سچ تو یہ ہے!
پرویز الہٰی نے ریٹرننگ افسر سے پوچھا "ہماری پارٹی کا بیلٹ باکس کہاں ہے " وہ تالاب کی طرف اشارہ کرکے بولا" وہ دیکھیں چھپڑ میں تیر رہا ہے"۔
نواز شریف کی باری آئی تو گھبرا کر پرویز الہٰی سے بولے "میں تقریر نہیں کر سکوں گا، میری طرف سے بھی آپ بات کر دیں"۔
جنرل ضیا الحق نے کہا" میں نواز شریف کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، وہ اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد بھی کھو چکے، آپ بسم اللہ کریں، تحریک ِ عدم اعتماد پیش کریں، اللہ آپ کو مبارک کرے چیف منسٹر شپ"۔
نواز شریف نے 2 بار پرویز الہٰی کا ماتھا چوما اور شہباز شریف نے 10 منٹ میں 10 بار گلے لگایا۔
جنرل ضیانے وزیراعظم جونیجو، یاسین وٹو اور میری موجودگی میں زین نورانی سے جب یہ کہا"اگر جنیوا معاہدے پر دستخط کئے تو People will lynch you"تو صوفے کے آخری سرے پر بیٹھے جنرل ضیا غصے میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور نیچے گر گئے۔
جونیجو کا ساتھ نہ چھوڑنے پر ناراض نواز شریف نے الیکشن سے ایک روز پہلے میرے بھائیوں وجاہت حسین اور شفاعت حسین سمیت کئی کارکنوں پر مقدمات کروا دیئے، لیکن جب ہم سب جیت گئے تو نواز شریف کے فون آنے لگے کہ " اگر آپ نے صلح نہ کی تو پنجاب میں پی پی کی حکومت بن جائے گی "۔
غلام اسحق خان نے جب بینظیر بھٹو کو فون کر کے کہا " میں آپکی حکومت برطرف کر رہا "تو بی بی بوکھلا کر بولیں "آپ نے تو صبح تردید کی تھی"غلام اسحق نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا"میں نے یہ فیصلہ آج دوپہر کے بعد کیا ہے "۔
میں نے نواز شریف سے کہا" چاپلوسوں کی باتوں میں نہیں آنا، منافقوں سے دور رہنا اور"مَیں مَیں " سے بچنا ہے " میاں صاحب نے میری تینوں باتوں پر عمل کیا مگر الٹ۔
غلام اسحق بولے "چوہدری صاحب یہ اخبار والے آپکے خلاف بہت کم لکھتے ہیں، کیا آپ ان پر پیسے لگاتے ہیں "۔
1990 میں جب اسلامی جمہوری اتحاد جیت گیا تو مقتدر حلقے یہ کہنے لگے چونکہ نواز شریف پنجاب سے اور وزیراعظم چھوٹے صوبے سے ہونا چاہئے، لہذا نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کی فہرست سے نکال دیں، تب جنرل آصف نواز نے واشگاف الفاظ میں کہا "اگر نواز شریف کو مطلوبہ اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے تو انہیں ہی وزیراعظم ہونا چاہئے "۔
آفتاب فرخ نے شہباز شریف سے کہا"میاں صاحب کم ازکم پرویز الہٰی کو تو سچی بات بتا دیں کہ کمر درد تو بہانہ، اصل میں آپ مقدمات سے بچنے کیلئے لندن جارہے "۔
ہمیں گرفتار کرنے والے رحمن ملک وہی تھے، جنہیں میرے والد نے اپنی وزارت میں نوکری دی، جیل میں نواز کھوکھر کو ہر وقت اپنے کاروبار کی فکر لگی رہتی، بعد میں اُنہوں نے زرداری صاحب سے دوستی کرکے ضمانت کروا لی، حمزہ شہباز کی پسندیدہ ڈش ہمارے گھر سے آتی، بریگیڈئیر امتیاز جیل میں پریشان رہتے، شیخ رشید کا حوصلہ جیل میں بھی بلند رہا، میاں عباس شریف اپنا کھانا بلیوں کو کھلا کر گھنٹوں بلیوں سے باتیں کرتے رہتے اور میاں نواز شریف نے جیل پہنچتے ہی "چکن سوپ" کی فرمائش کی۔
قربانی کے بکرے تو میاں منیر احمد، طارق عزیز، میاں معراج دین اور چوہدری اختر رسول بنے، حالانکہ شہباز شریف خود اسپیکر پر اعلان کر رہے تھے کہ تمام کارکن (سپریم کورٹ پر حملہ کرکے واپس آنے والے ) پنجاب ہاؤس سے کھانا کھا کر جائیں، سب کیلئے قیمے والے نانوں کا انتظام کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے کہنے پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے فون ٹیپ ہو رہے تھے، ایک روز چیف جسٹس کو اپنے بیڈروم کی سائیڈ ٹیبل کے نیچے لگی ریکارڈنگ ڈیوائس بھی مل گئی، جب اُنہوں نے تمام ثبوتوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرنے کی ٹھان لی تو پریشان حال میاں نواز شریف نے مجھے او رخالد انور ایڈووکیٹ کو چیف جسٹس کو منانے کیلئے بھیجا اور ہم نے بڑی منتوں سماجتوں کے بعد انہیں منا یا۔
نوا ز شریف نے گوہر ایوب سے کہا" کیا ایسے نہیں ہو سکتا کہ چیف جسٹس کوا یک رات کیلئے گرفتار کیا جاسکے"۔
رفیق تارڑ پنجابی میں بتانے لگے "شجاعت، میں پنشن لین لئی بینک گیا ہو یا ساں، اک فون آیا کہ تارڑ صاحب میںنواز شریف بول ریا واں، میں فیصلہ کیتااے کہ تہانوں ملک دا صدر بنا دتا جاوے، مینوں سمجھ نہ آئی کہ فون نواز شریف دا اے یا کوئی میرے نال مخول کر رہیا اے، میں فون کرن والے نوں آکھیا کہ میںگھر جاکے تہانوں فون کرناں واں، فیر مینوں خیال آیا کہ میں کدھرے خواب تے نیئں ویکھ رہیا، ایس گل دی تصدیق لئی میں اپنی ران تے چونڈی وی وڈھی۔
قذافی نے تلخ لہجے میں کہا" ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے مجھے اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا، اور دوسرا مسئلہ کشمیر پر میں نے پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کو خطوط لکھے کہ اگر کشمیر کو مکمل خود مختار ریاست بنا دیا جائے تو نئی ریاست کو چلانے کیلئے تمام مالی وسائل لیبیا فراہم کرے گا، بھارتی وزیراعظم نے تو میرے خط کا جواب دیا لیکن آپکے وزیراعظم نے اس کی زحمت بھی گوارانہ کی "۔
یہ بات بالکل غلط ہے کہ پرویز مشرف نے نواز شریف کو کارگل آپریشن سے بے خبر رکھا، وزیراعظم نواز شریف کو پہلی بار 29 جنوری 1999 کو اسکردو اور دوسری بار 5 فروری 1999 کو کیل میں بریفنگ دی گئی، اسکے علاوہ 12 مارچ 1999 کو نواز شریف اور وفاقی وزراء کو فوجی افسروں نے کارگل کی تازہ ترین صورتحال سے بھی آگاہ کیا، بقول جنرل مجید ملک اس میٹنگ کے اختتام پر نواز شریف نے کہا"آئیے ہم سب مل کر کارگل آپریشن کی کامیابی کیلئے دعا کریں "۔
ایک مرتبہ میاں شریف نے پرویز مشرف کو بیگم کے ہمراہ گھر کھانے پر بلا کر کہا "آپ میرے چوتھے بیٹے ہیں "اسی روز میں اور پرویز الہٰی میاں شریف سے ملنے گئے تو وہ بولے " میں نے نواز سے کہہ دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو فوراً فارغ کر دو، میں نے اسکی آنکھیں دیکھی ہیں، بڑی خطرناک ہیں "۔
رانا مقبول نے غوث علی شاہ سے کہا ہم ائیر پورٹ چلتے ہیں، اگر جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کر لیا تو ٹھیک ورنہ ہم کہیں گے سر ہم آپکا استقبال کرنے آئے ہیں۔
اعجاز بٹالوی نے بتایا کہ اٹک قلعے میں نواز شریف نے بیگم کلثوم نواز اور ایک شخص کے سامنے مجھے جیب سے ایک کاغذ نکال کر پکڑایا اور کہا" اسے ذرا پڑھ لیں، میں نے پڑھا تو یہ ایک معاہدہ تھا، جس کے مطابق نواز شریف اگلے دس سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے " میں نے پوچھا "کیا آپ نے اس معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں "نوا زشریف نے جواب دیا "ہاں " میں نے کہا " میاں صاحب آپ نے اپنے ڈیتھ وارنٹس پر دستخط کر دیئے ہیں "۔ جس روز شریف خاندان جدہ جا رہا تھا تو غوث علی شاہ نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں، شہباز شریف بولے "ہم کسی سے ملنے جارہے ہیں دوگھنٹوں میں واپس آجائیں گے "۔
ڈاکٹر عبدالقدیر نے بڑے پن کا ثبوت دیا اور ملک وقوم کے مفاد میں سار ی ذمہ داری اپنے سر لے لی، جنرل پرویز مشرف نے قومی ہیرو کے ساتھ ظلم و زیادتی کی۔
میں نے پرویز مشرف سے کہا" اسی وقت گاڑی نکالیں، بیگم صاحبہ کو ساتھ لیں اور چیف جسٹس کے گھر جا کر انہیں" "جپھا" ڈال کر مبارک باد دیں اور کہیں قانونی جنگ آپ جیت گئے، اب آئیے مل کر آگے بڑھتے ہیں "۔
ایک رات میں کسی کو بتائے بنا خیمے سے باہر نکل آیا اورچارو ں طرف تباہی وبربادی دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، کافی دیر بعد طارق عظیم مجھے ڈھونڈتے ہوئے آئے اور اٹھا کر واپس خیمے میں لے گئے۔
اکبر بگٹی بولے "اگر ظفر اللہ جمالی سچے ہیں تو دہکتے انگاروں پر چل کر دکھائیں "۔
ابھی گنتی بھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ گجرات میں مجھے جنرل پرویز مشرف کا ٹیلی فون آیا، کہنے لگے " چوہدری صاحب آپکو 35 چالیس نشستیں ملیں گی، آپ نے نتائج تسلیم کر لینے ہیں، کوئی اعتراض نہیں کرنا"۔
دوستویہ تاریخی" ٹوٹے "چوہدری شجاعت حسین کی کتاب "سچ تو یہ ہے "سے، گو کہ 328 صفحات کی پڑھنے لائق اس کتاب میں چوہدر ی صاحب نے کافی کچھ بتادیا مگر نجانے کیوں لگے کہ وہ ابھی بھی بہت کچھ چھپاگئے، لیکن یہ ان کی ہمت کہ وہ اتنا بھی بتا گئے اور یقین جانئے یہی پڑھ کر میری نظر میں ان کی عزت بحیثیت انسان مزید بڑھ گئی، میرا یہ ماننا کہ چوہدری صاحب کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، ان کے سیاسی فیصلوں پراعتراض ہو سکتا ہے لیکن چوہدری صاحب بلکہ چوہدر ی خاندان کی سیاسی و ضعداری، رکھ رکھاؤ اور تحمل ان سب باتوں سے بالاتر، اُنہوں نے ہمیشہ عہدوں پر انسانوں کو ترجیح دی اور اپنی 40 سالہ سیاست میں زیادہ تر دلیل مار کر بندے اور رشتے بچا ئے بلکہ میرا تو یہ گمان کہ وہ نواز شریف جنہوں نے 8 بار انہیں دھوکہ دیا اگروہ بھی آج آکر انہیں جپھی ڈال لیں تو چوہدری صاحب نویں مرتبہ دھوکا کھانے کیلئے بھی تیار ہو جائیں، لہذا یہی سب دیکھ اور پڑھ کر، سو باتوں کی ایک بات کہ "سچ تو یہ ہے " اگر ہماری سیاست میں چوہدری صاحب جیسے 15 بیس رہنما اور ہوتے توہماری سیاست آج گالی بننے سے بچ جاتی۔