگوں نے مجھے منتخب کیااور5 افراد نے نااہل کر دیا، ججز ہی مخالف وکیل بن گئے، میری عدلیہ نے تو ہمیشہ آمروں کا ساتھ دیا، سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینا ہوگا، میں بتادوں ہم بے وقوف، پاگل یابھیڑ بکریاں نہیں، ہم نہیں مانیں گے فیصلے کو "، مریم صاحبہ بولیں " ججز نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی اور انصاف کا تماشا بناد یا گیا"، دل تو چاہ رہا کہ باپ بیٹی سے پوچھوں جب غلام اسحق خان نے اسمبلیاں توڑیں تو کس نے ریلیف دیا، جب 9 سال بعد وطن واپس آکردرخواست دی تو کس نے سب، مقدمے، جرمانے اور سزائیں ختم کرکے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی اور پھروہ بھی سپریم کورٹ ہی تھی جس نے گیلانی صاحب کو نااہل کیا، آپ نے تب عوامی عدالت کا آپشن گیلانی صاحب کو کیوں نہ دیا، جی تو کر رہا کہ مریم صاحبہ سے کہوں جب سپریم کورٹ میں جعلی ڈاکو منٹس پیش کئے تو اس عدلیہ نے ہی یہ کہا " یہ جعلی پن دیکھ کر آج ہمارا دل ٹوٹ گیا "اوراس عدلیہ نے اٹارنی جنرل اشتراوصاف سے یہ بھی پوچھا کہ اس جعلی پن کی کتنی سزا تو اٹارنی جنرل نے کہہ دیا کہ اس کی سزا 7 سال قید با مشقت۔ ۔ مگر دختر قائد اسی عدلیہ نے دل بڑا کر کے معاملہ نظر انداز کر دیا ورنہ کچھ اور بھی ہو سکتا تھا اور پھر یہ کیوں بھلا بیٹھے کہ اسی عدلیہ نے سروں پر لٹکتی حدیبیہ تلوار ہٹائی، لیکن قصور آپکا بھی نہیں، ایک تو آپ سب نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ ہوجائے گا اور دوسرا آپکی پوری زندگی ہی ایسے گزری کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ۔ ۔ کڑوا کڑواتھو تھو۔ ۔
فاروق لغاری صدر اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم، جنرل ضیاء الحق کی برسی پر تقریر کرتے میاں صاحب بولے "یہ عورت نجانے کہاں سے آگئی، اس کو کس نے لا کر بٹھا دیا، یہ عورت پورے پاکستان کی تباہی وبربادی کر رہی، سکھوں کے خلاف بھارت کی مدد کرنے والی یہ عورت اور فاروق لغاری دونوں بدیانت، یہ انگریزوں کے کتے نہلانے والے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ 11 ستمبر تک بے نظیر بھٹو اور لغاری دونوں مستعفی ہو جائیں"، میاں صاحب نے مزید کہا "لوگو یہ کہتے ہیں کہ بھٹو شہید ہے، پاکستان کے دوٹکڑے کرنے والا بھلا شہید کیسے ہو سکتا ہے، اصل شہید ضیاء الحق ہے، بھٹو کا بھلا شہید ضیاء الحق سے کیا مقابلہ، ہم شہید ضیاء الحق کا مشن جاری رکھیں گے، میرے ساتھ مل کر بولو مردِ مومن مردِ حق۔ ۔ ضیاء الحق ضیاء الحق" وقت بدلا تو اب یہی میاں صاحب دوسروں کو ڈکٹیٹرز کا ساتھ دینے کے طعنے دے رہے، ایسی جمہوریت پر لعنت بھیج رہے جو ڈکٹیٹر کی مرہون منت ہو، باقی رہ گئے بی بی اور لغاری تو یہ بھی تاریخ کا حصہ کہ میاں صاحب نے لغاری صاحب کو جپھی ڈال کر بی بی کو فارغ کروایا اور جب کڑا وقت آیا تو بی بی سے میثاقِ جمہوریت کیا اور ضیاء الحق کی طرف کمر کرکے بھٹو کو نہ صرف شہید مانا بلکہ باقاعدہ گن بھی گائے۔
میاں صاحب فرمارہے "نااہلی کا فیصلہ نہ آتا تو اگلے دو چار سالوں میں بے روزگاری ختم کردیتا، سب کے پاس باعزت روزگار ہوتا، رہنے کیلئے اپنا مکان ہوتا، سب کو انصاف ملتا اورانصاف بھی ایسا کہ مجرم کو مہینوں میں سز ا مل جاتی"، بندہ پوچھے حضور اگر 35 سالہ اقتدار میں آپ روزگار نہیں دے سکے تو دو چار سالوں میں کیسے دے لیتے اور پھر اگر یہاں روزگار کے واقعی مواقع ہوتے تو آپ اپنے وزراء سمیت دوسرے ملکوں میں نوکریاں کررہے ہوتے، چلو آپ اقتدار میں رہ کر سب کو گھر نہ دے سکے لیکن اب یاد آہی گیا ہے تو اپنے ہزاروں کنال کے گھر سے غریبوں کو تین تین مرلے دیدیں یا صرف لندن والی جائیدادیں بیچ کر بھوکے ننگوں میں بانٹ دیں توہزاروں بے گھروں کو اب بھی گھر مل جائے، جہاں تک بات ہے مہینوں میں انصاف دینے کی تو قبلہ ماناکہ ہم خطرناک حد تک بے وقوف مگر پھر بھی ایسا نہ کریں، آپ نے سستا اور فوری انصاف کیا دینا، دلوانا تھا، ابھی کل ہی تو آپ فرما رہے تھے کہ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ انصاف کتنا مہنگا اور تھکا دینے والا عمل، پھر محترم آپکو شاید یاد نہیں رہا کہ ابھی بھی پنجاب اور مرکز میں آپکی حکومتیں، آپ یہ روٹی، کپڑا، مکان اور انصاف اب بھی دے یا دلواسکتے ہیں، ہاں اگر یہ سب آپ یا ثناء اللہ زہری نے خود اپنے ہاتھوں سے کرنا تھا یا یہ سب آپ دونوں کے بغیر نہیں ہوسکتا تو پھر یہ قوم واقعی بڑی بدنصیب کہ ایسے ہیروں سے محروم ہوچکی، باقی بلاشبہ آصف زرداری کے یہ الفاظ قابل تحسین نہیں کہ نواز شریف درندہ، ناسور، جمہوریت کی جڑیں کاٹنے والا اور کشمیریوں کے قاتل مودی کا ساتھی لیکن پہلی بات یہ کہ یہ باتیں کتنی سچی اورکتنی جھوٹی اور آصف زرداری کو یہ باتیں کیوں کرنا پڑیں، دوسری بات یہ کہ کیا اسی آصف زرداری کے بارے میں نہیں کہا گیا کہ "علی بابا چالیس چور، ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے، تمہارا پیٹ چیر کر لوٹی دولت نکالیں گے اور تمہیں لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے "۔
لیکن دوستو کیا کریں، وقت وقت کی بات ہے، کل جنہیں ڈکٹیٹر نے گود کھلایا، آج وہی ڈکٹیٹرز کو بُرا بھلا کہہ رہے، کل جنہوں نے بڑی محنت اور محبت سے ووٹ، ووٹرز کا تقدس پامال کیا، آج وہی ووٹ اور ووٹرز کے تقدس کی قسمیں کھا رہے، کل جو سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے، آج وہی تحریک عدل چلانے کی خوشخبریاں سنار ہے، کل جو 6 چھ ماہ کابینہ کا اجلاس بھول جاتے، 8 آٹھ ماہ پارلیمنٹ میں نہ آتے، سال سال سینیٹ کو منہ نہ دکھاتے اور جنہوں نے 90 فیصد فیصلوں کی پارلیمان اور پارلیمنٹ کو خبر نہ لگنے دی، آج وہی جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے اور کل 5 براعظموں میںجائیدادیں بناتے وقت جنہوں نے عوام کو پتا تک نہ چلنے دیا، آج وہی عوامی عدالتیں لگائے بیٹھے۔ ۔ اور پھر کیا کریں۔ ۔ اوپر سے قوم بھی ایسی کہ میاں صاحب سپریم کورٹ کی عزت کریں تو تالیاں، سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوں تو تالیاں، ضیاء کو شہید کہیں تو تالیاں، بھٹو کو شہید کہیں تو تالیاں، بی بی کو غدار کہیں تو تالیاں، بی بی کو شہید جمہوریت کہیں تو تالیاں، مودی کو گھر بلائیں تو تالیاں، مجیب الرحمان کو محب وطن کہہ جائیں تو تالیاں، طائر لا ہوتی جیسے شعر سنائیں تو تالیاں، طائر لا ہوتی کو گروی رکھ کر آجائیں تو تالیاں، نظریہ پاکستان کیلئے جان قربان کرنے کی بات کریں تو تالیاں، محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی سے ہاتھ ملائیں تو تالیاں، مشرف کو باہر بھجوائیں تو تالیاں، مشرف کو واپس بلائیں تو تالیاں، زاہد حامد سے مشاہد حسین تک مارشلائی جانبازوں کو ساتھ بٹھائیں تو تالیاں، آمروں کے خلاف آواز اُٹھائیں تو تالیاں، پرویز الہٰی کے طلال چوہدری اور مشر ف کے دانیال عزیزکو عوامی عدالت سے بری کروائیں تو تالیاںاوراپنے حصے کی ماریں کھانے والے جاوید ہاشمی کو بھول جائیں تو تالیاں، یقین جانیے یہی سب دیکھ اور سن کر ہی تو یہ کہنے پر مجبور کہ یادداشتیں کمزورتکلیف یہ بھی، اخلاقیات کا جنازہ اُٹھ چکا دُکھ یہ بھی، مگر اصل غم یہ کہ جہنم کے دروازے پر " یہ جنت ہے" کی تختی لگا کر کہا جارہا یہ "جنت تمہاری" اور خوشی سے پھولے نہ سمائی قوم اچھل اچھل کر تالیاں بجارہی۔